ابتدائے عشق
ہے روتا
ہےکیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا
ہےکیا
قافلے میںصبح کے اک شور
ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا
ہےکیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں
تخمِ خواہش دل میں تو بوتا
ہےکیا
یہ نشانِ عشق
ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا
ہےکیا
غیرت ِ یوسف
ہے یہ وقتِ عزیز
میر اس کو رائگاں کھوتا
ہےکیا
.............
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانہء دل سے زنہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور ایک آسماں سے اٹھتا ہے
لڑتی ہے چشمِ شوخ اس کی جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
دور کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک
میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے