|
مسرت افزاء روحی لہو میں غم کی رعنائی بہت ہے کہ زخموں میں شناسائی بہت ہے کرن اک آرزو کی ڈھونڈ لاؤ شبِ ہجراں میں تنہائی بہت ہے کیا کیوں آب وگل کا یہ تماشہ تجھے شوق ِخود آرائی بہت ہے سر ِساحل سفینے غرق کیوں ہیں سمندر میں تو گہرائی بہت ہے ستانا چھوڑ دوآشفتگاں کو انہیں جذبوں کی رعنائی بہت ہے نصابِ آذری پتھر ہی لکھنا کہ پتھر سے شناسائی بہت ہے بہ نوک ِ خار روحی گل کھلا ہے مگر اس میں بھی رعنائی بہت ہے مسرت افزاء روحی کیسا الفت کا صلہ دیتے ہو روز اک زخم نیا دیتے ہو بات کرتے ہو قرینے سے مگر شعلہ جاں کو ہوا دیتے ہو تم نے دیکھے نہیں پتھر کے صنم پھر بھی بت خانہ بنا دیتے ہو کسی آذر نے تراشا ہے وہ دل جس کو دھڑکن کی سزا دیتے ہو جب بھی گلشن سے گزرہوتا ہے خار گلشن میں بجھا دیتے ہو ہے ستم دستِ طلب سے پہلے سنگ درسے ہی اٹھادیتے ہو مسرت افزاء روحی نہ جانے کونسی رُت کا عذاب باقی ہے فضا ٘ میں حبس کا رقصِ عتاب باقی ہے خزاں سے کہہ دو کسی اور جا قیام کرے کہ شاخ گل پہ ابھی تک گلاب باقی ہے مجھے زمانہ شناسی کا فن نہیں آتا مری خودی میں انا کا شباب باقی ہے کہو تو لوٹ بھی آئیں گے ہم تری خاطر محبتوں کا ابھی کچھ حساب باقی ہے دعاءے نیم شبی اب قبول ہو کہ نہ ہو ابھی تو پچھلے پہر کا عذاب باقی ہے کہیں تو چارہ گری کا ہنر ملے روحی شعور نو میں مضامیں کا باب باقی ہے |