|
محمد ندیم بھابھہ تمام عمر جلے اور روشنی نہیں کی یہ زندگی ہےتو پھر ہم نے زندگی نہیں کی ستم تو یہ ہے کہ میرے خلاف بولتے ہیں وہ لوگ جن سے میں نے بات بھی نہیں کی مری سپاہ سے دنیا لرزنے لگتی ہے مگر تمہاری تو میں نے برابری نہیں کی جو دل میں آتا گیا صدقِ دل سے لکھتا گیا دعائیں مانگی ہیں میں نے تو شاعری نہیں کی ہزار بار ہوئے زندگی سے شر مندہ مگر تمہارے بھروسے پہ خودکشی نہیں کی بس اتنا ہے کہ مرا بخت ڈھل گیا اور پھر مرے چراغ نے بھی مجھ پہ روشنی نہیں کی کچھ اس لئے بھی اکیلا سا ہوگیا ہوں ندیم سبھی کو دوست بنایا ہے دشمنی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |