Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

ڈاکٹر نگہت نسیم کی کتاب سفید جھیل کی تقریب رونمائی

فرخندہ رضوی

سفید جھیل میں تیرتے لفظوں کے کنول

چند لفظ اسٹریلیا سے آئی ہو ئی ایک خوبصورت شاعرہ،افسانہ نگار اور کالم نگار ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ کی دو کتابوں ایک شعری مجموعہ ،اور کالم نگاری کی پر لکھنے جارہی ہوں ۔سب سے پہلے تو اس بات کا اعتراف کرتی چلوں کہ نگہت نسیم سے میری دوستی دنوں پر نہیں پچھلے کئی سالوں پر محیط ہے۔لمحوں کو دن اور دنوں کو سال بنتے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔جب جب وقت کی گرفت سالوں پر حاوی ہوتی ہے تب تب تعلق مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں ۔میں نے ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ،کے افسانے پڑھے،شاعری و کالم نگاری کا سلسلہ بھی نظروں سے گزرتا ہی رہا۔مجھے یہ فیصلہ کرنے میں کافی دشواری ہوئی کہ کیا مصنفہ اچھی افسانہ نگار ،شاعرہ یا پھر کالم نگار ہیں ۔آج اس حق کو پوری ایمانداری سے استعمال کرؤں گی۔قلم کو امانت سمجھتے ہوئے آج بھی لفظوں کی حُرمت کی پاسداری کرتے ہوئے کہ نگہت نسیم صاحبہ سب سے پہلے تو بہت اچھی انسان اور اچھی دوست ہیں ۔نہیں چاہتی کہ دوستی کا قصہ بیان کرتے ہوئے نگہت نسیم کی ادبی و فنی خوبیاں میرے لفظوں کی قرض دار ہو جائیں بلاشبہ نگہت صاحبہ کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جسے علم و ادب وراثت میں ملا۔خدمت خلق

کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔نگہت کی شاعری بھی انہیں خصوصیت سے لبریز ہے۔زبان صاف ستھری،سادہ ،ادبی ماحول میں تربیت پانے کی وجہ ہی سے زبان پر مکمل طور پر دسترس حاصل ہے۔ہراچھے اور حقیقی شاعر کی طرح نگہت ایک مخصوص فضا پیدأ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو اسے ہر دوسری شاعرہ سے ممتاز کرتی ہے ۔کسی شاعریا شاعرہ کو پڑھنا ،پسند کرنا اور اس کے کلام سے زندگی کے رویے سیکھنا الگ بات ہے لیکن کسی شاعرہ میں ایسی قوت کا ہونا جو قاری کو اپنے خوابوں میں شریک کر لے۔یہ ایک الگ منطق ہے۔نگہت نسیم صاحبہ بنیادی طور پر مجھے نظم کی شاعرہ زیادہ لگیں نظمیں بھی ایسی کہ ذہن و دل کے دریچے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔

۔نگہت نسیم صاحبہ کی شاعری ہو،کالم نگاری یا پھر افسانے ۔ان کی تحریر کے مطالعے سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ انہیں حقیقت نگاری کرنے کا بڑا شوق ہے اور کہانی ،کالم میں ابلاغ کو ضروری سمجھتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر کالم میں زندگی کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہے۔پَل پل گزرتی حیات کی لمحہ لمحہ کہانیاں اشعاروں میں ڈھلتی ہی جاتی ہیں ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کے لفظ حقیقت کی جب ترجمانی کرنے لگتے ہیں تو پڑھنے والوں کا دل چاہتا ہے کہ اُس لکھاری کو کم از کم یا تو قریب سے دیکھیں یا پھر اس کی شخصیت کو لفظوں سے پہچان پائیں ۔المیہ کہانیاں لکھنے والے اپنے کرداروں کی طرح محبت،عقیدت ،آہوں و خوشیوں میں ویسے ہی مبتلأ ہوتے ہیں ۔میرا دل بھی کچھ ایسا ہی چاہنے لگا کہ اس مصنفہ پر کچھ لکھوں ۔نگہت کی شخصیت کا عکس اُس کی ہر کہانی ،اشعار اور کالم میں جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔جب وہ نظروں سے دیکھے خوشی و غمی کے واقعات کو دل ودماغ کے دریچوں سے صفحہ قرطاس پربکھراتی ہے تو بھول جاتی ہے کہ لفظوں میں محبت کے ساتھ آنسوؤں کی نمی بھی ساتھ اُترتی چلی آتی ہے۔کسی کی خوشی پر اُس کے قہقہے اس بات کی ضمانت ہوتے ہیں کہ وہ اُن کی خوشی میںکتنی خوش ہے۔وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تو ہیں ہی۔

ہر مریض کا درد اپنا لیتی ہیں ۔پھر انہیں کے درد لفظوں میں پروہنے لگتی ہیں ۔وہی لفظ کبھی نظموں اور کبھی غزلوں میں ڈھلتے جاتے ہیں ۔اسے کہانی لکھنے کا فن آتا ہے۔اس کے کردار خود قاری کو کہانی سناتے محسوس ہوتے ہیں ۔انہوں نے زندگی کے ہر مسلۓپر قلم اُٹھایا ہے۔ان کی زندگی کا محور صرف عورت نہیں ،اپنے ملک کی ہروہ تکلیف ہے۔ان کی یہ کالم نگاری کی کتاب ان کے قلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہی جداگانہ اسلوب انہیں صرف منفرد لفظیات ہی نہیں بلکہ خیال اور سوچ کا مختلف انداز ترکیب کے ساتھ یکجا ہو کر احساس کی شدت پیدا کرتا ہے۔اور پھر یہی شدت قاری کے دل پر راج کرنے لگتی ہے۔

ان کی شاعری کے مختلف رنگ مختلف مناظر پیش کرتے ہیں کہ جن تک کوئی جذبہ حساس ،ہی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔نگہت نسیم اردو ادب کا وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مُرجھا نہیں سکتا ۔

آج کے اس چھوٹے سے مضمون میں نگہت نسیم صاحبہ کے تمام کارنامے سمیٹنا ممکن تو نہیں۔

ایسے مواقع پر ہمیشہ ساتھ رہنے والے لفظ میرا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔آج مجھے

اس لائق احترام ،بہترین ،بے غرض انسان دوست کے لئے لکھنا کم از کم بے حد دشوار لگا ۔

ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ نے بے شمار تحریریں وجود میں لانے کا بوجھ اپنے توانا کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ایسا جیتا جاگتا اور زندہ رہنے والا ذہن جس کی مثال کوئی نہیں ۔بے حد حساس ہونے کی وجہ سے اپنے معاشرے کے تمام مسائل کو اپنے پر پوری طرح حاوی کر لیتی ہیں ۔

نگہت نسیم اچھی شاعرہ،اچھی افسانہ نگار ،کالم نگار ،یا پھر اچھی دوست ہیں میں تو فیصلہ کر ہی نہیں پائی ۔میں چاہتی ہوں ان کی کتابوں سے یہ استفادہ حاصل کیا جائے۔ان کی ایک خوبصورت نظم کی چند سطریں آپ سب کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔

میری نظر سے جب تُم خود کو دیکھتے ہو گے۔

سنو اک بات کہوں

تمھارے لبوں سے جب میںخود کو پکارتی ہوں

تُم جیسا کہنے لگتی ہوں

تُم جیسا ہونے لگتی ہوں

لیکن جانے کس لیے۔۔۔حیران ہے یہ دنیا

اور کیوں دوست آپس میں یہ کہہ رہے ہیں

ہمارے لہجے رویئے سب ایک ہو رہے ہیں ۔

میری تمام دعائیں نگہت نسیم کے لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح انہیں کامیابی و کامرانی سے نوازے

افسانہ نگاری ،شاعری،کالم نگاری ،دوستی ان چار رنگوں کی دھنک ہمیشہ یونہی اپنی شناخت بنائے رہے۔سفید جھیل میں تیرتے لفظوں کے کنول یہونہی مہکتے رہیں ۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE