|
نصرت زہرا
شب کو تھا وہ کسی کی بانہوںمیں آگ جلتی رہی نگاہو ں میں کشتیاں جل گئی ہیں سب شاید اک دھواں ہے کسی کی آہوں میں تیرے کوچے میں وہ نہیں آیا برف سی جم گئی تھی راہوں میں کھل کے برسا نہیں کبھی ساون ایک بادل ہے ان نگاہوں میں کب تجھے بھول پائی پل بھر کو یہ بھی شامل مرے گناہوں میں کون جانے کہ شام ڈھلتے ہی کتنے نوحے تھے ان فضاؤں میں صبح آئی ہی نہیں صدیوں سے ہاتھ اٹھے رہ گئے دعاؤں میں
نوکِ ہر خار پر جو خوں ٹھہرا مری ہستی میں تو جنوں ٹھہرا تری راہوں کو چن لیا دل نے پھر مرے خواب کا زبوں ٹھہرا جانے کس دھن میں چل رہی تھی ہوا خطہ ء یا س میں سکوں ٹھہرا رنگ بدلے کئی زمانوں نے دل کا نوحہ کہ جوں کا توں ٹھہرا میں ہنسی بھی میں گڑگڑائی بھی وہ نہ یوں ٹھہرا اور نہ یوں ٹھہرا کیا کہا تونے دل گرفتہ سے پرچمِ آس سرنگوں ٹھہرا مضمحل تھا کوئی بہت کل رات پھر طلسمات کا فسوں ٹھہرا
اک عجب سر خوشی نگا ہ میں ہے جیسے تو پھر سے مری چاہ میں ہے تو بھی رہ رہ کے مجھ کو یاد کرے میرا بھی دل تری پناہ میں ہے تیز بارش ہے اور چراغ میرا کیسا گھمسان اس سپاہ میں ہے دھوپ سر پر ،برہنہ پا بے گھر خود فراموشی تو گناہ میں ہے چادرِ شب ہے اور صفِ ماتم مضمحل کوئی غمِ شاہ میں ہے ۔
کیسے طوفان اس سفر میں ہیں جیسے کچھ حادثے نظر میں ہیں میرے بھی دل میں راکھ اڑتی ہے ترے بھی خواب اس اثر میں ہیں وہ گھنا پیڑ ہو کہ سایہ طلب آخرش سب ہی چشمِ تر میں ہیں پیاس سے دم میرا گھٹتا ہے شب کے سناٹے بھی خبر میں ہیں خواہشِ بے نوا ہے جب سے سوا تیرے افسانے ہر نگر میں ہیں |