Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

اوکاں والا سکول

طاہرہ اقبال
کھلونوں کا دور تو بے خبری میں گزر گیا لیکن گھڑیاں پن پینسلیں، سائیکلیں اور کھانے پینے کی اشیاء کے شعور نے خواہشات کے جن کوہلہلا کر بیدار کر دیا تھا۔
 اوکاں والا سکول پل کے دونوں اطراف سجی دُکانوں کے بیچ یوں مہکتا جیسے پانیوں میں گھرا کوئی خشک ٹیلہ، جس کے قدموں میں سیرابی بچھی ہو لیکن چوٹی خشک تر ہو۔ آدھی یا پوری چھٹی کے وقت طالبِعلم مکھانے پر مکھیوں کی طرح سجی سنوری دُکانوں پر جھپٹتے۔ دُکانوں کے چھجوں کے ساتھ ٹکرا کر بار بار گزرتے اور ہتھیلیوں پر رالیں ٹپکاٹپکا کر چاٹتے تو دُکان دار اُنھیں یوں گھرکتے جیسے کتے بلی کو قصائی دھمکاتے ہیں۔ ان لڑکوں کی گھسی پھسی وردیوں میں سے کُہنیوں اور گھٹنوں کی سوکھی سڑی سیاہ مسوں والی جلدجھلملا جاتی۔ کف اور کالروں کی کریزوں سے بوسیدہ ریشے جھڑتے اور وہ طالبِعلم جن کی وردیوں کی اکڑبرقرار ہوتی جن کے نام کے ساتھ چودھری یا ملک لگا ہوتا، وہ برف کے گولے، کلفیاں، جلیبیاں ہاتھ میں پکڑ کر چلتے تو پیچھے،گانڈوں والی چپلیوں اور اُدھڑی ہوئی سلائیوں والے پائنچوں کا جلوس گھسٹتا کبھی کسی کو وہ برف والا گولا چٹا دیتے یا کلفی والی تیلی چسوا دیتے۔ تب باقی ماندہ حلقوم کی پیاس نہر کے پانیوں کے مقابل زیادہ گہری زیادہ بسیط ہو جاتی ۔
 نیازنہر کے پرلے کنارے درختوں کے سائے تلے کتابوں والا جھولا سامنے کھولے بظاہر پڑھ رہا ہوتا لیکن اُس کا خشک حلق اور خالی پیٹ نہر کے دونوں اطراف بوتلیں پیتے گول گپے اور آلو چھولے کھانے والوں کے پیچھے پیچھے رالیں ٹپکاتے ہجوم میں سب سے آگے ہوتا۔ تب مٹی کا تھوبا سا حلق میں لیپ ہو جاتا۔ لال ہرے پونے میں بندھی خشک روٹی کچا آٹا ہو جاتی پیاز یا اچار کی پھانک مرجھا جاتی اور بھوک کا ننگا سورج سوا نیزے پر لٹکنے لگتا۔ نہر کا پانی جھرجھر کنارے توڑتا۔ قلقل راجباہ میں گرتا۔ راجباہ کھالوں میں اپنا دھانہ اُلٹ دیتے جیسے خالی پیٹ میں بھوک دوڑتی ہانپتی بڑی انتڑیوں سے چھوٹی آنتوں میں چھوٹی آنتوں سے نازک نازک وریدوں میں سرپٹکتی ہو۔ خالی پیٹ میں بھوک کی کوکاریں یوں بجتیں جیسے موگھے راجباہ میں گرتے ہیں تو وحشی پھنکاریں اُڑتی ہیں۔
 پل کے دونوں اطراف کھیتوں کو مہکاتے کڑاہی گوشت اور بریانی پلاؤ کا تصور تو نیاز کے دماغ کی ساری نسوں، وریدوں اور اُن کی وسعتوں سے کہیں بڑا تھا لیکن نان ٹکی، کلفی، برف کا گولا حلق کی سرنگ میں خفیہ خفیہ کئی ذائقے دار رطوبتیں پیدا کردیتا اور دو سے پانچ روپے تک کی خواہش نس نس میں رالیں ٹپکاتی پھرتی۔
 اوکاں والا بنگلہ میں ریمونٹ کے گھوڑوں کی کھرلیاں تازہ بہ تازہ لوسن برسیم سے بھری رہتیں۔ سیاہ چنوں کے دلیے کی مشک بار سلونی لپیٹیں اُٹھتیں۔ سنگی چٹانوں سے گھوڑوں کو بنگلے کے ملازم کھپریل اور مالش کرتے پسینہ پسینہ ہو کر بہتے سم کاٹتے ایال اور یونی ٹیل میں کنگھے پھیرتے۔ مضبوط پھڑکتے تڑپتے ہوئے مسلز آہنی پشت اور دراز ٹانگوں پر تیل جھستے اور مربعے پال گھوڑیوں کو حاملہ بنانے کو انھیں ہر وقت تیار رکھتے۔ بنگلے میں بھرے ست برگے اور گلِ داؤدی کے زردرو پھولوں پر مدھو مکھیاں منڈلاتیں اور شہد کے مخروطی چھتے بناتیں، جو شیشم اور کیکروں کے جھنڈمیں بادبان سے تنے رہتے۔ اندھیری راتوں میں جن کا شہد تو وہ لڑکے چواتے جو پنجاب کی مٹی جیسے دھیمے اور لاغرض مزاج ہوتے، جن کے خمیر میں تخم پالن ھار کی مشقیں گندھی ہوتیں لیکن باردانہ وہ اُٹھا لے جاتے۔جو ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح سم مارتے تو دھرتی میں سے دھمک پھوٹتی، ہنہناتے تو فضاتھراتی۔ جو بھری ہوئی کھرلیوں میں سے تازہ بہ تازہ چارہ چرتے اور نسل کشی کے لیے تیار رہتے، جن کے نام کے ساتھ ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح خاندانی سلسلے جڑے ہوتے۔ تازی مشکی، تھاروبریٹ کتنے نسلی تفاخر لگے ہوتے جن کے کتوں اور مویشیوں کے بھی نسلی شجرے محفوظ ہوتے۔اسی لیے اوکاں والا سکول کے نیاز جیسے طالبِعلموں کو وہ رولٹ کتوں کی طرح دھتکارتے لیکن اُن سے مقابلے، حسد یا نفرت کا بھکرہ بھی ان غبی دماغوں کی بنجر زمینوں میں کبھی نہ پنپتا۔ البتہ نیاز ان لڑکوں کو حسد اور نفرت سے ضرور دیکھتا جو خود تو چھلنی کی سی وردیوں میں سے آرپار نظر آتے لیکن اُن کے دوست ہوتے جو اپنے لفافے میں سے اُنھیں کھلاتے۔ اپنے سائیکل کے کیرئیر پر اُنھیں سوار کرواتے اور ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح اُن پر حاوی رہتے جیسے وہ کوئی مربع پال گھوڑیاں ہوں۔ نیاز ان کھلانے والے سائیکل سواروں کو ایسے دیکھتا جیسے وہ بھری کھرلیوں پر ٹاپیں جھاڑتے مضبوط جسموں والے نرگھوڑوں کو دیکھتا تو خوف اور رُعب کی تھرتھراہٹ سی بدن میں دوڑ جاتی۔ جب وہ اپنے گاؤں سے آٹھ مربعوں کے پندھ پر واقع اوکاں والا اسکول کی طرف منہ اندھیرے نکلتا تو سائیکل سوار لڑکے گھنٹیاں بجا بجا کر ان پیادوں سے راستہ لیتے۔ اُس وقت گندم کے انگوری کھیتوں کو کہرا برف پوش بنا چکا ہوتا جیسے بلور کی زبانیں کھلے حلقوم سے باہر لٹکتی ہوں پالا کھائی بھربھری مٹی روڑ بن سکڑتی جس طور گھنٹی کی آواز پر یہ پیدلیے بنوں مینڈھوں پر سمٹ جاتے اور کھلی سڑک ان سائیکل سواروں کی جاگیر ہوتی۔
 سائیکل کا حصول تو اُس کے دماغ کی وسعتوں میں کہیں سمانہ سکتا تھا لیکن کیریئریا مڈگارڈ پر بیٹھنے کی خواہش اُسے اکثر لتاڑ دیتی کہ جن لڑکوں کو یہ اعزاز ملتا وہ اُس کے پاس سے گزرتے تو ٹھینگے دکھاتے چٹکیاں اور تالیاں بجاتے ڈھولے گاتے جیسے وہ ان پیدلیوں کے مقابل اُڑن طشتریوں پر سوار آسمانی سڑکوں کو پایاب کر رہے ہوں۔سائیکل،کچی دھول کے طوفان اُڑاتے نہر کے کنارے کنارے دریائی پانیوں سے مہکتی سروے کی چوڑی سڑک پر ریمونٹ کے گھوڑوں کو سائیس سیر کروانے سویرے سویرے نکلتے تو ان کی ٹاپوں سے جھڑتی دھول میں سارا ماحول غبار آلود ہو جاتا جس میں مضبوط ٹاپوں کی ٹک ڈھک ڈھک ٹک سہما دیتی۔ اوکاں والا سکول کے پیدل چلنے والے لڑکوں کی بوسیدہ وردیاں،پلکیں، بال سب گھٹے میں لتھڑ جاتے جیسے دھول کی اندھی سرنگوں میں لوٹتے ٹکراتے باہر نکلے ہوں کبھی کوئی لڑکا نیاز کے قریب سائیکل لاکربریک لگاتا۔
 ’’نیازوآ بیٹھ جا کیریرپر‘‘
 نیاز دھول میں گوہ کی طرح رینگتا ہوا کیریر پر پشت ٹکانے ہی لگتا کہ وہ سائیکل بڑھالے جاتا اور نیازدھول کی سرنگوں میں اوندھے منہ لتھڑپتھڑ ہو جاتا اور پیچھے سے آنے والے سائیکل سوار ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح ہنہناتے سائیکلوں کے سم جھاڑتے اُسے لتاڑتے گزر جاتے تب گھنٹیوں کی آوازیں دماغ کو چھیدتیں اور بدن ٹائروں تلے گتاوہ ہو جاتا اور کیریئر پر بیٹھے ہوئے اُسے درانیتوں کے قابل معلوم ہوتے۔ اُس کے بس میں ہوتا تو وہ ان کا گالا بنا چارے والی مشین میں لگا دیتا اور پھر ان کا کترا ہوتے ہوئے دیکھتا۔
 نیاز اوکاں کے جھنڈ میں گھسا گھر کا کام مکمل کرتا اور کتابوں والا جھولا باغ کے راکھے کے پاس امانتاً رکھوا جاتا کہ اُس کی جھگی میں تو جھولا اٹکانے کی گنجائش ہی نہ تھی کہ جھگی کے بل میں تو اُس کے بہن بھائی اورکیڑے مکوڑے کلبلاتے رہتے ۔نرمے کی قدآدم فصلوں کے ساتھ ساتھ ریمونٹ کے نرگھوڑوں کی طرح چودھری طالب ہاتھ میں برف کا گولا پکڑے پل سے اُترا اور بنے بنے نیاز کے پاس آ کر بریک لگایا اور گولا نیاز کی سمت بڑھادیا۔ نیاز کو لگا اُس کے اندر سے پسینے کا موگھا سا کھل نکلا ہے۔ اُسے یقین تھا کہ وہ گولے کی سمت پیاسے لب بڑھائے گا تو گولا چودھری طالب اپنے منہ میں رکھ لے گا اور اُسے ٹھینگا دِکھا پیڈل مارنے لگے گا۔ اُس جیسے لڑکوں کے ساتھ ایسا روز ہوتا ہے۔ چودھری طالب نے قطرہ قطرہ ٹپکتا شیرہ چوسا اور ہری لال میٹھی برف کا گولا نیا زکے لبوں سے چھوا دیا۔ اُس کے پپڑی جمے خشک لبوں سے میٹھا رس چھوا تو سوکھے لعاب میں چپکے ہوئے لب پٹ سے کھل گئے نیاز کا جی چاہا ایک ہی ڈیک میں پورا گولا گھول کر حلقوم سے نیچے اُتار لے۔ لیکن اُس نے اس خوف سے گولاباہر اُگل دیا کہ کہیں وہ اُس کے پیٹ میں لات نہ دے مارے اور اُس کا چوسا ہوا رس منہ ناک سے اُبل نہ پڑے، جیسے ریمونٹ کے گھوڑے سم مار مالشیے کو اَدھ موا کر ڈالتے ہیں اور وہ کھایا پیا باہر اُلٹے لگتا ہے۔
 چودھری طالب ایک بار گولا خود چاٹتا پھر اُس کے لبوں سے لگا دیتا۔ طالب کے لبوں والا گولا چوستے ہوئے نیاز کو لگا یہ ایک روپے کی عیاشی کروانے والا چودھری طالب ریمورنٹ کے سب سے قدآور مضبوط گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہے۔
 اُس نے دونوں ہتھیلیاں نیچے بچھا دیں اورتیلی سے برف کے ٹپکتے قطرے اوک میں جمع کر چاٹنے لگا۔ اُس کا جی چاہا کہ نیچے گرنے والے قطروں کی میٹھی مٹی کو بھی زبان کا پھندہ بنا کر حلق میں لپیٹ لے جائے کہ پھر کبھی یہ ذائقہ ملے کہ نہ ’’آؤ بیٹھوں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔‘‘
 چودھری طالب نے سائیکل کی گھنٹی بجائی۔ جیسے راوی کے پانیوں کی قلقلاہٹ جیسے کڑاہے میں پکتے گڑ کے شیرے کی پھڑپھڑاہٹ جیسے دھوپ کی دھواں رنگ تمازت میں گنے کی ٹھنڈی پوریوںکا رس جوہاڑ جیٹھ میں قلمیں بنا کر سرمئی مٹی میں بوئی جاتی ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز تھا کہ نیاز کے لیے کتابیں جھولے میں ڈالنامشکل ہو گیا۔ چودھری طالب نے دوبارہ گھنٹی بجائی تو اُسے وہم ہوا کہ وہ اپنی پیشکش کہیں واپس نہ لے لے۔ کیونکہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوچکا تھا کہ کوئی لڑکا اُسے سواری کی پیشکش کرتا وہ اُچک کریر پر بیٹھنے لگتا تو وہ سائیکل بڑھا لے جاتا اور نیاز سروے کی سڑک پر یوں اوندھے منہ گرتا کہ کئی روز کُہنیاں گھٹنے چھلے رہتے۔لیکن چودھری طالب نے سائیکل نہیں بڑھایا۔ مڈگارڈ پر سوار ہو کر نیاز کو احساس ہوا کہ سائیکل کی بلندی سے اشیا کی ہیئت و صورت ہی بدل جاتی ہے۔ رینگنے والے کیڑوں اور بلندقامت گھوڑے ہاتھی کی بینائی میں کتنا فرق ہوتا ہو گا۔ ریمونٹ کے اصطبلوں میں کھڑے قدآور گھوڑے زیادہ واضح نظر آنے لگے تھے۔ ورنہ نیاز کی نگاہیں تو اُن کے سموں سے اُوپر کبھی اُٹھی نہ تھیں۔ چودھری طالب ان نرگھوڑوں کی بے حیائی کو دیکھ کر بے تحاشا ہنسا۔ نیاز کو پہلی بار اُن کے اُمڈتے چھلکتے وجود کا احساس ہوا۔ ورنہ اُسے تو ان کے کھروںْ کی بناوٹ میں بھی برف کے گولوں اورنان ٹکی کی شبیہہ کے سوا اوکاں والا بنگلے میں کچھ کبھی سجھائی نہ دیا تھا۔
 چودھری طالب کے قہقہوں کے ساتھ سائیکل لڑکھڑا کر ایک کھڈ میں جاگرا جس کی مٹی کونہر سے رستا ہوا پانی نم کر رہا تھا۔ نیاز کی بوسیدہ وردی جسم سے چپک گئی اور گھسے پھسے ریشوں کے آرپار بدن کی پوشیدہ شبیہیں جھانکنے لگیں۔طالب نے اس کے چٹکیاں بھریں اور گھوڑوں کو ننگی ننگی گالیاں بکنے لگا۔
 ’’بس کھاتے تنتے ہیں اور مربع پال گھوڑیوں کو حاملہ کرنے کو ہر لمحہ تیار حالت میں یہ چنگا چوکھا کھانا بھی نابڑافساد ہے یار۔۔۔‘‘ نیاز اُس کے بوجھ تلے کراہنے لگا جیسے اُس کا کھایا پیا کہیں وزنی ہو کر نیاز پر اُمڈا پڑ رہا ہو۔
 ’’تمھیں کبھی مِلا نہیں نا۔۔۔ اس لیے اندازہ بھی نہیں۔۔۔ ہو جائے گا جلد ہو جائے گا کہ یہ کھایا پیا اپنے ہی بدن سے بغاوت کیسے کر دیتا ہے۔‘‘
وہ بے تحاشا ہنستارہا جیسے اُس کے گدگدی ہوتی ہو اور نیاز اُس کے بوجھ تلے حلق میں اُمڈ آئے شیرے کو واپس سینے کی طرف دھکیل رہا تھا کہ کہیں بند نہ ٹوٹ پڑے۔
 سائیکل سوار لڑکے گھنٹیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے گزرتے چلے جا رہے تھے اور نم مٹی والا کھڈا زمین کی تہہ میں کہیں اُترتا چلا گیا تھا۔ نیاز کے حلق میں آن اٹکا میٹھا شیرہ اُبکائی کے زہریلے مواد نے کڑوا بنا دیا تھا جو اب ناک اور منہ سے قے بن کر اُمڈ پڑاتھا۔
 نہر کے پرسکون پانیوں میں کوئی سرکٹی لاش سروٹے کے قلب میں آن اَٹکی تھی۔ پانی بھنور بناتا اُچھال مارنے لگا، نہر کا کنارہ بغل سے ٹوٹا اور گیلی مٹی کی ڈھمیں کیچڑ تھوبے لینڈسلائیڈ کی طرح کھڈ میں گرے ۔ چودھری طالب ریمونٹ کے گھوڑوں کی طرح ہونک رہا تھا اوراب سم جھاڑتا سروے کی پرآب سڑک پر پیڈل مارتا سیٹی بجاتا چلا جا رہا تھا۔
 جب ایک کسان نیاز کو مردہ جان کر بیل گاڑی پر ڈال کر گاؤں لایا تو نہر کا ٹوٹا ہوا بند اِردگرد کے کئی کھیتوں کی فصلوں کو بہا لے جا چکا تھا۔ سڑے ہوئے کرنڈ بوٹے مٹی میں منہ سر لتھیڑے سسکتے تھے۔ شہد کے چھتے والا ڈال تڑخ کر دوہرا ہو گیا تھا اور شیرہ لال مٹی گھلے پانیوں میں ٹپکتا تھا جس میں زہری ناگ تیرتے تھے اور راہومچھلیاں دم توڑتی تھیں۔ گھپ گھپ بھرتے پانی کا اُمس درختوں کے چٹختے ٹہنے۔ جڑ سے اکھڑتے سروٹے بروٹے تیز بہاؤ میں موجیں مارتے ٹاننڈے پوریاں چھاپے ٹوٹیاں کنڈیاریاں کیچڑ میں دھنتے نازک پھول اور لغریں نیاز سرکٹی لاش سی تڑپتا تھا۔
 ’’میں اُسے مار ڈالوں گاماں! تم دیکھنا میں اُسے وڈ دوں گا۔‘‘
 ماں اُس کے بدن کی چوٹوں، نیلوں اور سوجنوں پر کچے وٹے کی ٹکوریں کرتے ہوئے دھپے مارتی جاتی۔
 ’’زبان بند کر لے چڑی کے بوٹ تیرا اُس کا کیا مقابلہ تیرا لانگا ٹاپا روک دے تو پیر رکھنے کو دھرتی نہیں۔ حقہ پانی بند کر دے تو دفنانے کو گور نہیں۔‘‘
 وہ گرم وٹے کی سنکائی پر پچھاڑیں کھاتا جیسے نہر کا بند زخموں کے دھانے پر ٹوٹا ہو اور تیز روپانی بدن کی مشک میں بھر بھر چھٹتا ہو۔
 ’’ماں میری ماں تو تو میری منصفی کر۔۔۔ سارا جگ ڈھڈے کا سنگی تو تو میری ماں ہے۔‘‘
 وجود میں بھرا سب کچھ وہیں کہیں بند ٹوٹے پانیوں میں گرا پڑا رہ گیا تھا جو بچا تھا وہ دماغ تھا جو پچھاڑیں کھاتا۔
ماں مہینوں کی اَن دُھلی بو مارتی چادر میں آنکھوں کے کنوؤں سے بو کے بھر بھر سوکھا کھائے چہرے پر کھدے گڈھوں کھالوں میں اُنڈیلتی جاتی مدتوں کی سیرابی سے کلراٹھا نمکین پانی دِل کی بنجرزمین کو تھور بنا گیا تھا۔ اُس کے پاس اتنی فراغت کہاں تھی کہ وہ گھونسلے کے بوٹ کو جنگل کے قانون سمجھاتی اور درندوں وحشیوں سے بچ نکلنے کے سبق پڑھاتی۔
 ’’ارے سواہ کی چونڈی تو جھکڑوں میں اُڑنے سے باز کیوں نہیں آتا۔‘‘
 وہ اندھے گہرے کنوؤں میں سے جتنے بوکے بھر بھر گراتی اتنے ہی دوہتڑ اُس کے زخمی بدن پر بھی جماتی جاتی۔
 ’’کتنی بار سمجھاؤں گھول کے پی جا سٹ کی پیڑ کو۔۔۔ غریب کی سٹ ہنسی مخول ،نمانے کی موت آلنے کے بوٹ جیسی۔ سب نہیں پلتے، زیادہ پیروں تلے کچلے جاتے ہیں۔۔۔ جس کیڑے مکوڑے جڑی بوٹی کو چاہے وہ مسل ڈالے، کون روکے ہیں کسی کے پاس اُس جیسے بھاری بوٹ۔۔۔ چل کھپ نہ ڈال سو مر۔۔۔ سونے دے کل پہاڑ جیسے بھورے اُڈیک میں بیٹھے ہیں۔کوٹھری کی چھت کی ان گھڑکڑیوں میں ٹھنسی چادروں، چارہ باندھنے والے چرنوں گھسی پھسی کالے صابن کی ٹکیا اور تیز دھار درانتی کی نوک چھت کے ٹوٹے سرکنڈوں کے پردوں میں سے جھلملاتے تھے۔ نیاز نے درد کی گانٹھیں کھاتی لوتھ کو انتقام کی بکل میں لپیٹ کر اُٹھایا اور درانتی کے شرارے چھوڑتے دندانوں کو مٹھی میں دبا لیا۔ مقدر کی ریکھاؤں سے خالی سیاہ پتھر سی سپاٹ ہتھیلی پر کئی بناوٹوں کی لکیریں کھد گئیں جو دِیئے کی بجھتی لاٹ میں نیاز کی لال بوٹی آنکھوں کی طرح جھلملاتی تھیں۔ پیڑا کے تکلے میں پرویا وجود قطرہ قطرہ بوٹی بوٹی درانتی کی تیز دھار پر چڑھ گیا۔جب وہ واپس اسکول گیا تب تک ہاتھ میں کھدی درانتی کی آڑی ترچھی لکیروں کی طرح اُس کے مقدر کا فیصلہ بھی لکھا جا چکا تھا۔ سکول پہنچنے سے پہلے ہی اُس کے نام کی شہرت ہر سو پہنچ چکی تھی، جو نیازو سے نازو میں بدل گئی تھی۔ اب وہ کُلفیوں، برف کے گولوں، آلوچھولوں اور جلیبیوں کے بیچ یوں سجا رہتا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ ذائقے اُس کے حلق میں ٹپکتے رہتے۔ کڑاہی گوشت، روسٹ بروسٹ، حلوہ پوری اُس کے دماغ کی وسعتوں کے بند تالے کھلتے چلے گئے جیسے کسی خفیہ خزانے کی چابیاں اچانک ہاتھ لگ گئی تھیں۔
 ریمونٹ کے گھوڑے جب بھرے پیٹوں کھرلیوں سے منہ موڑ لیتے تو گدھوں، خچروں کو ان کھرلیوں بھری واشنائیں اور ذائقے بے بس کر ڈالتے۔ نیاز نہ نہ کرتا لیکن منہ سر لتھڑی کھرلیوں کی خوشبوئیں اُس کے پیٹ میں دراز درازخالی خولی غاریں بنا دیتیں جس میں نازو نازو کی کوکاریں پڑتی تھیں۔
 آخر اُس نے سوچانیازتو وہ بس اسکول کے رجسٹر میں ہی درج تھا۔ اُس کی ماں جس نے اُس کا یہ نام رکھا تھا خود بھی اس نام کا اصل تلفظ بھول چکی تھی۔ اوکاں والاسکول کے پرانے بوسیدہ قلعی اُترے کمروں کی وسعتوں میں نیازوکی بازگشت گونجتی تھی۔ گاؤں کی دھول اُڑاتی سڑکوں اور قدآدم فصلوں میں نیازونیازو کی پکار پڑتی رہتی تھی۔
 جو نام اُس کا تھا ہی نہیں اُس کی حفاظت کیسے ممکن تھی۔
نیازو سے نازو میں تبدیل ہونے کے کئی فائدے تھے۔ کھلانے والے بہت تھے۔ مفت ٹیوشن پڑھانے کو اُستاد بہت اسکول آنے جانے کے لیے سائیکل بہت اب یہ نازو کی مرضی کہ کسے شرفِ قبولیت بخشے۔ اُس تک پہنچنے کے لیے ریس میں لگے سائیکل ایک دوسرے سے ٹکراتے ایکسیڈنٹ ہوتے، کھانے پڑے بس جاتے نیاز کو اب معلوم ہوا تھا کہ آنکھوں سے کہیں پہلے پیٹ بھر جاتے ہیں۔وہ حیران ہوتا یہ کھلانے والے یہ سوار کروانے والے اتنی تعداد میں کہاں چھپے تھے۔ نیاز کی سمجھ میں نہ آتا وہ کس کی قلفی کھائے اور کس کے سائیکل پر بیٹھے۔ پیشکش بے شمار اور کھانے والا پیٹ ایک۔ وہ ہر کھرلی سے جلد ہی منہ موڑ لیتا لیکن ہنہناتے ہوئے گھوڑے ایک دوجے پر ٹاپیں جھاڑتے مربع پال گھوڑی کی دُم سونگھتے اور اگلے کھر اُٹھا لمبا لمبا ہنہناتے، جن کے درمیان اوکاں والا پل پر کئی خون ریز لڑائیاں ہوئیں تھیں۔
اسی لیے کلاس ٹیچر علاؤالدین نے نیاز کو اپنی تحویل میں لے لیا جب بورڈ کے امتحان میں پوزیشن دلوانے اور سکول کا نام روشن کرنے کے لیے مجرد کلاس ٹیچر نے نیاز کو اپنی رہائش گاہ میں منتقل کر لیا تو ایک رات اوکاں والے پل پرماسٹر علاؤالدین کاسرپھٹ گیا تو ان ڈھڈوں والوں پر بھی انھی سائیکلوں اور کلفیوں والوں کا گمان کیا گیا لیکن لڑکوں کے بااثر والدین کی وجہ سے بات دبا دی گئی البتہ نیاز ماسٹر کی بیٹھک سے رہا ہو گیا کہ چراگاہ پر ریوڑ کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا۔
 نیازمیٹرک کے بعد جب قریبی قصبے کے کالج میں پہنچا تو اُس کی شہرت اُس سے کئی قدم آگے بڑھ کر وہاں پہنچ چکی تھی۔ اُسے ہاتھوں ہاتھ یوں وصول کیا گیا جیسے کالج میں کوئی بڑی گرانٹ پہنچی ہو اور اُس کا ٹینڈر بہت سوں نے بھر رکھا ہو۔
 یہاں آ کر اُس پر انکشاف ہوا کہ برف کے گولوں، کلفیوں اور سائیکل سواری میں اُس کا بڑا استحصال ہوتا رہا اور یہ احساس اُسے ادا نے دلایا جو کالج میں تو اُس سے صرف دو درجے آگے تھا لیکن سمجھ اور اعتماد میں کئی درجے آگے اُسی نے اُسے بتایا تھا۔
 اس پروفیشن کے بھی کچھ اصول اور حدود ہیں اوّل یہ کہ ہمیں اپنی اہمیت کا خود احساس ہونا لازم ہے۔ کیونکہ ہم ایک منفرد ذائقے کے مالک ہیں جو نہ تو گھروں میں میسر ہے نہ بازاروں میں۔گھریلو اور بازاری مال بہت عام اور پرانا ہو چکا۔ ہمارا ذائقہ نیا اور عجب اشتہاانگیز ہے۔ ایسا وحشی جیسے سیخوں پر چڑھا شکار جیسے کوئلوں پر چربی پگھلتا سالم دُنبہ، جیسے زندہ جانور کی ران سے کٹا لہو ٹپکاتا پھڑکتا تڑپتا گوشت ہم عام نہیں منفرد ہیں۔
 نازوادا سے اپنے پروفیشن کے اصول سیکھنے لگا اور کالج بھر میں دونوں نازوادا کے نام سے معروف ہو گئے اور ان کے پروفیشن سے متعلق کئی دیگر لڑکے بھی اس ٹولی میں شامل ہونے لگے جوں جوں اُن کی تعداد بڑھ رہی تھی ان کا استحصال اور تضحیک کم ہونے لگا تھا۔ ادا نے انھیں کچھ اصولوں کا پابند کر دیا۔سینما جانے کے ریٹ الگ تھے۔ ریستوران میں کھانا کھانے، پارک کے سنسان گوشے میں ملنے یا پھر ہوٹل کے کمرے میں رات گزارنا سب کے اپنے اپنے نرخ نامے تھے۔ اس کمائی میںسے ایک خاص مدبناؤ سنگار کے لیے مقرر تھی۔ بیوٹی پارلر جانا، ترشی ہوئی بھنویں چڑھانے، کولہے مٹکانے، لچکیلی اُنگلیاں ،کلائیاں لہرانے ،سرخی جمے لبوں پر ہاتھ رکھ ہنسنے۔ اُردو ،انگریزی، پنجابی مِلا کر نسوانی فرمانی لہجے میں بولنے کی اُنھیں خاص تربیت دی جاتی تھی۔ کولہے مٹکا کر چلنے، اُنگلیاں لہرا کر بولنے اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ میںخاص احتیاط برتی جاتی نہ مردانہ کرختگی نہ زنانہ ملائمت ایک نیم متمدن چھب نیم پخت ذائقہ، وحشی نسوانیت کہ سولائزڈ مردانیت جو لتاڑ ڈالتی۔اب تماش بینوں کو چٹکیاں اور آہیں بھرنے والوں، ٹھٹھے اور آوازے کسنے والوں کو اِک منظم گروہ سے واسطہ پڑا تھا۔ اب وہ مفت خوروں کا دسترخوان نہ تھے۔ ایک پروفیشنل تنظیم تھے۔ مفت میں بٹنے سے خود کو بچانے کے لیے ادا نے اُسے ایک لوڈ ٹی ٹی پستول دیا تھا اور ہدایت کی تھی۔ ’’اسے پرس میں محفوظ کر لو۔ یہ چلانے کے لیے نہیں دھمکانے کے لیے ہے۔ لیکن اس سے تمہارا اعتماد ایسے ہی بڑھ جائے گا جیسے چودھری طالب کا اپنی جاگیر کی ملکیت کی بنا پرجو ہر شے پر گھونسے تانتا پھرتا ہے۔‘‘
 بیوٹی پارلر، ٹیلرنگ، کٹنگ، مساج وغیرہ کے بعد بھی اتنا بچ جاتا کہ نیاز ہر مہینے اپنے باپ کو اِک معقول رقم بھجوا دیتا۔ کبھی کبھی خط بھی لکھتا۔
’’شہر واقعی انسان کی چھپی صلاحیتوںکو کھوج نکالتے ہیں اور اُجاگر کر دیتے ہیں مجھے تو اپنے وجود کی قیمت کا احساس ہی نہ تھا یہ شہر ہی ہے جس نے میری صلاحیتوں کو کیش کر کے اِک بھاری رقم میرے ہاتھ میں تھما دی ہے۔’’ ابا! اب تم ایک کماؤ بیٹے کے باپ ہو اب چودھریوں سے ڈرنے یا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے میرا ہر منی آرڈر چودھری طالب کو ضرور جا کر دِکھا دیا کرو اور اُسے کہا کرو نیا زتمہارا نیازمند ہے کسی روز اس احسان کا بدلہ ضرور چکا دے گا۔‘‘
 نیاز کا باپ بہکوں بیٹھکوں میں بیٹھ کر پشاوری تمباکو کے کش لگاتا اور بیٹے کی نوکری سے متعلق تخمینے لگاتا رہتا۔
 ’’لگتا ہے نیازو نے کوئی کاروبار جما لیا ہے شہر میں جو اتنا پیسہ آ رہا ہے۔
 ’’نہ یہ کیسا کاروبار ہے جو سرمائے کے ہو رہا ہے۔‘‘
`[سننے والوں میں سے کوئی صبر کی سیل کو تڑخا دیتا۔
 ’’اچھا‘‘ کئی کش لے کر وہ دھوئیں میں سوچ کے لہریئے بناتا۔
 ’’تو پھر نوکری کر لی ہو گی۔ کوئی افسری مِل گئی ہو گی۔ شہر میں کیا نہیں ہو سکتا۔ آخر پڑھا لکھا ہے۔ میرے بوہے پر تو مہنیں بندھ گئی نا لڑکیاں وداع ہو گئیں کوٹھے کے ڈھے چنے کی پکی دیوار بن گئی۔۔۔ میری کمر میں تو اَب طاقت ہی نہیں رہی کماؤ پت نے عادتیں ہی بیگاڑ دی ہیں۔۔۔‘‘
 ’’پر کیا فائدہ پتر توہردے سے دُور ہو گیانا خود کبھی نہیں آتا تو تمہیں ہی شہر بلا لے تیرا یہاں ہے کیا۔۔۔‘‘
 کوئی بزرگ جذبات کی بھاپ میں سے حقیقت کے کوئلے پھرول بجھتی چلم میں رکھتا اور سوٹے مار مار اُنھیں بھڑکاتا۔
 نیاز کا باپ اُس کے ہاتھ سے نئے اُچک کر منہ میں دبانے کی بجائے مٹھی میں بھینچ لیتا،جیسے بھڑکتے انگاروں کو ہتھیلی کے پتھر سے بجھانا چاہتا ہو لیکن وہ چقماق کی رگڑ سے مزید بھڑک گئے ہوں۔
 ’’یہ بھی وہ سوچ رہا ہے۔ اُس کی سوچیں بڑی لمبی تے ڈونگی، ہمیں بھولا ہوتا تو ہر مہینے منی آرڈر بن کر بوہے پر نہ کھڑا ہوتا، وہ تو دِل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور من کی بیٹھک میں روز ملتا ہے۔‘‘
 پیڑوں کے جھنڈ میں بھرے کوّے چریاں لالیاں فاختائیں مل کر کھپ ڈال دیتیں وہ روڑے اُٹھا اُٹھا کر پھینکنے لگتا۔
 ’’دفع ہو جاؤ، اُر جاؤ ہر وقت کوکاںکاں ہر وقت چوں چاں۔۔۔ کوئی پروہنا نہیں آنے والا میرے دوارے جاؤ اُڑ جاؤ۔ چودھریوں کے بنیرے پر جا بیٹھوجہاں روز تھانے اور پٹواریوں کے ڈیرے اُترتے ہیں اور کھانے دانے پکتے ہیں۔۔۔ میرا کھانے والا تو آپ کماؤ ہے۔۔۔‘‘
 ملک کی گرتی ہوئی معیشت نے جو کسادبازاری پیدا کی تھی اس کی زد میں نازوادا ٹولی بھی آ گئی۔ اُن کے کسٹمر نئے نئے جوان ہوتے اور نئے ذائقوں کے تجربات میں بدکتے جیب خرچ کے محتاج طالبِعلم، گھروں سے دُور چھوٹے موٹے ملازم ٹرک ڈرائیور چوکیدار اور مزدور بے روزگار ہونے لگے تھے۔ شوقین لونڈوں کی افراط نے بھی پیشہ وروں کے رزق میں بے برکتی ڈال دی تھی۔
 اسی لیے نازو ادا ٹولی کے لیے بھی جدید طرز کے ملبوسات بنوانے نئی تراش کے بال ترشوانے اور ہوٹلنگ وغیرہ کی فراغت کم پڑنے لگی تھی۔ ٹولی کے لیڈر ادا نے ایک روز اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کو کلیجی رنگ میں رنگتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اُنھیں سیزن لگانے کو کسی تفریحی مقام پر چلے جانا چاہیے، جہاں من چلے اپنی دولت اور حماقتیں لٹانے پر اُتارو ہوتے ہیں۔ جہاں موسم اور مناظر کی رنگینیا مزاجوں میں ست رنگ پھلجھڑیاں بھر دیتی ہیں اور سیاہ و سفید سطح بینائی کے رنگوں کی آمیزش میں اپنی تمیز گم کر دیتی ہے ایک شب جب وہ یہاں اُترے تو یہاں کی زرخیزیوں نے سبزے اور پھولوں کو اس طرح لیپ کر دیا تھا کہ زمین فرش گل تھی اور بل کھاتی سڑکوں پر انسانی مخلوق تارکول کی سیاہ رنگت کو گل رنگ پیراہنوں سے ڈھک چکی تھی۔ نازوادا ٹولی بھی پیوند بھیڑ ہو گی جو اپنی منفرد وضع قطع سے خوش مزاجوں کی توجہ اور تفنن طبع کا باعث تھی جہاں سے گزر جاتے تالیوں، سیٹیوں، فقروں کا ایک ہنگامہ ہمراہ ہو لیتا۔ اس طوفانِ بدتمیزی میں وہ چاروں اتنے ہی سنجیدہ اور پروقار نظر آتے جیسے امیرانہ وضع قطع کی ماڈرن اور خوداعتماد لڑکیاں جو اس رزیل و کمین طرزِعمل میں سے اِک شاہانہ ٹھاٹ اور لاپروا، سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتی ہیں۔ ان رالیں ٹپکاتے چہروں پر لمبی ہیل کی نوکیں جماتے سرکس کی شہزادیوں کی سی ہنرمندی سے پار اُتر جاتے ہوں۔ صاف شفاف چمکیلی پنڈلیوں پر چڑھی ہئی کیپریز، گہرے گلے والی چست شرٹس جن کی بنا آستینوں سے مسلز والی کلائیاں عنابی ٹیوبوں کی طرح لشکیں مارتیں۔ جدید طرز کے چشمے، ریشمی رنگ دار بالوں کی پونیاں۔کندھوں پر شوخ رنگ بیگ جھلاتے جیسے کسی فیشن شو میں کیٹ واک کرتی درازقد پرغرورماڈلز۔
 کتنی محنت اور روپیہ صرف ہوا تھا یہ نزاکت شفافیت اور دلبریت حاصل کرنے میں۔ جسے وہ ترسے ہوئے ڈرائیوروں، تھڑے ہوئے مزدوروں اور کنگلے طالبِعلموں پر ہرگز ضائع نہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اندھیراپڑے مال روڈ کے گل گشت پر نکلتے بھیڑ کی حیرت، ہنسی مذاق، فقروں اشاروں میں لپٹے دوسرے تیسرے چکر میں آنکھوں ہی آنکھوں میں من پسند قدر میں تل جاتے، اُن کے اپنے قصبے کی نسبت یہاں مندی کا رجحان کم تھا۔ سرِشام ہی یہ پھڑپھڑاتی ہوئی تیتریاں اُڈاریاں مار جاتیں۔
 اُس روز مال روڈ پر دو تماشے سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ ایک تو وہ جو کولہے مٹکاتے گانے گاتے ہر اِک کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے تھے اور ردّی بوریے کی طرح پھڑکے پیروں تلے گھسیٹے جا رہے تھے جن پر ہنسنے اور فقرے کسنے والے جیبوں میں سکے کھنکھناتے آ آ دانہ ڈالتے اورذرا سے لاسے کے ساتھ گرفت میں کر لیتے۔
 دوسرے نازوادا ٹولی تھی جو کوئی نایاب سی جنس معلوم ہوتے جیسے اِک محنت اور سرمایہ صرف کر کے گھڑی گئی ہو۔ یہ بہروپیے تھے کہ اداکار خطرناک کھیل سے تماشہ بینوں کا دِل پرچا کر روزی کمانے والے جسم کو آگ دِکھاکر رقص کرنے والے کہ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والے۔ مال روڈ کے دھڑکتے پھڑکتے دِلوں کے تاروں پر سہج سہج قدم رکھتے توازن کو برقرار رکھ رہے تھے اورطنز،حقارت اور تمسخر کی آگ بدن پر لپیٹے مال روڈ کے اسٹیج پر رقص کناں تھے کہ اچانک نازوکی نگاہ جس بارُود پر پڑی اُس نے بدن سے لپٹی حقارت، نفرت تمسخر کی آگ میں زبردست دھماکے پیدا کر دیئے۔ اوکاں والا اسکول کے برف کے گولے کا شیرہ سینے کے زہر میں گندھ کر نتھنوں اور حلق میں بھر آیا۔ سائیکل کے مڈگارڈ پر سوار ہونے سے کھڈ میں گرنے اور واپس اوکاں والا اسکول پہنچنے تک موت کے کنویں میں گھوں گھوں چلتے موٹرسائیکل کے پہیے میں کتنی سرعت سے سب کچھ گھوم گیا۔
 یہ چودھری طالب تھا جو اپنی نئی نویلی دُلہن کے ہمراہ ہنی مون کی شیرینیوں میں چور ابھی ابھی فورسٹار ہوٹل کے حجلہ عروسی سے نکلا تھا کہ ابھی سونے کی پھانک سی دُلہن کی آنکھوں میں شب بسری کے چاندتاروںکا ست رنگا چورا جھلملاتا تھا۔ حجلہ عروسی کی ساری شرارت ساری لذت سیاہ گچ آنکھوں میں قوس و قزح کے رنگ بھر رہی تھی۔ اوکاں والا پل کے نیچے بہتے پانیوں کی قلقلاہٹ سرگوشیوں میں گھلی تھی، جو وہ چودھری طالب کے کانوں کی لو پر زبان کی نوک سے ٹپکا رہی تھی۔ چودھری طالب کے کرکراتے شلوار سوٹ میں ریمونٹ کے گھوڑوں کے مسلز جیسی پھڑپھڑاہٹ تھی جیسے اوکاں والا بنگلے میں ہنہناتا مشکی تازی گھوڑاجوا بھی سارے گھاس پھونس کو روند ڈالے گا۔
 نازوکیٹ واک کرتا پرس جھلاتا لچکیلی کلائیاں لہراتا جھونکا سا گزر گیا تھا۔ چودھری طالب کو اُسے پہچاننے میں اِک عمر درکار تھی۔
 تبھی بھیڑ کے قلب میں سے فائر کی آواز اُبھری جب تک ریسکیو ون فائیو کی ٹیم بھیڑ کو چھڑا موقع واردات پر پہنچی زخمی دم توڑ چکا تھا اور مرنے والے کی نوبیاہتا دُلہن کی آنکھوں میں چور قوس و قزح عنابی رنگ میں ڈھل چکا تھا۔ بھگدڑ اور اژدھام میں ہر شخص دہشت گردی کی لہر کو کوس رہا تھا جس سے اب یہ پرفضا سیرگاہ بھی محفوظ نہ رہی تھی اور وہ زننخا جو فائر کی آواز کے وقت قریب سے گزرا تھا۔ وہ تو آواز کے خوف سے دس قدم دُور جا گرا تھا اور اب لچکتامٹکتا پنڈلیوں تک کیپری چڑھائے بنا آستینوں کی شرٹ سے شفاف کلائیاں لہراتا کسٹمرز میں گھرا کاروباری سنجیدگی کے ساتھ شاید کوئی

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE