|
پروین شاکر شام آئی ، تری یادوں کے ستارے نکلے رنگ ہی غم کے نہیں،نقش بھی پیارے نکلے ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے چاند کے ساتھ ترے ہجر کے مارے نکلے کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیج وہی رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایاتھا وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے وہ تو جان لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے عشق دریا ہے،جو تیرے وہ تہی دست رہے وہ جو ڈوبے تھے ، کسی اور کنارے نکلے دھوپ کی رت میں کوئی چھاؤں اگاتا کیسے شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں میں آرے نکلے پروین شاکر حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے اک حجاب ہے تہہ اقرار مانع ورنہ گل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے ریت ہی ریت ہےاس دل میں مسافر میرے اور صحرا تیرا نقش کف پا چاہتا ہے رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے |