|
پروین فنا سید اجڑا ہوا شہر پھر بساؤِں یہ حوصلہ اب کہاں سے لاؤں ٹوٹے ہوئے آئینے میں خود کو میں دیکھ جو لوں تو ڈر نہ جاؤ٘ں زخموں سے بھرے چمن میں رہ کر پھولوں سے مہکتے گیت گاؤں اے کاش وفا کی روشنی سے امید کا اک دیا جلاؤں تجدیدِ وفا کے اسرے پر زخموں کی چبھن بھی بھول جاؤں اپنا ہی لہوروش روش پر اے میرے چمن کسے دکھاؤں ........... یوں جو دیکھوں تو کٹ رہی ہے رات لمحے لمحے میں بٹ رہی ہے رات مہ و انجم کا خوں ردا میں لئے ہولے ہولے سمٹ رہی ہے رات ہجر کی آگ میں سلگتی ہوئی اپنے اندر سمٹ رہی ہے رات تو مرا ہوکے بھی مرا نہ ہوا ورق سارے الٹ رہی ہے رات تیرا صحرا میں نصب ہے خیمہ میری آنکھوں میں کٹ رہی ہے رات |