پھٹا
ہوا دامن
تحریر : ڈاکٹر بلند اقبال
بس ایک لمحے کی تو بات تھی اچانک کیٹ واک کے دوران نہ جانے کیسے زرینہ کا
پاؤں اُس کی چار انچ لمبی سینڈل کی ہیل میں الجھا اور پھر وہ لاکھ چاہنے کے
باوجود خود کو بیلنس نہ کر سکی اور قلابازیاں کھا تے ہوئے ریمپ سے سیدھا
شائقین میں جاگری ۔ زرینہ کو کیا پتہ تھا کہ اچانک یہ ایک چھوٹا سا کڑا
لمحہ صدیوں کی تاریخ خود میں سمیٹ کر اُسے زرینہ سے ز لیخا میں بدل دے گا
۔۔
ابھی کچھ ہی دیر پہلے کی تو بات تھی کیٹ واک پر جانے سے قبل زرینہ خود کو
ڈریسنگ مرر میں کتنے پیار سے تک رہی تھی ۔ پہلے پہل تو اُس نے مسکرا کر
اپنے خوبصورت شانوں کو تھوڑا سا پیچھے کیا تھا اور پھر دھیمے سے سا نسوں کو
ادھورا روک کر اپنے جواں سینے کو تھوڑا اور نمایاں کیا تھا اور پھر پیٹ کے
مسلز (muscles)کو آہستہ سے اندر کھینچ کر نازک سی کمر کی کمان پر اپنے حسین
بل کھاتے بدن کوکسی تیر کی طرح یوں تا ن لیا تھا کہ خود زرینہ کو پل بھر
میں ایسے لگنے لگا تھا جیسے اُس کی اپنی نگاہیں اُس کے جسم کے قاتل زاویوں
میں الجھ کرواپسی کے سارے راستے بھو لتی جارہی ہے اور پھر اپنے باڈی
پاسچر(Body posture) سے مطمن ہوکر زرینہ نے اپنے سرا پے پر ایک بھرپور نظر
ڈالی تھی۔ اُس نے اپنے لوز کر ل ہیر اسٹائل(Loose Curl Hairstyle) کو چاروں
سمتوں سے گھوم کر دیکھا تھا اور پھر مسکارے سے جڑی ہوئی لمبی لمبی پلکوں کے
دریچوں کو اپنی نیلی نشہ ور آنکھوں پر کچھ اسطرح سے دھیمے سے کھولا تھا کہ
آئی لڈز (Eye Lids) پر سجے ہوئے تمام تر آئی شیڈز(Eye shades) ستاروں کی
طرح چمکنے لگے تھے اور پھر اپنے سر خی مائل تمتماتے گالوں میں بننے والے
چھوٹے چھوٹے ڈمپل کے اردگر د بلوشن(blush on) اور لپ گلوز کا (Lip gloss)
ایک اور کوڈ اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اُنہیں پھر سے سجالیا تھا ۔
جب فیشن شو کے ڈور پر کھڑے ڈریس ڈیزا ئنر یوسف نے آنکھ کے خفیف اشارے سے تمام
ماڈل گرلز کو ریمپ پر جانے کا اشارہ کیا تھا تو وہ بھی دھڑکتے دل کے ساتھ
قطار میں شامل ہو گئی تھی ۔مگر اس سے قبل کہ وہ کیٹ واک شروع کرتی ، یوسف
نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے لمحے بھر کے لیے روکا تھا اور اُس کو سر سے پاؤں
تک اس طرح سے بغور دیکھا تھا جیسے کوئی زیرک سیلز مین اپنے مال کی دل چاہی
قیمت لگا کر بازار میں خوب سجا سنوار کر امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے ۔
رنگ برنگی جھالروں میں بٹے ہوئے بلاؤز اور اسکرٹ کی وجہ سے زرینہ کا جواں
بدن ویسے ہی نیم برہنہ ہوکر قیا مت ڈھا رہا تھا مگر شاید یوسف کی نظر میں
اُس کے کپڑوں میں بہتری کی ابھی تھوڑ ی سی گنجائش باقی تھی ۔اس آخری لمحے
میں جب زرینہ ریمپ پر جانے کے لیے بے قرار ہو رہی تھی کہ نہ جانے یوسف کے
دل میں کیا خیال آیا کہ اُس نے زرینہ کے بلاؤز اور اسکرٹ سے کچھ جھالریں
اور کم کردیں اور پھر فیشن شو کا ڈور زرینہ کے لیے کھول دیا تھا۔
ریمپ پر آتے ہی زرینہ نے سرسری سی نگا ہ فیشن شو کے شائقین پر ڈالی اور پھر
جونہی اُس نے کیٹ واک شروع کی اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کے کمانی دار جسم کے
سر کش زہر آلود تیر ایک ایک کرکے شائقین کے دلوں کو زخمی کر رہے ہیں ۔اُن
کے بے بس خون آلود دل سے کراہنے والی آرزوئیں، زرینہ کے دل کو ایک انجانے
احساس سے روشناس کر ر ہی تھیں ۔ کیمروں کی فلش لائیٹ اور ریمپ کے چار و ں
طرف لگے رنگ برنگی بجلی کے قمقمے اُس کے ہوش ربا حُسن کے سامنے ماند پڑتے
جارہے تھے ۔جوں جوں زرینہ واک کرکے ریمپ کے کارنر کی طرف بڑ ھنے لگی اُسے
یقین ہوتا جارہا تھا جیسے فیشن شو میں بیٹھے ہوئے شائقین کی نظریں اُس کے
نیم برہنہ بدن پر لپٹی جھالروں سے ٹکرا کر واپس لوٹنے کے بجائے اُس کے بدن
کے زاویوں میں الجھتی جارہی ہے ۔ کچھ لمحوں کے لیے تو اُسے یہ بھی عجیب و
غریب خیال بھی آیا جیسے ڈریس ڈیزاینر یوسف کی فیشن شو کے تمام شائقین کے
ساتھ کچھ نہ کچھ ملی بھگت ہے اور اُس نے شائد جان بوجھ کر کیٹ واک سے قبل
اُس کے بلاؤز اور اسکرٹ کی جھالریں کم کی تھی ۔ اور پھراچانک زرینہ کو یوں
لگا تھا جیسے شائقین میں بیٹھے ہر ایک شخص کی شکل ڈریس ڈیزاینر یوسف کی
جیسی ہوگئی ہے اور ریمپ پر چلنے والی ہر ایک ماڈل گرل زرینہ کے سراپے میں
ڈھل گئی ہے جن کے لباس کے دامن اُس کی طرح چاک ہیں ۔اُسے یوں بھی لگا جیسے
یہ فیشن شو دراصل لباس کے ایڈورٹا ئز منٹ کی جگہ انسانی جسموں کی نمائش کا
بازار ہے ، شاید صدیوں پہلے کا بازارِمصر، جہاں کبھی یو سؑف کو بیچا گیا
تھا ۔۔اس عجیب و غریب خیال کے آتے ہی زرینہ کو محسوس ہوا جیسے اُس کا دل
تاریخ کے گہرے سمندر میں ڈوبتا جارہا ہے مگر۔۔فیشن شو کے شائقین سمجھے جیسے
زرینہ کا پاؤں اچانک اپنی سینڈل کی ہیل میں پھنس گیا ہے اور وہ لاکھ چاہتے
ہوئے اپنا بیلنس قائم نہیں کرپا رہی ہے اور بالاخر ریمپ سے قلابازیاں کھاتے
ہوئے اُن کے درمیاں گر تی چلی گئی ۔
زرینہ کو کیا پتہ تھا کہ اچانک یہ ایک چھوٹا سا کڑا لمحہ صدیوں کی تاریخ خود
میں سمیٹ کر اُسے زرینہ سے ز لیخا میں بدل دے گا ۔اُس چھوٹے سے لمحے میں جب
زرینہ اوروں کے لیے بے ہوش ہوکر ریمپ سے شائقین میں گری تھی ، اُسی لمحے
توزرینہ ، زلیخا میں بدل کر بازارِ مصر پہنچ گئی تھی اور یو سؑف کا دامن
پیچھے سے پکڑ کر چیخ رہی تھی کہ میں نے تمھارا دامن تو پیچھے سے پھاڑا تھا
مگر تم تو نبی تھے نا ! دیکھوتمھاری خود کی خاطر کی گئی جرح سے ، میرا دامن
ہمیشہ کے لیے پیچھے آگے دونوں ہی طرف سے پھٹ گیا ہے ۔
|