Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

نصرت زہرا


خاتون ہونے کے ناطے ان کے شعروںمیں بھی عورت کے دکھ ترازو ہیں ۔

رومی کو اس کے عشق نے جینا سکھادیا

سراپا تخلیق کہنے کو سہل مگر حقیقت میں دشوار تر عمل ہے اس عہد میں جہاںبظاہر قد آور نظر آنے والے فکری مفلسی کے باوجود برتری کے زعم میں مبتلا ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو قلم کی حرمت کو دامے درمے سخنے قدمے قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان کا ہر عمل گواہی دے رہا ہے کہ تخلیق کسی کی میراث نہیں ۔ساحل دکھائی دیتا ہے کی تخلیق کار ،محترمہ رومانہ ر ومی شاعری ان کا جنون،افسانہ شناخت اور فکری عمل سے پیہم وابستگی نے انہیں بہت منفرد مقام بخشا ہے۔
وفورِ درد اور وفورِ تخلیق ان کے ہاں قدم بہ قدم ہیں وہ دنیاکے تمامعتبر جرائد میں باقاعدگی سے چھپ رہی ہیں ان کی شاعری محض کتھارسس نہیں ایک مکمل مربوط نظام کے تحت آگے بڑھ رہی ہے البتہ خاتون ہونے کے ناطے ان کے شعروںمیں بھی عورت کے دکھ ترازو ہیں ۔
میری طرح سے لوگو محبت اسے بھی تھی
میں بھی جنوںز دہ تھی تو وحشت اسے بھی تھی۔
رومی کو اس کے عشق نے جینا سکھادیا
ورنہ غم حیات سے نفرت اسے بھی تھی
محترم اسحاق ساجد جو ہماری شعری منظر کی بہت معتبر شخصیت ہیں رومانہ کی شاعری میں کہیںداغ دہلوی کی جھلک تو کہیںپروین شاکر کی دھنک اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔دراصل رومانہ بھی اول اول عشق کی لطافتوں سے پر معطر دماغ لئے ایوانِ شاعری میں داخل ہوئیں اور یہاں ان کی ملاقات بے رحم ،سفاک اور بے درد حقیقتوں سے ہوئی اور شاعری کی حساس ترین منزل ،منزلِ فکر نے انہیںچونکادیا ۔یہ ان کی تخلیق کا اہم موڑ تھاوہ اس پر آشوب دور کی نوحہ گر بن گئیں جس کی لیوا راتیں سناٹوں کی تہہ میں زینہ زینہ اتر رہی ہیں ۔
حریف وقت کیا ہوتے عداوت ہم نہیں کرتے
ستم سہنے کی عادت سے شکایت ہم نہیں کرتے
نہیں رکھتے ہم اوروں کی طرح دل میں حسد اپنے
محبت سب سے کرتے ہیں عداوت ہم نہیں کرتے
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ مکمل طور پر گھریلو خاتون ہیں اور دوسر ی جانب ان کا وژن اور گہرا ادراک ہمہ تن ان کے فن کا نگران رہتا ہے ۔ان کی شاعری میں نسائی جذبات تو ضرور ہیں مگر مکمل دائرہ تہذیب میں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری سر اٹھا کر چلنے کا اعلان کرتی ہے ۔او ر مشرقی روایتوں کا پاس و لحاظ بھی.
کوچہ ء عشق میںجو لوگ نہ سدھرے اب تک
کون کہتا ہے کہ وہ لوگ سدھر جائیں گے
دورہی ہر اک سازش سے
میں زندہ کردار رہی ہو ں
ْْقدر ہوتی نہیں کسی کی جہاں۔
ہم وہاں بھی وقار رکھتے ہیں
اور
 

میں نے فرقت کو اوڑھ رکھا ہے
یہ بھی اپنا سرور رکھتی ہے۔
رومانہ آہستہ آہستہ مقصدیت کی جانب بھی گامزن ہیں اور ان کا یہ پیہم ارمان انہیں شوقِ سفر پر آمادہ رکھتا ہے۔وہ سفر کہ جس میں پاؤں نہیں دل تھکتا ہے اس تھکن کے باوجود رومانہ کہیں بھی ہانپتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہیں اس عہد کے تمام معتبر جرائد رومانہ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں سمجھے جاتے۔محض شاعری ہی ا ن کا وصف نہیں بلکہ وہ افسانہ نگار بھی اور تنقیدی محافل میں بھی باقاعدگی سے شریک رہتی ہیں شاعری میں غزل ان کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ ساتھ تراکیب کا حسن ،لہجے کی چاشنی اور سوچ میں دامن گیر ،گہرے اضمحلال نے بہت مختصر عرصے میں انہیں بہت زیادہ اعتبار بخشا ہے اگر ا ن کی غزل کو مرصع غزل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کا تازہ کلام اس بات پر کیسا اثبات ثبت کرتا ہے،
میں عشق و وفا کی قیدی ہوں
عورت ہوں سدا کی قیدی ہوں
ٓاڑنے کوہوں تیار مگر
صیاد فضا کی قیدی ہوں
مرجاتی زمانے کے ہاتھوں
میں ماں کی دعا کی قیدی ہوں
جھک جاؤں تو تاج و تخت ملے
لیکن میں ا نا کی قیدی ہو ں
ٓاک حبس مجھے ہے گھیرے ہوئے
رومی میں ہوا کی قیدی ہوںوقت کے ساتھ ساتھ بطون سے اٹھنے والے نے رومانہ کو خارجی دنیاکی بے رنگیوں کا ادراک رکھنے والی ایک صائب الرائے شاعرہ کے طور پر پیش کیا ہے جس کا توانا وژن ایک پختہ و خودآگاہ فرد کا ایک ایسا آئنہ ہے کہ جو بہت دور تک دیکھ سکتا ہے ۔اذیتوں کے دراز سلسلے کو انہوں نے بڑی چابکدستی سے شعری پیکر عطا کیا ہے ۔ان کی یہ فنکارانہ روش انہیں بہت دیر تک ذہنوں میں معطر رکھے گی۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE