سعید
غزل
وحشتِ دل ہمیں آسان ہے یوں پہلے سے
کم ہے فرصت تو زیادہ ہے سکوں پہلے سے
کچھ ترے عشق نے دل کھول کے دیوانہ کیا
کچھ تو شامل تھا طبیعت میں جنوں پہلے سے
آنے والا بھی تری قدر سے ناواقف ہے
آ مرے دل تجھے برباد کروں پہلے سے
مدتوں بعد بہاروں کی خبر آئی ہے
خلقتِ شہر پشیمان ہے کیوں پہلے سے؟
خودسری سے مری ناراض ہے کیوں میرے خدا
سارا عالم ترے آگے ہے نگوں پہلے سے
مر مٹے ہم تو یہ ہنگامہ ہوا ہے، ورنہ
اک زمانہ تھا ترے زیرِ فسوں پہلے سے
کیا ڈبوئے گی مجھے موجِ غمِ یار سعیدؔ
میں کسی درد کی منجدھار میں ہوں پہلے سے
سعیدؔ
غزل سعیدؔ۔ ستمبر 2010
سفید گھر کی سیاہ چالوں کا سامنا ہے
سمجھ رہے تھے ہمیں اُجالوں کا سامنا ہے
بقا سمجھ کر فریبِ دستِ غنیم کھایا
لہو میں ڈوبے ہوئے نوالوں کا سامنا ہے
خدائے وحشت کے کارخانوں سے منسلک ہے
وطن کو مقتل شناس چالوں کا
سامنا ہے
فلک بھی نالاں، زمیں بھی ناخوش، ہوا بھی دشمن
قدم قدم پہ نئے سوالوں کا سامنا ہے
فصیلِ ظلمت سے فصلِ آتش کے سانحے تک
سپاہِ شب کو خود اپنی چالوں
کا سامنا ہے
مری تباہی سے میرا دشمن الگ نہیں ہے
اُسے بھی وحشت کے سو حوالوں کا سامنا ہے
سعیدؔ مانا بہت دنوں سے سُلگ رہے ہیں
ہمارے کل کو مگر اُجالوں کا سامنا ہے
..........
غزل ۔ سعیدؔ
دل کی رفتار سے کیا باندھیں ارادہ اپنا
عمر تھوڑی ہے مگر عشق زیادہ اپنا
تجھ کو دیکھا ہے تو آنکھوں
میں سمٹ آیا ہے
ورنہ یہ دل ہے سمندر سے کشادہ اپنا
ہم نے رشتوں کے وہ ناسُور نبھائے ہیں کہ بس
اب جو دشمن ہو وہ لگتا ہے زیادہ اپنا
تُو تو پھر جانِ زمانہ ہے ترا ذکر ہی کیا
یاد رہتا نہیں یاروں کو بھی وعدہ اپنا
ہم نے کر لی ہے لکیروں سے بغاوت ورنہ
ہر مسافر کو میسر نہیں جادہ اپنا
عشق بے مہر و ملاقات کہاں کھُلتا ہے
دل لگایا ہے تو رکھ در بھی کشادہ اپنا
جانے کس کوہِ جنوں خیز کا پتھر ہے سعیدؔ
ضد پہ آ جائے تو بدلے نہ ارادہ اپنا |