|
صغیر احمد جعفری گھٹن میں پھر ہوا کی آرزو ہے سنو مجھ کو بقا کی آرزو ہے جفاؤں کے مخالف چل رہاہوں مجھے ہر دم وفا کی آرزو ہے فضا میں نفرتوں کی گرد چھائی محبت کی وفا کی آرزو ہے نئی نسلوں کا اک محفوظ گھر ہو یہی تو انتہا کی آرزو ہے ستارے کی طرح چمکے مرا دل مرے دل کو ضیا کی آرزو ہے کسی طرح خزاں کا زور ٹوٹے
گل و بلبل صبا کی آرزو ہے
وطن میں شاد مانی لوٹ آئے
خوشی کی ہر ادا کی آرزو ہے
کچھ ایسا موڑ آیا زندگی
میں
ہو پوری ہر دعا کی آرزو ہے ................................................... امنِ عالم کوکہیں آگ دکھاتے کیوں ہو اپنا دامن جو جلے شور مچاتے کیوں ہو آپ سے میرے خیالات اگر ملتے نہیں میری آواز سے آواز ملاتے کیوں ہو بات سچی بھی اگر تم کو بری لگتی ہے آئینے اپنے مکانوں میں سجاتے کیوں ہو جو مسافر ہے محبت کے نگر کا لوگوایک ہمدرد کو دیوانہ بناتے کیوں ہو گرکوئی شخص مداوا نہیں کرنے والا پھر یہ حالات زمانے کو سناتے کیوں ہو ترے زخموں پہ مر ہم کوئی رکھ دے شایددرد اپنا کسی اپنے سے چھپاتے کیوں ہو کس سے ملنا ہے صغیر اور کہاں کا ملنا دل اگر ملتا نہیں ہاتھ ملاتے کیوں ہو |