سحر علی
فاصلہ ضروری ہے
میں روزانہ دفتر میں تاخیر سے پہنچتی ہوں
اور اپنی زنجیر پہن کر بیٹھ جاتی ہوں
میں
ٹائپ رائیٹر پر ہاتھوں کا غلط استعمال نہیں کرتی
چھ بجتے ہی
پاؤں کی زنجیر گلے میں آجاتی ہے
اور میں
اسٹاپ پر کھڑی،
بسوں اور رکشوں کے دھویں میں ہوتی ہوئی سازش کو دیکھ سکتی ہوں
میں جس بس میں بے بس ہوں
وہاں شور، گھبراہٹ، پسینہ اور غصہ بھرا ہوا ہے
غصے سے بھری ہوئی بس
مجھے گھر سے کچھ فاصلے پر اتار دیتی ہے
میں جاتی ہوئی بس کو حیرت سے دیکھتی ہوں
بس کے پیچھے لکھا ہے
’’فاصلہ ضروری ہے‘‘
بس کے پیچھے جو لکھا ہے
اس کا اطلاق بس کے اندر کیوں نہیں ہوتا.... ؟
.......
راستہ
سحر علی
میں جانتی ہوں کہ موت کے کئی راستے ہیں
جیسے...!
ریل کی پٹڑی
سمندر
اور تیری بدلی ہوئی جھیل سے آنکھیں
مگر زندگی کا ایک ہی راستہ ہے
خاموشی...!
.........................................
لمس اپنی کہانی نہیں بھولتا
سحر علی
دل نہیں مانتا...
مجھ کو سچ سچ بتا
آج بھی تیرے کمرے کی کوری مہک
ڈھونڈتی ہے مجھے..؟
تیرے سونے دریچے کی بیکل ہوا
جس نے پکڑا تھا اک روز دامن مرا
جب ترے پاس آئی وہ جانِ وفا
تجھ سے پوچھا مرا....؟
شیلف میں رکھّی ساری کتابوں کے اوپر جمی دھول میں
اُن میں رکھے ہوئے کاسنی پھول میں
تیرے معمول میں
اب بھی موجود ہوں...؟
غور سے دیکھ لے
گھر کے روزن سے آتی روپہلی کرن
اُس کو لگتا نہیں گھر کا خالی بدن
کیا مرے خواب کی کوئی ٹوٹی کڑی
تیرے بستر پہ ہے بن کے سلوٹ پڑی
کیا ترے نرم تکیے پہ آنسو مرے
آج بھی جذب ہیں....؟
وہ ترے لیمپ کی دودھیا روشنی
تجھ سے تیری اداسی نہیں پوچھتی...؟
تیری تنہائی کے خواب ماحول میں
کھنکھناتی ہے کیا میری پاگل ہنسی...؟
کیا تری ڈائری کے مہکتے ورق
میرے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھتے
کیا کسی حرف نے تجھ کو ٹوکا نہیں...؟
[سیڑھیوں پہ ترے
خوشنما پھول کی
وہ جو بیلیں تھیں وہ آتے جاتے ہوئے
کیا ترا راستہ بھی نہیں روکتیں...؟
مجھ کو سچ سچ بتا
بے خیالی میں کیا
میری یادوں کو تونے رکھا ہو کہیں
اور ڈھونڈا کہیں...؟
دل کو کیوں ہے یقیں
عشق گر بھول جانا بھی چاہے کبھی
لمس اپنی کہانی نہیں بھولتا
|