غزل
حسرتوں کی شام جوں جوں رات میں ڈھلتی رہی
خواہشوں کی بھیڑ کیوں من میں مرے پلتی رہی
بجھ رہے ہیں چاند تارے ہو
چکا گل آفتاب
عمر کا کیا ، عمر نے ڈھلنا تھا سو ڈھلتی رہی
رتجگے کچھ اسطرح نیندوں پہ
بھاری پڑھ گئے
خواب کی دیوی مسلسل ہاتھ ہی ملتی رہی
کوئی تو رشتہ ہے گہرے
پانیوں سے ناؤ کا
ناخداؤں کے بنا جو آج تک چلتی رہی
مصلَحتاًکچھ
بھی کہہ لو ، اعداء کو عادتاً
نازؔ تیری خوش بیانی ہر گھڑی کھَلتی رہی
شوکت علی نازؔ۔دوحہ،قطر
|