شہ رگ
طاہرہ اقبال
نہر کا پاٹ چوڑا تھا‘ اور پانی کا بہاؤتیز تھا۔ کبھی مورنی سی پیلیں
ڈالتابھنور سا گھومتا‘ کبھی پنہاری سی گاگریں لڑھکاتا ‘چھلیں اُڑاتا‘ نہر
کے ان عنابی رنگ پانیوں میں عورتیں نہاتیں تو اموکو اپنی گابھن بکریوں کی
طرح رس بھری معلوم ہوتیں۔ اُن بکریوں کی طرح جن کے تھن دودھ سے بھرے اور
سلاخوں سے تنے ہوئے ہوتے‘ جیسے ابھی میٹھے شفاف چشمے پھوٹ پڑیں گے‘ تب وہ
بے اختیار جھپٹا مارتھل تھل کرتا تھن منہ میں ڈال لیتا اور چپڑچسر چوس
ڈالتا اور پھر خالی لٹکتے ہوئے سیاہ چھیچھڑے سے دیکھ کر اُسے عجب فتح مندی
کا احساس ہوتا۔ نہر کنارے کھڑے بوڑھے وَنّ اور اوکاں کے مہیب جھاڑ خمیدہ قد
لگتے‘ ریمونٹ کے اصطبلوں میں واہیات حد تک جوان نر گھوڑے خچر معلوم ہونے
لگتے‘ کناروں چھلکتے نہر کے لال پانی پایاب ہوتے جن میں رابو اُترتی تو
کریوں کے لالو لال ڈیلے جھڑنے لگتے۔ لسوڑیوں کا گودا ٹپکتا‘ اوروَن کی
سلونی پھلیاں ٹوٹ ٹوٹ گرتیں۔ تب وہ اپنی کسی دودھل بکری کے تنے ہوئے تھن
منہ میں ڈال ایک ہی سانس میں خالی کر دیتا‘ رابو کے گرداگرد لمبی گردنوں
والے براق بگلے تیرتے گلابی عنابی پھولوں پر مدھو مکھیاں منڈلاتیں اور
دریائی پانی نہر کے سینے میں سمٹنے لگتا جہاں رابو نہاتی تھی اور جہاں سے
راجباہوں اور کھالوں کے سوتے نکلتے تھے۔ ایک روز بے اختیار وہ بھی نہر میں
کود پڑا اور پانی میں تیرتے ہوئے اُن بوجھوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا‘ جو
رابو کے بدن سے مَس ہوتے تھے تو پھولوں بھری لغریں بن جاتے تھے۔ سرسوں کی
اِن گندلوں کو چھونے کی کوشش میں اُس کا ہاتھ رابو کی کمر پر جا پڑا۔ تو
اِک دُھواں سا اس کے بدن کے بند مساموں میں سے چھٹا تو یکبارگی اُس کے چہرے
پر مونچھ داڑھی اُگ آئے جو بیس برس کی عمر تک نہ اُگ سکے تھے۔
’’ابے امو تو‘‘
امو چرواہے کی جسارت پر رابو بے تحاشہ ہنسی‘ روپہلی مچھلی گلپھڑے کھولتی بند
کرتی‘ دُور تیر گئی۔ مچھلیوں کے سنہرے پرت اور پھولوں کے زرد انوں سے نہر
کی سطح بھر گئی اور امو کی ہتھیلیوں پر لسوڑیوں کی لیس‘ ڈیلوں کا گودا‘
کیکروں کے پھولوں کی مٹھاس ‘پکے ہوئے چبڑوں کی کھٹاس اور پتہ نہیں کس کس
ذائقے کا آمیزہ لتھڑا رہ گیا۔ چاٹتے چاٹتے اُس کا جی چاہا کہ نہر کے پیٹ
میں کہیں اُترجائے ایسا نہ ہو کہ وہ باہر نکلے اور اُس کی سنہری ہتھیلیوں
کے زرد انے جھڑ جائیں۔ تب کپاس کے پودوں پر منہ جوڑے کھڑے ٹینڈوں کے تینوں
جوڑ کھل گئے۔ سفید لیس دار ریشے باہر جھانکنے لگے‘ زمین کی کوکھ میں کرنڈ
ہوئے سارے بیج پھوٹ پڑے اور کناروں چھلکتی‘ میلوں بہتی نہر کے میٹھے پانیوں
میں سیراب ہو نے لگے۔ رابو نہر کنارے تھاپا مار مار کر کپڑے کوٹتی تھی تو
اُس کی گیلی اوڑھنی کے اندر بھی جیسے اِک رِدھم سے کہیں تھاپے پڑ رہے ہوں‘
جن کی دھمک سے امو کا بدن بجتا تھا اور نہر کے پانیوں میں بھنوربنتے تھے جن
میں لالیوں‘ گھگھیوں اور بگلوں کے ڈار گردنیں گھسیڑ گھسیڑ پر جھنکارتے اور
جھن جھن پھواریں رابو کی اوڑھنی کو بھگوتیں‘ جس کے بدن میں نہری پانی کی
رنگت گھلی تھی‘ نہ سرخ نہ پیلا نہ مٹیالا پتہ نہیں کیسا رنگ پکی ہوئی پیلوں
جیسا ‘ رس بھری نمولی ایسا‘ دُودھ بھرے بکری کے تھنوں کی رنگت جیسا۔
عورتیں جب کپڑے دھو چکتیں تو گردن تک قمیصیں ہٹا کر اِک دُوجی کی کمر پر سے
ناخن مار مار گرمی دانے پھوڑتیں تب امو کی بکریاں بھری فصلوں کو منہ مارنے
لگتیں‘ لیکن وہ انھیں ہنکانہ پاتا‘ کہ اُس کے پیر تو نہر کی سنہری ریتل میں
دھنسے ہوتے‘ جہاں روپہلی مچھلیاں قلابازیاں لگاتیں‘ اور نازک نازک شاخوں پر
لہراتے شوخ رنگ پھول سنہری پانیوں میں منہ دھوتے۔ تب دریائی پانیوں میں
گچاگچ نہر کی مینڈھوں پر بیٹھ کر عورتیں ٹپے اور ماہیے گاتی ہیں تو اُسے
باری دینے کو کہتیں کہ چرواہوں کے گیت راوی کے پانیوں جیسے بھیگے نتھرے اور
میٹھے میٹھے ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کی عورتیں اُسے کمر پر صابن ملنے اور پت کے
دانے پھوڑنے کی دعوت بھی دے دیتی تھیں۔ تب اُسے لگتا یہ مواد بھرے دانے
نہیں ہیں بلکہ اُس کی دودھل بکریوں کے بھرے ہوئے تھن ہیں۔ وہ پٹک پٹک ناخن
مارتا چلا جاتا۔ ان میں سے نکلنے والا زرد مواد جیسے کہیں اُس کے اپنے اندر
بھرا پڑا تھا‘ جو ناخن لگنے سے پھوٹ پڑا ہو۔ اُس کا اپنا جسم ازخود پت کا
اک بڑا سا دانہ بن جاتا جس کا منہ کھل گیا ہو اور جس میں سے زرد زرد پکا
ہوا مواد پھوٹ پڑا ہو۔ وہ لذتِ درد میں کراہتا‘ تب کوئی مرد آتا دِکھائی
دیتا تو عورتیں خود کو ڈھکنے لگتیں لیکن اُس سے کسی پردے کی ضرورت ہی محسوس
نہ کرتیں جس کے چہرے پر بیس برس کی عمر تک کوئی بال تک نہ اُگا تھا اور
قدکنڈیاری کے بوٹے جتنا تھا تب وہ کانٹوں بھرے کیکروں کی ٹہنیوں پر چڑھ
جاتا اور ریمونٹ کے اصطبلوں میں بھرے اُن نرگھوڑوں پر حقارت سے تھوکتا جن
کا کام صرف مربع پال گھوڑیوں کی نسل کشی تھا‘ جن کی نس نس میں کچھ اُبلتا
کھولتا‘ جیسے ابھی پھٹ پڑیں گے۔ اُس کے اندر بھی ایسا ہی کچھ اُبلتا کھولتا
ہوا باہر نکلنا چاہتا۔ نرگھوڑوں کی بے حیائی جیسا کہ پت کے مواد جیسا۔ تب
وہ ان کورے کھیتوں میں لوٹنے لگتا‘ جن کی ابھی کور نہ ٹوٹی تھی‘ جو ابھی
پچھلی رات دھرتی کو پھاڑ کر ذرا ذرا انگور سے باہر نکلے تھے اور جن کے
سَروں پر ابھی بیج کے خول دھرے تھے۔
نہر کناروں کناروں چھلکتی سروے کی چوڑی سڑک کو پایاب کرتی اوکاں اور ون کے
کھکھلوں میں نہری پانی اُچھال مارتا اور دونوں کناروں بچھے کھیتوں میں منہ
زورہو گھپ گھپ بھرتا‘ جس کی سطح پر مچھلیوں کے سنہرے پرت اور بگلے تیرتے
تھے کہ یہ پانی رابو کو چھو کر کھیتوں میں بھر رہا تھا جس کے سنہرے کیچڑ سے
اصغر کی پنڈلیاں لتھڑی تھیں۔ سفید لنگوٹ رانوں پر کسا تھا۔ دُھواں چھوڑتی‘
تڑپتی پھڑکتی پنڈلیاں اور رانیں جن سے لہو رنگ نہری پانی نچڑتا تھا اور
تنومند بدن کے مساموں سے زرخیز بھل جھڑتی تھی‘ جو بنجر گلزار بناتی تھی اور
گلزار پھلدار، یکبارگی وہ ریمونٹ کے گھوڑوں سے مضبوط سم اُٹھا کر پانی میں
کودا اور ہنہناتا ہوا رابو تک گیا‘ رابو بدن کی نہر سے چھٹتی لہروں اور
جھرتی ہوئی بھل میں منہ کے بل گری اور بھاپیں چھوڑنے لگی‘ اور فولاد چڑھے
سموں سے چٹختی چنگاریوں میں بھسم ہو گئی تب گداز پھولوں کو چومتی ہوئی مدھو
مکھیاں فضا میں بھڑ گئیں۔
امو کو لگا اُس کی سب سے رسیلی بکری کے دودھ بھرے تھن کسی جنگلی بلے نے دبوچ
رکھے ہیں۔ اُس نے گلا پھاڑ پھاڑ ڈھولے اور ماہیے گائے جن میں ڈاروں وچھڑی
کونج کی کُرلاہٹ بھری تھی۔ اپنی دودھل بکریوں کو چھمکیں مار مار اِدھر
اُدھر بھری فصلوں میں بکھیرا‘ کیکروں کی ٹیشیوں پر چڑھ کر کوکیں اور واجیں
ماریں‘ ٹہنوں سے لٹک کر لمبے لمبے جھونٹے لیے لیکن آج شاید ساری بستی کان
لپیٹ کر سومَر رہی تھی۔ وہ دھریک کی ٹیشی سے جھولتا ہوا نیچے بھیگی ہوئی
ریت میں آن ٹپکا‘ اور جھپٹا مار کر اپنی سب سے دُودھل بکری کی پچھلی ٹانگوں
کو جکڑ لیا‘ جس کے جسم سے بھی بڑے حوا نے پر چڑھی بوجھی لیرولیر کر دی اور
حلق کو کہیں پیٹ میں کھینچ کر اور زبان کو پھندہ بنا کر بھرے ہوئے تھن ایک
ہی سانس میں خالی کر دیئے اور پھر دُودھ اور آنسوؤں کی میٹھی نمکین دھاریں
باچھوں سے بہنے لگیں اور گیلی ریت میں وہ سارے کا سارا لتھڑپتھڑہو گیا تب
سرخ جھکر آسمانوں سے اُترے اور سیاہ سیلابی آندھیاں زمین سے اُمڈیں اور
آسمان اور زمین کے درمیان بھری ہر شئے کو لتاڑ دیا۔ نہر کے کنارے ٹوٹ گئے۔
کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ تیار فصلیں اپنے ہی گھٹنوں پر دُوہری ہو گئیں۔ ون
اور اوکاں کے تنے تڑخ گئے جن میں بھرے جنگلی چوہے ‘ گلہریاں اور گوہ جھکڑوں
میں اُڑنے لگے۔سیاہ چھال پانی کے بہاؤ میں تیرنے لگے اور گھونسلوں میں پناہ
لیے ہوئے پرندے اور انڈے بچے روڑ گِیٹوں کی طرح ٹپکنے لگے۔ امو کی کئی
بکریاں اندھی ہو کر نہر میں گریں اور بہہ گئیں۔ شوکریں مارتا لال آسمان
زمین کے سیاہ داغدار چہرے سے ٹکریں مارنے اور لہولہان ہونے لگا۔تب نہر کے
سارے پانی بے منہ سَر زمینوں میں جذب ہو گئے۔
اُس روز نہر میں پانی کی بندی ہو گئی کنارے پیندے میں اُتر گئے اور مَری ہوئی
مچھلیاں کناروں پر چپکی رہ گئیں‘ سَر کے بل نہر میں غوطے لگانے والے لڑکوں
کے بدن کیچڑ سے اَٹ گئے‘ پرندوں کے پَروں سے جھپٹتی پھواروں میں بھیگنے
والی رابو کی اوڑھنی خشک ہو گئی‘ جس پر کالے پیلے میل کے چٹاک اُبھر آئے۔
ایسے ہی داغ جیسے زرد پتوں میں لپٹی لسوڑیاں سوکھ کر پیپ بھرے پھوڑے معلوم
ہونے لگی تھیں۔ لال ڈیلے سیاہ چویاں بن کر جھڑ گئے۔ چراگاہیں پھونس ہو گئیں
نہر سے نکلتے راجباہ اور کھالوں کے سوتے خشک ریت پھانکنے لگے اور بکریوں کے
تھن سُوکھ کر جنڈ کی جڑیں بن گئے‘ سروے کی چوڑی سڑک جس پر کبھی نہر کی
اُچھال چھڑکاؤ کرتی‘ ڈکھن کی ہَوائیں جھنڈوں میں سے ساڑ ساڑگزرتی ہوئی
جسموں پر پھولوں بھری چھمکیں برساتی تھیں۔ اب مویشیوں اور انسانوں کے ریوڑ
اس ٹھنڈی سڑک سے گزرتے تو معلوم ہوتا‘ بگولے سٹاپو کھیل رہے ہیں۔ کپاس کے
ٹینڈے ان کھلے ہی کرنڈ ہو گئے‘ جن کے سفید ریشے سنڈیاں بن گئے۔ خشک نہر کی
قبر پر بیٹھی عورتیں بین اُلارنے لگیں‘ کماد اور نرمے کی اُن فصلوں کا ماتم
جو آسمانوں چڑھی سیاہ آندھی معلوم ہوتے تھے۔ اُن درختوں کا ماتم جن کی
شاخیں اِک دُوجے میں منہ دھنسائے چھتریاں تان گئے تھے‘ جن کی گھپاؤں میں
عورتیں بھٹک جاتیں تو کھیتوں کو پانی باندھتے مرد اُنھیں ڈھونڈنے کو نکلتے
تو وہ بھی رستہ بھول جاتے تب نہری پانی پی پی کر ساوے کچر ہوئے جھنڈوں میں
نرمادہ چونچیں لڑاتے۔ بند پپوٹوں اور زرد باچھوں والے بوٹ نہری پانی کے
بلبلوں کے سے انڈے پھوڑتے۔ لال لال حلق چیر چیر چوگا لیتے۔
سورج ان جھنڈوں میں سو ا نیزہ اُترتا چلا گیا۔جامنی دھاریوں والے آک کے سفید
پھولوں کے گچھے اور آموں کے ہم شکل سبز کڑوے پھل‘ دھول کی موٹی تہ میں لپٹ
گئے۔ تھوراور کنڈیاریاں کھیتوں کی زرخیزی چاٹ گئیں۔ پرندے سوکھی نہر میں
منہ کے بل غوطہ کھا کرگرتے اور سلگتی ریت میں چونچیں پھنسا دوبارہ اُڑان نہ
بھر پاتے۔چرندپرند روڑ گیٹے کھا کھا مرنے لگے۔ اب انسان کیا کھائیں گے‘
اوندھی موندھی آندھیوں چڑھی فصلیں سوکھی نہر کی سولی چڑھ گئی تھیں۔بکھرا‘
کنڈیاریاں اور آک پھل پھول گئے‘ زرخیز مٹی‘ روڑ اور ڈھیمیں بن کر بھاپ
چھوڑنے لگے۔ دائی کی بھٹی اور تنور ٹھنڈے ہو گئے جہاں کچے سٹے مچھ کر اور
دودھی بھٹے گھیر کر آبھو بھنوائے جاتے تھے اور مٹھ مٹھ بھر پیڑوں کی روٹیاں
وارووار لگتی تھیں۔ گیہوں کی ہم رنگ عورتیں سوکھ کر بھوسہ ہو گئیں اور
مردوں کی کمریں کھجور کے سیلے پتوں سی دوہری ہو گئیں‘ پانی پانی پکارتی
ٹٹیریاں پیاسی ہی سو گئیں۔ نہر کے پیندے میں چُلّو بھر پانی تعفن چھوڑ گیا‘
جس میں مرے ہوئے مچھلیاں پرندے اور مویشی راتوں رات کہیں غائب ہونے لگے۔ تب
خبر آئی اُوپر کہیں پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہے‘ جب تک زمینوں کی سیرابی کا
سمجھوتہ نہیں ہو پاتا تب تک سارے پانی سمندروں میں غرق ہوتے رہیں گے۔ نہریں
خشک ریت اُڑاتی رہیں گی۔ زمینیں بنجر ہو کر بھکھرا اُگائیں گی‘جنھیں کھا کر
جاندارمرتے رہیں گے‘ جس میں مرغابیاں‘ مچھلیاں‘ بگلے‘ لومڑ منہ کے بل ریت
میں دفن ہوتے رہیں گے۔ اَمُّو کو بڑوں کی اس سوچ پر بڑی ہنسی آئی اور وہ
سوکھی ہوئی نہر کی قبر پر جس کے سارے پانی سمندر برد ہو رہے تھے اور جس کی
زمینیں پیاسے حلق کھولے مَر رہی تھیں‘تادیر بیٹھا ہنستا رہا ۔ زیادہ ہنسی
تو اُسے ریمونٹ کے اصطبلوں میں بندھے نہر کے پانیوں کی طرح چھلکتے اُمڈتے
بھاپ چھوڑتے اُن نر گھوڑوں پر آئی جو اپنے اندر ہی کہیں نہر کے پانیوں کی
طرح اُتر گئے تھے۔ اس سے زیادہ ہنسی تو اُسے اصغر کو دیکھ کر آئی کہ یہ نر
گھوڑا بھی خشک نہر میں بنے گھوروں اور غاروں کی طرح اپنی ہی گہرائیوں اور
کھائیوں میں کہیںسمٹ گیا تھا اور پھر اُسی روز اُس نے نجانے کونسا بھکرا
نگلا کہ ایک دن اور ایک رات جلاب نچوڑتا ہوا ایسے مَر گیا جیسے کوئی چڑی
گھگھی خشک نہر کی سوکھی ریت میں پر دھنسااور چونچ گھسیڑ پیاس کی سولی پر
چڑھ جاتی ہے تب امو نے اپنی سب سے دودھل بکری کے تھن منہ میں چوڈالے حلق
ریتلا غار بن گیا اور زبان پر تھور اُگ آیا لیکن دودھ کا قطرہ بھی نہ ٹپکا‘
جیسے وہ آک کی سوکھی جڑ چوستا ہو جس میں سے دودھ رنگ زہر نچڑتا ہو۔ تب نہر
کی خشک پھوڑی پر عورتوں نے بین اُلارے‘ جن کے جسموں پر بچھے گرمی دانے پھس
گئے تھے اور جلد کی اُوپرلی سیاہ پرت اُدھڑ گئی تھی‘ جن کی قمیصوں میں چوسی
ہوئی لسوڑیوں کی بوسیدہ کھالیں لٹکتی تھیں‘ پھولے ہوئے پیٹوں والے بچوں کے
سَروں پر کوّے آن بیٹھتے‘ ٹھونگتے مگر سوکھا ہواچمڑا نہ اُدھیڑ پاتے۔ گدھوں
کی کرلاہٹیں‘ٹٹیریوں کی پکاریں۔ عورتوں کے بین‘ بچوں کے حلق میں کھڑکھڑاتی
چیخیں جنھیں باہر اُنڈیلنے کی طاقت تانت سے جسموں میں نہ رہی تھی۔ سامنے
نہر کے خشک ملبے میں گدھ اور ڈھوڈر لمبے پَر پھیلا سَر کے بل دبے تھے اور
سروے کی سڑک پر ریت اور دھول کے پہاڑی سلسلے رواں رہتے تھے۔ سرمہ سی مٹی
ڈھیمیں اور روڑے بن کر تڑخ گئی اور کور تمّے اور تھور اُگلنے لگی۔ رابو
تعفن بھری نہر کی بھاپ چھوڑتی بھوبھل میں پیر ڈال کر روتی تھی۔ اُس کے گرد
نہاتے سارے پھول راکھ ہو چکے تھے ۔مچھلیاں مر گئی تھیںاور بگلے کہیں ہجرت
کر گئے تھے۔ امو اپنی مرتی ہوئی بکری کو اُٹھا کر نہر پہ لایا‘ جس کا بدن
دھونکنی کی طرح پھڑکتا تھا لیکن نہر سوکھ کر ہموار ہو چکی تھی‘ جس کی
مینڈھوں پر سبزہ تھا‘ نہ پیندے میں پانی‘ بکری کے تھن تانت کی طرح بجتے تھے
اور امو کا منہ گرد اور آنسوؤں سے اٹا تھا۔ رابو نے بانہیں پھیلا کر اُسے
سینے سے چمٹا لیا اور سوکھی نہر کی پھوڑی پر بین الارا۔
’’امونہر سوکھ گئی۔ تیری بکریاں مَر گئیں میرا اصغر مر گیا۔ تو اپنی بکریوں
کے بغیر نہ جی سکے گا مَیں اصغر بنا نہ جی پاؤں گی۔‘‘
امو کو لگا وہ اپنی مَری ہوئی بکری کی ٹھنڈی لاش سے لپٹا ہے۔ سوکھی ہوئی نہر
کی بھوبھل میں پڑنے والے کسی پیاسے گھورے میں اُتر گیا ہے۔ اُس نے اپنی
ہتھیلیوں کو چاٹا لیکن اُن پر کچھ تمّے اور تھور کی سی کڑواہٹ ملی تھی۔ وہ
دونوں ایک دوسرے سے لپٹے تھے لیکن بدن کی ریت کہیں رُوح کے گھوروں میں اُڑ
رہی تھی۔ لہروں سی اُچھال مارنے والے ریمونٹ کے گھوڑے کہیں اندر ہی سمٹ گئے
تھے اور بدن پر بچھے سارے گرمی دانے بنا ناخن مارے ہی پھٹ گئے تھے۔ امو نے
منہ پر ہاتھ پھیرا اُس کے چہرے پر اُگنے والے دو چار بال بھی مسمار ہو چکے
تھے۔ رابو کی نحیف گرفت میں وہ سوکھے ہوئے گوکھڑے کی طرح کُرنڈ پڑا تھا‘ جس
کی پھوٹیں‘ اُس کے سیاہ ریشوں میں دھنس چکی تھیں۔ سارے آبی پرندے خشک نہر
کی قبر کُرید کُرید کہیں اُڑان بھر گئے تھے اوراُوپر کہیں پانی کی سیرابی
کیتقسیم پر فیصلہ ابھی بھی نہ ہو پایا تھا۔ سارے دریا سمندروں میں غرق ہو
رہے تھے اور سامنے پڑی نہر کی شہ رگ کٹ چکی تھی۔ |