|
صبیحہ صبا کے اعزاز میں دلنشیں ،صبیح و معطر شام فرحت پروین مئی کی تپتی جھلستی دوپہروں اور حبس ذدہ شاموں کو اچانک صبا کے ایک صبیح جھونکے نے آکر معطر اور منور کر دیا۔یہ کیسے ممکن تھا کہ نامدیو مالی کی طرح چپ چاپ اپنے کام میں مگن شعروادب کی پنیری لگاتی شبانہ روز محنت سے اس کی آب یاری کرتی۔شعر وادب کی لہلہاتی فصلیں اگاتی صبیحہ صبا لاہور آئے اور میں دوستوں کو اس کی ملاقات سے محروم رکھوں سومیں نےآناَََ فاناََ ایک ادبی نشست کا اہتمام کر ڈالا۔دوستوں نے بھی شوقِ ملاقات میں شارٹ نوٹس کا گلہ نہ کیا اور چلے آئےسو محفل جمی اورخوب جمی۔صدارت صغیر احمد جعفری نے کی۔عروج ٹی وی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورپروگرام کی ریکارڈنگ کیؕؕ۔دوستوںکی خواہش تھی کہ صرف صبیحہ سے شا عری سنی جائے جبکہ صبیحہ کےاصرارپر سب نےشاعری سنائی صبیحہ صبا کی معیاری شاعری کواس کی حسنِ ادائیگی نے چار چاند لگا دئیےاور سونے پر سوہاگااس کی آواز کی موسیقیت،لہجے کی ملائمت ۔صبیحہ سے جی بھر کے سنا گیالیکن تشنگی باقی رہی،ایسی ہی کسی محفل میں مزید سننے کے اشتیاق میں محفل تمام ہوئی۔پرتکلف عشائیہ ہوا۔
صبیحہ صبا خیر کی فصل اگا کر اسے پکنے کے لئے اک توکل پہ میں چھوڑوں ہوں کسانوں کی طرح
صغیر احمد جعفری دکھادے پھر سے اپنا گھر دکھادے مرا سر صحنِ کعبہ میں جھکادے حرم میں مرے سجدے ان گنت ہوں جبیں کو روشنی سے جگمگادے
خالد احمد اس طرح پھوٹ کے رویا کوئی بے کسوں کا نہیں گویا کوئی لوٹ کر بھی کوئی بے چین رہا لٹ کے بھی چین سے سویا کوئی
نجیب احمد پلک سے روح تک بھیگا ہوا ہوں ترے خط کھول کر بیٹھا ہوا ہوں میں لمحہ ہوں مگر محنت کشی کا سحرسے شام تک پھیلا ہوا ہوں
اسلام عظمی امیرِ شہر نے دی ہے ضمانت امنِ عامہ کی مگر پھر بھی اے لوگو احتیاطاَ جاگتے رہنا
تو کس طرح فریبِ محبت میں آگیا مجھ کو تو خیر ٹوکنے والا کوئی نہ تھا
شفیق سلیمی کبھی پلکیں نہیں بھیگیں کبھی چہرہ نہیں اترا کوئی غم بھی میرے میعار پر پورا نہیں اترا
جو بھی ہم سے بن پڑا کرتے رہے رت بدلنے کی دعا کرتے رہے
محمد سلیم طاہر آنکھ گر خواب نہ دیکھے تو قیامت آجائے اے مری خام خیالی ، تری شامت آجائے میں سمجھتا ہوں کہ اس نے اسے دیکھا ہی نہیں اس کے کوچے سے اگر کوئی سلامت آجائے
سعداللہ شاہ اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
ڈاکٹر صغرا صدف اس دشتِ آرزو میں بھٹکنے تو دے مجھے اعلان وحشتوں کا وہ کرنے تو دے مجھے یہ میرا مسئلہ ہے کہ کیسے کروں قیام پہلے وہ اپنے دل میں اترنے تو دے مجھے
صوفیہ بیدار تیری رفتار کو اک عمر کا زینہ ضروری ہے مرا مرنا ضروری ہے ترا جینا ضروری ہے اتارے ہیں گلے سے گھوںٹ ہم نے تیری نفرت کے لبوں کو زہر لگ جائے تو پھر جینا ضروری ہے
فرحت پروین خود جلانے کے لئے جب کہ ہےاندر سے اٹّھی کیسے درماں ہو، کہ یہ آتشِ بےگانہ نہیں یوں عیاں اب تو مری روح کی عریانی ہے جیسے ملبوس ِ دریدہ سے بدن جھانکتا ہے
شہزاد نیر
ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا تیرا تو کچھ گیا نہیں مارا تو میں گیا تیری شکست اصل میں میری شکست ہے تو مجھ سے ایک بار بھی ہارا تو میں گیا
\
رضا صدیقی مدیر و میزبان ادبستان ٹی وی |