عبیداللہ
علیم
عشوہ و غمزہ و رم بھول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکہ تھا کہ ہم بھول گئے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدہء نم بھول گئے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے
جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کونسا غم بھول گئے
اب تو جینے دو زمانے وا لو
اب تو اس زُلف کے خَم بھول گئے
زندگی نے جو سکھایا تھا علیم
زندگی کے لئے ہم بھول گئے