Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

بہت خوبیاں ہیں مری اردو زبان میں
ہاجرہ بانو
 یوں تو ہر کسی کو اپنی مادری زبان اچھی لگتی ہے اور اس میں اسے خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن اردو زبان کا اپنا ہی ایک دلکش اعجاز ہے یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اپنے اندر آبشاروں کا ترنم، کوئل کی میٹھی کوک، گلاب کی خوشبو، سمندر کی گہرائی اور حنا کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔ اردو زبان خدا کی اس وسیع و عریض کائنات کے گوشے گوشے میں بولی جاتی ہے اس نے نہ صرف ممالک کی سرحدوں کو آپس میں جوڑا بلکہ اس نے دلوں کو آپس میں جوڑنے کا کام بھی بخوبی نبھایا ہے اردو زبان میں ایسی شیرینی اور لطافت ہے کہ غیر اردو دان طبقہ بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ زبان سیدھے کانوں کے ذریعے دلوں میں گھر کرلیتی ہے۔
 آئیے دیکھیں کہ اس خوبصورت، حسین اور شیریں زبان کا آغاز کیسے ہوا۔ دو یا کئی زبانوں کے میل جول سے کبھی کبھی ایک نئی زبان پیدا ہوجاتی ہے لیکن دو چار سال میں نہیں بلکہ کئی صدیوں میں اس کا جنم پورا ہوتا ہے۔ اردو زبان بھی اس سے علیحدہ نہیں ہے عربی، فارسی اور کئی ہندوستانی زبانوں کے ملاپ سے اس کا وجود ہوا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ ملاپ زبانوں کی شکل بدل دیتا ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ایک زبان اس کی بنیاد بن جاتی ہے اور دوسری زبانیں اس میں اضافہ کرتی ہیں۔ ہندوستان کے دائرے میں اردو کو ہندی زبان نے بنیاد کا سہارا دیا اور عربی و فارسی زبان کے الفاظ نے اس کے دامن کو وسیع کیا۔ سرزمین ہند پر قدم رکھنے والوں میں عرب، ایرانی ، افغانی، ترکستانی اور مغل وغیرہ لوگ تھے۔ بیرونی ممالک سے آئے لوگ یہاں کے لوگوں پر اپنی زبان نہیں لاد سکتے تھے صرف اپنی ضرورت کی وجہ سے یہاں کی بولی بولنے کے لیے مجبور تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اتنا کرسکتے تھے کہ یہاں کی بولی میں اپنی زبان کے چند الفاظ کو شامل کردیں اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ دلی کے قریب کی بولیاں تقریباً آپس میں ملتی جلتی تھیں۔ دلی کے پورب میں جو بولیاں بولی جاتی تھیں اس کو کھڑی بولی کہا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ کھڑی بولی میں فارسی، عربی اور ترکی کے الفاظ شامل ہونے لگے اور یہ زبان نکھرنے لگی۔ پھر چند دنوں کے بعد ہی اس نئی زبان میں شعر کہے او رلکھے جانے لگے۔ ساتھ ہی کتابیں بھی چھپنے لگیں اس نئی زبان کو زبان ہند، ہندی، ہندویت اور دہلوی کہا جانے لگا۔ بعد میں اسے ہندی کا نام دے دیا گیا۔ دکن اور گجرات میں اسے دکنی اور گجری بھی کہا جانے لگا۔ پھر بعد میں اسے زبان اردوئے معلی بھی کہا گیا اور آخر میں اردو کہا جانے لگا۔ اردو زبان نے اردو ادب کی ہر صنف میں اپنی شاخیں پھلائی ہیں جیسے نثری ادب، مراثی، قصیدہ نگاری، ناول نگاری و افسانہ نگاری اور شاعری لیکن شاعری میں اردو زبان نے اپنا جو رنگ جمایا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ اس میں ہمیں دوسری زبانوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ لیکن ہمارے بہت سارے اردو شعراء نے اردو شاعری کو اپنے خون سے سینچا اور پروان چڑھایا۔ مرزا غالب، فراق گورکھپوری، آتش، سودا، میر، مومن، ناسخ، جوش، میر انیس اور دبیر جیسے مایہ ناز شعراء نے اردو ادب کو بیش بہا خزانوں سے سرفراز کیا ہے۔
 اردو زبان کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ہر کوئی اسے بہت جلد اپنا لیتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری زبان بولنے والوں کو بھی اس میں اپنی اپنی زبان کا رنگ جھلکتا نظر آتا ہے۔ اردو کا دامن بہت کشادہ ہے اس نے اپنے دامن میں بلا مذہب و ملت تمام لوگوں کو جگہ دی۔ اسی زبان میں ہمیں قومی یکجہتی کا رنگ نظر آتا ہے ہر کسی کو اس زبان میں ایک الگ مٹھاس نظر آتی ہے جس کی یہ مادری زبان ہے اسے بھی اور جس کی یہ نہیں ہے اسے بھی۔ اس زبان نے کبھی کسی کو پرایا نہیں سمجھا جس نے سب کو اپنے دامن میں جگہ دی اور خود نے سب کے دلوں میں اپنا مقام بنالیا ہندی زبان جوکہ اردو زبان سے بہت قربت رکھتی ہے لیکن جب اس میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو وہ اپنا ایک الگ ہی جادو رکھتے ہیں اور بہت ہی جلد ہر خاص و عام کی زبان پر آجاتے ہیں اور یہی اردو زبان کی مقبولیت کی پہچان ہے۔
 اردو زبان نے جہاں ترقی کے منازل تیزی سے طے کیے ہیں ویسی ہی اسے اس ترقی کے راستے میں بے شمار مشکلات اور دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے جسم پر طرح طرح سے وار کیے گئے۔ یہ زخمی ہوتی رہی لیکن بڑی ہمت اور دیدہ دلیری سے مقابلہ کرتی رہی اور اپنے آپ کو کبھی مٹنے نہیں دیا اور اپنا ارادہ و عزم پختہ کرتی گئی۔
برق کو یوں عزم بلبل نے شکست فاش دی
آشیاں جلتا گیا پھر آشیاں بنتا گیا
 اردو زبان کی خوبی اس کی سادگی اور شائستگی ہے اور اسی سادگی نے اسے دوسری زبانوں سے بلندی اور عظمت بخشی۔ اس زبان نے خود کو ہمیشہ دوسری زبانوں میں مل کر ایک نیا روپ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اگر اردو کو ایک حسین غزل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا جس کے حسن سے کائنات بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے دراز گیسوؤں کی مہک پوری دنیا میں اپنی خوشبو بکھیرتی ہے اس کے خوبصورت ہونٹوں سے آبشاروں کا ترنم پھوٹتا ہے اس کی چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں اپنے اندر اپنے چاہنے والوں کو سمیٹے ہوئے ہے اس کا خوبصورت گورا ور سنہرا رنگ ہر ملک میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی حسین مخروطی انگلیوں نے آنے والی نسلوں کو ہر زمانے میں چھوکر ایک انجانی محبت سے سرفراز کیا ہے۔
 اردو زبان نے ہر زمانے اور ہر وقت میں اپنی مقبولیت اور شہرت کا سکہ جمائے رکھا۔ آج بھی ایسے ہزاروں افراد ہیں جو اردو پوری طرح سے سمجھ نہیں سکتے ہیں اسے بار بار سننا پسند کرتے ہیں اس زمرے میں اردو غزل کا نام پہلے آتا ہے جس نے نہ صرف اردو داں طبقہ کو اپنی الفت کی گرفت میں جکڑا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ غیر اردو دان طبقہ پر بھی اپنے حسن کا سکہ جمایا ہے ہم تمام اردو کے چاہنے والے اس خوبصورت و شیریں زبان کو یوں دعا دیتے ہیں کہ:
رنج کی دھوپ نہ آئے ترے آنگن میں کبھی
تجھ پہ اللہ کی رحمت ہو سدا سایہ فگن
٭٭٭
ہاجرہ بانو
ریاست مہاراشٹر-
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE