|
محمد ظہیر قندیل سب مرا حال مرےچہرے پہ افشا رکھے ہر جگہ عشق کمینہ مجھے رسوا رکھے کوئی شہکار بھلا کیسے میں تخلیق کروں پتھرو ! سوچ رہا، ہاتھ میں تیشہ رکھے بادلو آج مرے صحن میں کھل کے برسو کیوں کئی سال ہوئے ہیں اسے سوکھا رکھے مجھ سےاک شاخ سے توڑے گئے گل نے یہ کہا ‘‘ جا، خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے’’موسمِ گل نے چلن پوری طرح سے بدلا ہر نیا پھول کھلا ہاتھ میں شعلہ رکھے پی رہا ہے وہ بہت ،صبح سے بیٹھا ہے یہاں مولوی ساتھ میں اک ،کفر کا فتویٰ رکھے کشتیاں بیچ بھنور میں بھی سلامت ہوں گی اپنےاللہ پہ اگر کوئی بھروسا رکھے کتنا سونانظر آتاہے مرارات کو گھر پھر بھی صد شکر خدا کا ہے وہ جیسا رکھے اڑتی اڑتی سی خبر رات ترے آنے کی ہے اب خدا رات تلک مجھ کو بھی زندہ رکھے |