|
اعجازگل ہوااڑا کے مجھے شہر بے نشاں لے چل جہاں مقیم ہیں سب میرے رفتگاں لے چل یہاں پہ ختم ہوئی سرحد یقیں آگے اب اس مقام سے تو طائرِ گماں لے چل ٹہر تو اور برس دو برس گزارتے ہیں نہیں پسند اگر عمر مہرباں لے چل خلا میں پھینک نہ میر ے بجھے ستارے کو سمیٹ راکھ ابد پار کہکشاں لے چل یہیں پہ فرد عمل کھول پڑھ سنا تفصیل زیاں زیاں ہی رہے گا کسی جہاں لے چل نہیں درخت میں جب قوت نمو تو پھر صبا بہار میں رکھ یا سر خزاں لے چل میں معترض تو نہیں تیری ہمرکابی سے بنا سبیل اجل ساتھ خاکداں لے چل تماشا شام و سحر کا ہے لطف سے خالی تماشا گر یہ اٹھا ا پنی پتلیاں لے چل جہاں سے مجھ کو اتارا گیا زمینوں پر پلٹ کے گردش افلاک اس مکاں لے چل جو سنگ میل تھے پہچان کے ہوئے معدوم تری رضا کہ جدھر راہ بے نشاں لے چل
|