|
عنبرین صلاح الدین غزلیںیہی منظر تھے انجانے سے، پہلے تمھارے شہر میں آنے سے پہلے زمیں کی دھڑکنیں پہچان لینا کوئی دیوار بنوانے سے پہلے پلٹ کر کیوں مجھے سب دیکھتے ہیں تمھارا ذکر فرمانے سے پہلے نجانے کتنی آنکھیں منتظر تھیں ستارے بام پر آنے سے پہلے دریچے بند ہوجاتے ہیں کتنے یہاں منظر بدل جانے سے پہلے عنبرین صلاح الدین یہ بام و در بھی مرے ساتھ خواب دیکھیں گے تمام رات مرا اضطراب دیکھیں گے جہانِ حرف و معانی میں جس نے اُلجھایا ہم اُس کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھیں گے وہ میرے شہر میں آئے گا اور ملے کا نہیں !وہ کر سکے گا بھلا اجتناب! دیکھیں گے !تمام عمر دعا کے لئے اُٹھائے ہاتھ ہیں خوش گمان، خوشی سے عذاب دیکھیں گے ملیں گے اُس سے کہیں دوسرے کنارے پر سراب پار کریں گے، سراب دیکھیں گے وہ مرحلہ بھی سرِ راہِ عشق آئے گا سوال کرنے سے پہلے جواب دیکھیں گے چھڑا کے ہاتھ کسی روز اپنی وحشت سے فصیلِ شہرِ تمنا کا باب دیکھیں گے سحر کے بعد شمارِ نجومِ شب ہو گا سفر کے بعد سفر کا حساب دیکھیں گے عنبرین صلاح الدین خار و خس کی مہ و انجم سے یوں نسبت دیکھی میرے خوابوں کی مرے شہر نے قیمت دیکھی کب مرا راستہ ایسا تھا کہ تجھ تک پہنچے میں نے خود چشمِ تخیل سے رعایت دیکھی میں نے لفظوں کو سمیٹا تو فسانے پھیلے خواب بکھرے تو مری آنکھ نے شہرت دیکھی وقت کی آندھیاں کس سمت اڑا لے آئیں اس نے دیکھا تھا مجھے، میں نے قیامت دیکھی گونج رہتی ہے دروبام میں تنہائی کی کب ترے بعد کسی جشن کی فرصت دیکھی اس کے لفظوں کے مقابل مَیں بھلا کیا کہتی میں نے حیران ہی رہنے میں سہولت دیکھی چھو کے آئی ترا پیکر جو نکھرتی ہوئی دھوپ کیا سے کیا میں نے دروبام کی رنگت دیکھی عنبرین صلاح الدین کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں مجھے یہ وہم لاحق تھا، درودالان ہیں میرے مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں تمہاری گفتگو سنتی رہے دنیا، پہ دم بھر میں ہماری خوشکلامی بھی بنی اِک داستاں جاناں مری دہلیز پر صدیوں سے ہے پہرا عزابوں کا مجھے اِذنِ سفر کب ہے جو کھولوں بادباں جاناں عجب بے چارگی ہے، ہر طرف ہیں خوف کے پہرے جہانِ ہست کی وحشت میں ہوں بے سائباں جاناں قفس کے اُس طرف پہنچے کبھی میری کہانی بھی اُفق کے پار بھی جائے کبھی میری فغاں جاناں کبھی مجھ کو پکارو تو مرے اپنے حوالے سے تمہارے ہاتھ پہ رکھ دوں زمین و آسماں جاناں عنبرین صلاح الدین مرے گھر سے تمہارے آستاں تک گماں کے رنگ ہیں حدِّ گماں تک کئی موسم ہیں پھیلے درمیاں میں بہاروں سے تری، میری خزاں تک ابھی سے رات کیوں ڈھلنے لگی ہے ابھی آئی نہیں باتیں زباں تک مرے رہبر کا رستہ کھو گیا ہے کوئی لے آئے اُس کو کارواں تک پہنچ جائیں گے اِک دن رفتہ رفتہ تمہارے تِیر بھی میری کماں تک کئی صدیوں میں سمٹی ہے مسافت مسافر ہیں، چلیں آخر کہاں تک سمجھ آئی نہیں اپنی ہمیں بھی بنا ڈالی کسی نے داستاں تک عنبرین صلاح الدین |