پیش لفظ
سفرنامہ نگاری میں تھامس جے کرومبی نے
مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ادب کی اس صنف کو اس نے اپنے منفرد اسلوب
سے ایک نئی اور انوکھی جہت دی ہے۔ ابن بطوطہ کو میں نے کرومبی کے
حوالے سے پڑھا۔ سچی بات ہے۔ اس عظیم سیاح کی چوالیس ممالک پر پھیلی
سیاحت نے مجھے سحر زدہ کر دیا تھا۔
ایڈونچر سے معمور دونوں سیاحوں کی پر
آشوب سیاحت ’چودھویں اور بیسویں صدی کے تہذیبی موازنے قرون وسطیٰ
اور وسط ایشیا کے افسانوںی شہروں کی داستانیں۔
میں دنوں نہیں ’مہینوں مضطرب رہی۔
وسائل اور حالات کی کم مائیگی نے مجھے تڑپائے رکھا۔
اے کاش میں کرومبی کی سفری ساتھی بن
سکتی۔ مردان خانوں سے آگے زنان خانوں کے دروازوں کے بند پٹ دھڑ سے
کھول کر اندر جا گھستی ’اس زندگی کی جھلک دیکھتی اور اس پر لکھتی
کہ جس کے بغیر تہذیبی تاریخ ادھوری رہتی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر لکھنے
کے لئے میں گھروں کے بند دروازے کھول کر بہت اندر جا گھسی تھی۔
آج کا نقاد اگر سچائی کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوڑے تو کتاب میں تہذیبی خوشبو کے ساتھ ساتھ ایک کٹھن اور
ایڈونچر سے معمور سفر کی دستاویزی شہادت اسے ملے گی۔
ہاں مگر کل کا نقاد اس دور کی مخصوص
مہک اور سچائی کی زیادہ بہتر طریقے سے گواہی دے گا۔