|
باب: 2 میجی لن اور اسکا بیڑہ ۔ جلکوٹ اور جلکوٹیے شاہراہ ریشم اور اُس کا حسن و جمال اس وقت جب صبح کا نور زمین اور آسمان پر ایک ملکوتی سی بارش کر رہا تھا۔ میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ایک دوسرے سے جوڑے انہیں ناک کی پھنگی سے ٹکائے ’آنکھیں بند کئے اس سے راز و نیاز میں مصروف تھی جو مشرق و مغرب کا رب ہے۔ میری آنکھوں سے دو گرم گرم قطرے نکلے تھے اور انہوں نے ہاتھوں کی اندرونی جلد کو گرمی کا خفیف سا احساس دلایا تھا۔ میرے سر پر اس وقت اسلام آباد کے آسمان کی چھت تھی۔ میرے پیٹ میں اضطراب ’بے چینی اور اندیشوں کے گولے ادھر ادھر لڑھک رہے تھے۔ میں ابھی کل بچوںکے ساتھ اسلام آباد پہنچی تھی اور آج ایک بجے تن تنہا شمالی علاقوںکی سیاحت کے لئے روانہ ہو رہی تھی۔ قصہ کچھ یوں تھاہماری راجباڑی کے ایک حصے کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ ماشاء اللہ سے دیور ’دیورانیوں اور ان کے بچوں سے بھرا پرُا کنبہ جب تین کمروں میں بمعہ سامان کے سمٹا اور اکلوتے باتھ روم کے سامنے قطاریں لگ گئیں تب میں نے مسکینی سے کہا۔ تیرہ سال ہو گئے ہیں تمہارے پلے سے بندھے ہوئے۔ میری حالت تالاب میں ٹھہرے ہوئے کائی زدہ پانی جیسی ہے جو اب سڑاند مارنے لگا ہے۔ میکہ بھی کم بخت بالشت بھر کے فاصلے پر ہے۔ کہیں دور ہوتا تو چلو بندہ دس پندرہ دن ہی گزار آتا۔ توے پر پڑی کواسی روٹی بھی جل جاتی ہے اگر اسے پر تا نہ دیا جائے۔ مجھے اسلام آباد چھوٹی خالہ کے ہاں جانا ہے۔ مگر۔ ۔ ۔ میں نے اُسے لفظ ’’مگر‘‘ سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ میں جانتی تھی وہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ یہی کہ وہ میرے اور بچوں کے بغیر اداس ہو جائے گا۔ میرے سسرالی خاندان کے مردوںکا بیویوں کے بغیر ایک دن بھی گزارنا گویا قید بامشقت کی چکی پیسنا ہے۔ پر جہاں کہیں کوئی ملک عدم کی مسافر ہوئی۔ وہ دل کی مسند سے یوں اتری جیسے بدقسمت وزیر وزارتوں کی کرسیوں سے اترتے ہیں۔ بے چاری کا چہلم ابھی بیچ میں ہی اٹکا ہوتا ہے کہ نئی کو کھوجنے اور گھر لانے کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہو جاتی ہے۔ تین جولائی کو اسلام آباد پہنچی۔ بھاگ ڈور کرنے سے پتہ چلا کہ گلگت‘ ہنزہ بائی روڈ جانے کے لئے نیٹکو بس سروس سے سفر کرنا ہو گا۔ پہلی بس صبح چار بجے اور دوسری دن کے ڈیڑھ بجے روانہ ہوتی ہے۔ میرا پہلا پڑاو چلاس تھا۔ دوسری بس سے اگر سفر کیا جاتا تب پوپھٹے میں چلاس پہنچ جاتی۔ چھوٹی خالی بہت جزبز ہو رہی تھیں۔ کمبخت ابھی تو آئی ہو اور ابھی نئے محاذ پر نکل رہی ہو۔ وہ بھی تن تنہا‘ کوئی چھری تلے گردن آئی ہے تیری۔ کوئی بازو بیلنے میں آگیا ہے۔ میں ہنسی۔ بازو ہی تو بیلنے میں آ گیا ہے۔ ارے کیا کروں چھوٹی خالہ؟ ایک تو اس جذبہ حب الوطنی نے مار ڈالا۔ دوسرے خود نمائی اور منفرد بننے کے جذبات نچلا نہیں بیٹھنے دیتے۔ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات ہو رہی ہے۔ رہی بات تنہا گھومنے پھرنے کی۔ ان پڑھ والدین کا یہی فائدہ ہوا توہے مجھے کہ اپنی ذات پر اعتماد سیکھا۔ اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالی۔ سہارے ڈھونڈنے اور ان کی محتاجی سے نفرت کی۔ ارے پڑھے لکھے والدین تو عذاب ہوتے ہیں۔ اپنے تجربات میں سے بچوں کو گزرنے نہیں دیتے۔ پندو نصائح کے لٹھ ہر وقت ان کے چاروں طرف گھماتے رہتے ہیں اور بالاخر چڑیا گھر کے پنجروں میں بند شیروں جیسا بنا دیتے ہیں‘‘۔ چھوٹی خالہ! میں نے لمبا سانس بھرا۔ میں تو مار کو پولو کی سگی بھتیجی بننا چاہتی ہوں۔ واسکو ڈے گاما کی گدی نشین ہونا چاہتی ہوں۔ مجھے ہیون سانگ بننے کی آرزو ہے۔ میں تھامس جے کرومبی کے نقش قدم پر چلنے کی متمنی ہوں۔ جس نے سیاحت کو نئے رنگ اور نئے انداز دئیے۔ پر مجھے تو مار ڈالا اس کمبخت لڑ لگنے والے نے کہ جو کائل کے اچھلتے ناچتے شعلوں کی بجائے اس کی ٹھنڈی راکھ بن کر پڑا رہنا چاہتاہے‘‘۔ چھوٹی خالہ بٹر بٹر میرا منہ تکتی تھیں۔ کسی زمانے میں وہ پوری قانگو کی کھوپڑی تھیں۔ کیا مجال جو کسی کو بولنے دیں۔ پر تب جب آتش جوان تھا۔ چند لمحوں بعد انہوں نے پھر یہ کہنا ضروری سمجھا تھا۔ ’’ مجھے تو تمہاری تکلیف کا احساس ہے‘‘۔ارے آپ نہیں جانتیں اسے۔ بڑا من موجی بندہ ہے۔ بچوں کی ہڑک اٹھی تو پل نہیں لگائے گا ہواؤں کے دوش پر اڑتا پل جھپکتے میں میرے سر پر آکھڑا ہو گا اور ساتھ لے کر ہی ٹلے گا۔ میں تو شکر گزار ہوں مولا کی کہ اس کا ذہن سیمنٹ بجری اور سریا میں الجھا۔ گیارہ بجے میں نے بیگ میں ایک جوڑا کپڑوں کا’ ٹوٹھ پیسٹ’ دور بین اور تولیہ رکھا۔ ڈائری اور پین پنسلوں کا جائزہ لیا۔ ان مقامی لوگوں کے ایڈریس چیک کرنے کے بعد سنبھالے ’جن کے گھر مجھے مختلف جگہوں پر ٹہرنا تھا۔ پیسے دھیلے کو اندر کی جیب میں ٹھونسا۔ اس کی زپ مضبوطی سے بند کی۔ قیمہ بھرے پر اٹھوں کا لفافہ بھی رکھ لیا۔ اب ’’میجی لن‘‘ اپنے بیڑے کے ساتھ شمالی علاقوں کی سرزمین کے گرد چکر لگانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ بچے بڑے کمرے میں کھیل رہے تھے۔ میں ان کے کمرے میں نہیں گئی۔ میں نے ان کے منہ ماتھے بھی نہیں چومے اور نہ ہی انہیں خدا حافظ کہا۔ گو میرا دل ایسا کرنے پر تڑپا تھا۔ صدر روڈ سے سوزوکی میں بیٹھی تو وسوسوں اور اندیشوں کی قطاریں دماغ میں فلم کے ان شیدائیوں کی طرح لگ گئیں جو کسی سپرہٹ فلم کے ٹکٹ کے لئے سینما گھر کی کھڑکی کے سامنے ایک دوسرے کو دھکم پیل دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ کٹھن اور دشوار گزار راستوں اور جگہوں پر تن تنہا ’چوروں کی طرح جا رہی ہوں۔ کوئی ہرج مرج ہو گیا تو سسرال چھوڑ میکہ بھی بیچارے میاں کا طعنوں سے کلیجہ چھلنی کر دے گا۔ کسی کھڈ میں گر گرا گئی تو لاش کو کتے‘ بلیاں نوچتے‘ کھسوٹتے پھریں گے۔ بچے پیچھے چھوڑے جا رہی ہوں۔ خدانخواستہ کوئی حادثہ جنم لے لے تو بچوں سے والہانہ پیار کرنے والا میاں منڈیا مروڑ کر رکھ دے گا۔ پیرودھائی کے اڈے پر نیٹکو بس سروس سے چلاس کے لئے ٹکٹ کٹوانے لگی تو اونچے کاؤنٹر پر بیٹھے ٹکٹ بابو نے موٹے شیشوں کی عینک سے یوں گھُورا جیسے یا تو میں مفرور عورت ہوں یا پھر قتل ڈاکہ ڈال کر پہاڑوں کی گود میں پناہ لینے جا رہی ہوں۔ میں نے پل نہیں لگایا اور جانے کی غرض و غایت پر روشنی ڈال دی۔ چلو اتنا صرور ہوا کہ انداز دید میں تھوڑے سے احترام کے جذبات عود آئے اور یہ بھی محسوس ہواتھا کہ لہجے میں مٹھاس بھی گھل گئی ہے۔ نرمی اور ملائمت تھی لہجے میں جب کہا۔ دراصل یہ راستہ اتنا لمبا اور دشوار گزار ہے کہ مقامی عورتیں بھی بہت کم سفر کرتی ہیں۔ آپ اکیلی ہیں دعا کیجئے کوئی خاتون آجائے۔ میرا جی چاہا چیخ کر کہہ دوں کہ میرے ساتھ ہے ایک ساتھی ’جس کی حفاظت میں میں اپنے آپ کو سونپ کرچلی ہوں۔ مگر جانے کیوں چپکی ہو رہی۔ ظہر کی نمازوہیں ایک کمرے میں پڑھی اور دعا کی۔ پروردگار کوئی میرے جیسی جنونی غیر ملکی عورت ہی آجائے‘‘۔لمبی چوڑی دعائیں مانگنے کے بعد جب باہر نکلی تو پتہ چلا کہ ایک لاہوری جوڑا سیر سپاٹے کے لئے گلگت اور ہنزہ جا رہا ہے۔ میرا دل اس وقت گندو راج کے پھول کی طرح کھل اٹھا۔ لڑکی نام جس کا عروج تھا۔ مشہور افسانہ نگار ممتاز مفتی کی بھانجی تھی۔ جہاز کا ٹکٹ نہ ملنے کے باعث شاید قدرت نے انہیں میری ہمراہی کے لئے اس طرف دھکیل دیا تھا۔ ڈیڑھ بجے بس چلی۔ ٹیکسلا کی دوکانوں میں پتھر کی سجاوٹی اور خانہ داری سے متعلقہ اشیاء پر رنگین نقش و نگاری یوں بہار دکھلا رہی تھی جیسے کسی ریگستان میں کیکٹس کے پودے جلوے بکھیرتے ہیں۔ شاہراہ ہزارہ پر جگہ جگہ بنے پُل گاڑی کے پہیوں کے نیچے سے نکل نکل کر پیچھے بھاگتے رہے۔ جلد ہی ہند کو بولنے والوں کا ہریالی اور شادابی میں ڈوبا ہوا ہری پور کا شہر آیا۔ میرے سامنے والی نشست پر ایک نوجوان نے سگریٹ سلگایا۔ جلتی تیلی کو ہوا میں لہراتے ہوئے بجھایا اور بولا۔ اس شہر میں کپڑے کے چھوٹے بڑے پچاس کارخانے‘ پاور ٹرانسفارمر اور بجلی کے سوئچ بنانے کا سب سے بڑا کمپلیکس‘ ماچس سازی کے چھ کارخانے اور ملک بھر کا کاوا ساکی موٹر سائیکل کے پرزے جوڑ کر اسے بنانے کا کارخانہ ہے۔ ارے ایوب خان اس شہر کو بنا گیا ہے‘‘۔ میں نے ان معلومات پر حیران ہو کر جلدی سے رخ پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ سڑک کے کنارے غریب اور مفلوک الحال لوگ جگہ جگہ مکئی کے بھٹے کوئلوں پر بھون رہے تھے۔ گندے مندے کپڑوں میں دیہاتی مرد اور عورتیں مریل اور لاغر سے گھوڑوں میں جُتے تانگوں میں بیٹھے تھے۔ بے شمار کارخانوں کا مالک ایک صنعتی شہر۔ بھولی بھالی صورت والے ہوتے ہیں جلاّد بھی ہری پور کا پرانا نام گل ڈھیری تھا۔ پشین‘ بلوچستان سے آنے والے ترین قبیلے کے دور اقتدار میں کشمیر کے گورنر ہری سنگھ نلوہ نے اسے فتح کرنا چاہا پر ہزارہ پلکیا اور تربیلا کے مسلمانوں نے اسے شکست دی۔ لیکن جب رنجیت سنگھ نے گل ڈھیری پر قبضہ جما کر اسے ہری سنگھ کے حوالے کر دیا۔ تب اس نے اس کا نام ہری پور رکھا۔ اس نے یہاں ایک قلعہ بھی بنایا۔ قلعے کے چاروں طرف پانی سے لبا لب بھری خندق تھی۔ قلعہ میں آمدورفت کا واحد دروازہ لکڑی اور لوہے کا ایک پل تھا جو رات کے وقت اٹھا لیا جاتا تھا۔ یوں رات کو یہ ایک جزیرے کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ یہ قلعہ اب بھی موجود ہے۔ اس وقت میرا جی چاہا میں چھلانگ مار کر بس کے دروازے سے باہر کود جاؤں اور قلعہ دیکھ آؤں۔ پر افسوس تو یہ تھاکہ نہ تو میرے پاس سلیمانی ٹوپی تھی اور نہ جادو کا سرمہ جسے آنکھوں میں لگاکر اور ٹوپی پہن کر میں موجیں مارتی پھرتی۔ حویلیاں کا خوبصورت شہر گزر گیا۔ حویلیاں سے سولہ کلو میٹر آگے شاہراہ ریشم پر کیپٹن جیمز ایبٹ کے نام پر رکھا گیا ایبٹ آباد شہر سرسبز ٹہنیوں پر کھلے گلاب کی طرح ہنستا تھا۔ یہ چوک فوارہ’ گلیات’ کوہستان ’گلگت ’کشمیر و کاغان کی وادیوں کا صدر دروازہے۔ ایبٹ آباد ائیرمارشل اصغر خان کا شہر ہے۔ شاید اسی لئے اس شہر کے درو دیوار پر نعروں کا انداز بہت تیکھا اور شوخ ہے۔ سطح سمندر سے ۶۲۲۸ فٹ بلند یہاں کا مشہور پہاڑ کوہ سربن ایک ادبی حیثیت بھی رکھتا ہے کہ شاعر مشرق نے بانگ درا میں اسے مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے۔ اٹھی پھر آج وہ یورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سر بن کا کوہ سربن کے عین نیچے ’’رش‘‘ کا خوبصورت میدان ہے جس کے سرسبز سینے پر مکان یوں لشکارے مارتے ہیں جیسے سبز قمیص کے دامن پر رنگارنگ دھاگوں کی کشیدہ کاری۔ ایبٹ آباد سے پندرہ میل کے فاصلے پر مانسہرہ ہے جو مان سنگھ نامی ایک ہندو کے نام پر ہے۔ اس کی تین تحصیلیں مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ بالا کوٹ اور چوتھی متوقع تحصیل اوگی ہے۔ یہاں مہاتما بدھ اور اشوک کے زمانے کی تحریریں کندہ ہیں۔ میں کھڑکی سے گردن باہر نکالے تیزی سے گزرتے خاکی’ دوراہا ’گاندھیاں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اپنی نظروں میں سمونے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے دوربین بیگ سے نکالی اور آنکھوں سے لگا لی۔ پکھلی کی حسین اور سرسبز وادی دیکھ کر میری آنکھیں پھٹنے کی حد تک پھیل گئی تھیں۔ کونش کا پر بہار خطہ یوں لگتا تھا۔ جیسے جنت کے نظارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ ڈوڈیال اور شنکیاری دونوں اہمیت کی جگہیں ہیں۔ ڈوڈیال میں مینٹل ہسپتال ہے۔ اور شنکیاری نہ صرف فوجی چھاؤنی ہے بلکہ اہل قلم کا مرکز بھی ہے۔ یہاں سڑک کے کنارے ایک بوڑھا آدمی توے پر روٹیاں پکا رہا تھا جانے اپنے لئے ’اپنے بچوں کے لئے یا مسافروں کے لئے۔ اس کی گرم گرم روٹیوں نے مجھے بھوک کا احساس دلایا۔ ڈاڈر کا گاؤں آیا۔ میں چونکی۔ میری ایک دوست ٹی بی کی مریض بن کر یہاں آئی تھی اور اس ٹی بی کے خوبصورت ہسپتال کے ایک کمرے میں دم توڑ گئی تھی۔ ڈاڈر کا نام سالوں میرے ذہن پر تھرکتا رہا۔ اچھڑیاں‘ کوٹلی‘ قاضی آباد‘ آہل اور بٹل کے گاؤں گزرتے گئے۔ بٹل میں پہاڑوں کی رنگت کیسری تھی۔ بائیں ہاتھ گھاٹیوں میں اندھیرا تھا۔ دائیں ہاتھ کوہستان بٹل کے گھنے جنگلات دیودار’ چیڑ اور پلار کے بلند و بالا درختوں کی چوٹیاں جو سورج کی سونا بکھیرتی کرنوں سے لدی پھندی تھیں۔ چھترپلین کی وادی کافی اونچائی پر ہے۔ برف باری خوب ہوتی ہے۔ بٹ گرام میں دھوپ قدرے پھیکی پڑ گئی تھی۔ اس وادی کے نظارے مجھے کسی عاشق کی طرح آنکھوں سے اشارے کرتے تھے کہ کہاں جاتی ہو؟ اتر آؤ نا یہاں ہمارے پاس۔ بٹ گرام تحصیل کا صدر مقام بھی ہے اسی لیئیبیشتر دفاتر یہاں ہیں۔ پشتو اکثریت کی زبان ہے۔ ڈگری کالج بھی بن رہا ہے۔ دریائے سندھ موجیں مارتا رواں دواں تھا۔ سڑک کبھی پیچ کھاتی کسی پہاڑ کے سر پر جا پہنچتی اور کبھی بل کھاتی ہوئی نشیبی وادیوں میں آگے بڑھتی۔ بٹ گرام سے صرف گیارہ میل کے فاصلے پر تھاکوٹ کا عظیم الشان پل جو دنیا میں اپنی نوعیت کا تیسرا پل سمجھا جاتاہے اب میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ یہاں گاڑی رُک گئی تھی۔ میں ’عروج اور اس کا میاں زمان اس پل کو دیکھنے کے لئے یوں گاڑی سے نکل کر بھاگے جیسے گاؤں کی دلہن کے ڈولے پر پھینکے جانے والے سکوں کو لوُٹنے کے لئے بچے بھاگتے ہیں۔ فنی کاریگری کا منہ بولتا یہ پل دس ماہ کی قلیل مدت میں تیار ہوا تھا۔ دریائے سندھ کی چنگھاڑوں سے دل دہلا جاتا تھا پر پل کی جوانی اور اٹھان بھی غضب کی اثر انگیز تھی۔ ایک مقامی بوڑھا آدمی میرے پاس آکر رُک گیا۔ میری آنکھوں سے چھلکتی وارفتگی محسوس کرتے ہوئے بولا۔ وہ بڑا گرم دن تھا جس دن سڑک کا افتتاح ہوا۔ پاکستان کے صدر فوجیوں اور افسروںکے ساتھ یہاں آئے تھے۔ ڈھیر سارے چینی بھی تھے۔ اس دن میلے کا سا سماں تھا۔ میر اپوتا پیدا ہوا تھا اس دن‘‘۔ مجھے ہنسی آئی۔ یادداشت کی کڑیوں میں کیسی مماثلت تھی۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر ۷ جنوری ۱۹۵۹ء میں شروع ہوئی اور بیس سال میں چوبیس ہزار پاکستانی اور چینی جوانوں کی مشترکہ کاوشوں سے تکمیل کو پہنچی۔ ۱۸ جون ۱۹۷۸ء کو صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کا افتتاح تھاکوٹ پل پر کیا۔ چین کی نمائندگی نائب وزیراعظم کنگ پیاؤ نے کی۔ اس پل پر سے ۷۰ ٹن وزن گزارا جا سکتا ہے۔ میں ڈائری میں تفصیلات کو نوٹ کرنے میں جتی ہوئی تھی اور ڈرائیور ہارن پر ہارن دئیے جا رہا تھا۔ عروج چیخی اللہ کی بندی بس کر اب ’وگرنہ چھوڑ جائے گا تمہیں یہاں۔ پھر دیدار کرتی رہنا ساری رات بیٹھ کر اس کا‘‘۔ ہم دونوں بھاگیں۔تھاکوٹ سے ذرا آگے دلائی اور اس سے آگے بشام۔ یہاں پہنچ کر گاڑی بھی رک گئی اور رات بھی اتر آئی۔ یہاں سے سوات نزدیک ہے۔ نو عمر لڑکے سوات جانے والی گاڑیوں پر سوات سوات کا شور مچا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے ہوٹل تھے۔ چائے پکتی اور روٹیاں دھڑا دھڑ لگتی تھیں۔ میلے کچلے کپڑوں میں حسین صورت لڑکے مسافروں کے آگے سالن کی پلیٹیں اور روٹیاں رکھتے تھے۔ ہوٹلوں کے عقب میں دریائے سندھ کی موجوں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ ایک بار نہیں ’دو بار نہیں ’دس بار بھی نہیں ’یقینا دس ہزار بار میں نے خدا شکر ادا کیا ہو گا کہ اس نے میری رفاقت کے لئے ایک عورت بھیج دی۔ لمبی چوڑی گاڑی میں ہم دو کے سوا تیسری کوئی آدھی عورت بھی نہ تھی۔ بشام کے جس ہوٹل میں ہم نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ وہاں باتھ روم اللہ کی بنائی ہوئی کھلی زمین پر تھا۔ گو کہنے کو تاریکی تھی پر کہیں کہیں چمکتی سفیدیاں یہ بتاتی تھیں کہ خیر سے یہاں فراغت کے چھوٹے بڑے مرحلے طے ہو رہے ہیں۔ میں نے چادر کی دیوار بنائی۔ عروج اس کے زیر سایہ بیٹھی۔ پھر وہی کام عروج نے کیا اور میں نے فائدہ اٹھایا۔کھانے کی چھوٹی سی میز پورم پور گندگی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کرسیاں بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اب خود بوجھ بنی پڑی تھیں۔ چھت کے پنکھے نے چلنے کی تہمت کا بار مفت میں اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ کمرے کا ایک چھوٹا سا ٹوٹہ بھی اس کا زیر احسان نہ تھا۔ میں نے قیمہ بھرے پر اٹھے نکالے۔ عروج نے ماش کی دال اور گرم گرم تنوری روٹیاں منگوالیں۔ اللہ جانے ماش کی دال پکانے کے نسخے ان ٹال ہوٹل والوں کے پاس کہاں سے آگئے ہیں۔ گھر گر ہستن عورتیں بھی انگلیاں چاٹتی رہ جاتی ہیں۔ ابھی چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا ہی تھا کہ چلو چلو کا شور مچ گیا۔ کنڈیکٹر نے تین چکر لگائے اور ہارن نے یوں چیخنا چنگھاڑنا شروع کر دیا جیسے خدانخواستہ ائیرریڈ ہو گیا ہے۔ باہر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ مجھے حسرت ہوئی کہ اے کاش چاندی رات ہوتی۔ کہیں کہیں جگنو سے ٹمٹماتے تھے جو یہ بتاتے تھے کہ یہاں وادیاں ہیں اور گھروں میں بتیاں روشن ہیں۔ ابھی صرف ۲۲۰ میل کا سفر طے ہوا تھا۔ میرے سامنے والی نشست پر بیٹھا وہی نوجوان اٹھا۔ میرے پاس آیا اور بولا مجھے ذوالفقار کہتے ہیں۔ آہ میرا تخلص ہے۔ داسو میں متعین ہوں۔ آپ کیا کِسی اخبار سے ہیں؟ارے کہاں بھائی مجھے تو آوارہ گردی کا جنون اڑائے پھرتا ہے‘‘۔ اُس نوجوان کی جوانی ان علاقوں میں گزر رہی تھی۔ پولیس میں ہونے کے باوجود ادب سے دلچسپی رکھتا تھا‘ تاریخ اس کے گھر کی لونڈی تھی۔ یہاں کا چپہ چپہ اس کے قدموں تلے روندا ہوا تھا۔اُس نے سگریٹ سلگایا۔ تیلی کو ایک بار پھر اسی انداز میں فضا میں لہرایا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ شاہراہ ریشم کا وہ حصہ جو بشام سے سازین تک ہے۔ قدرت کے حسین مناظر سے پر ہے۔ بشام سے ہربن تک دریائے سندھ کے دونوں جانب واقع علاقے کوہستانی کہلاتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل جب سکندر اعظم نے ٹیکسلا فتح کیا تو یہ علاقہ ٹیکسلا کا ایک حصہ تھا۔ چندر گپت اشوک اور را جہ رسالو نے مدتوں اس علاقہ پر حکومت کی۔ تیمور نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس علاقے کو ترکوں کے سپرد کر دیا۔ اسلامی حکومت کی بنیاد تبھی رکھی گئی۔ اس وقت یہ علاقہ ولایت پکھی کہلاتا تھا۔ ترکوں کے زوال کے بعد درانی غالب آگئے۔ بعد میں نا اتفاقیوں کی وجہ سے ہزارہ پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ لیکن کوہستان کا علاقہ ان کے قبضے سے آزاد رہا۔ انگریزی دور میں بھی اس علاقے نے اپنی آزادی برقرار رکھی۔ آزادی پاکستان کے بعد پاکستان میں شامل ہو گیا۔ یکم اکتوبر ۱۹۷۶ء کو اسے کا ضلع درجہ دیا گیا۔یہاں کے لوگ دلیر اور جری ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کے لوگوں کی اکثریت شین ذات پر مشتمل ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ رسم و رواج عادات و اطوار اور آداب و معاشرت میں یک رنگی کے باوجود زبانیں اس قدر مختلف ہیں کہ ایک دوسرے کی زبان نہ بول سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ ان شنیوں کا تعلق عرب قریش سے بتایا جاتا ہے جو سقوط سندھ کے بعد ہندؤں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر قبائلی علاقوں میں آئے اور پھر کوہستانی علاقوں میں پھیل گئے۔ پشتو دونوں طرف کے لوگوں کے رابطے کی زبان ہے۔ ایک دلچسپ بات آپ کی اطلاع کے لئے اس نے سگریٹ کا زوردار سوٹا لگایا۔ نتھنوں سے دھواں خارج کیا اور پھر بولا۔ سندھ کے آرپار رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ نہیں کرتے۔ مغربی جانب کے لوگ مشرقی جانب کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور دینی ہیں۔ دین کے بڑے بڑے جید علماء نے یہاں جنم لیا ہے۔ لوگ خوبصورت اور دراز قامت ہیں۔ ذہین اور معاملہ فہم ہیں۔ ہاں یاد رکھیئے جلکوٹ کبھی مت جائیں۔ جلکوٹ کے باشندے بہت سنگ دل اور سفاک ہیں۔ کسی کو قتل کرانا یا کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے۔ جب کوئی مسافر ان کے گاؤں سے گزرے تو اسے لوٹے بغیر نہیں چھوڑتے۔ ایک معمولی ٹوپی کی خاطر بھی قتل کر دیتے ہیں۔ قتل کرنے کے بعد مینار جیسے تین منزلہ مکان میں قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔ یہ مکان گھڑی کہلاتا ہے۔ ویسے ایک قابل ذکر بات ہے۔ اس نے غالباً خوف کی پرچھائیں میرے چہرے پر رینگتی ہوئی محسوس کر لی تھیں۔ بچوں اور عورتوں پر یہ لوگ ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ میں نے اپنے کانوں کو چُھوا۔ چھوٹی چھوٹی چار ماشے کی مرکیاں میں اتار آئی تھی۔ ننگے بچھے ہاتھ ’کان میرے پاس تھا کیا؟ پھر بھی مجھے جھرجھری سی آگئی۔ نوجوان بولتے بولتے ابھی تھکا نہیں تھا۔ یوں اب دریا کا مشرقی علاقہ ضلع ہزارہ اور مغربی حصہ ضلع سوات کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ قانون کا مکمل نفاذ عمل میں لایا گیا ہے اور علاقے میں قتل و غارت کی گرم بازاری میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔ پچھلی نشست پر کوئی گھٹیا برانڈ کا سگریٹ پی رہا تھا۔ دھوئیں کے مرغولے بھک بھک کرتے اس کے منہ سے نکل کر فضا میں گھٹیا اور ناگوار بو پھیلا رہے تھے۔ عروج ناک سکوڑتے ہوئے اس کی طرف یوں دیکھتی تھی جیسے اسے گردن سے پکڑ کر کھڑکی کے راستے سالم باہر پھینک دینا چاہتی ہو۔ وہ میری تاریخ دانی سے بھی عاجز نظر آرہی تھی۔ میرا اپنا دل بھی حمل کے کچے دنوں کی طرح متلانے لگا تھا۔ میں نے کھڑکی کا پورا شیشہ کھول دیا۔ بلند و بالا پہاڑوں کی صورت پر ہیبت جنوں اور دیوؤں کی سی نظر آتی تھی۔ وادیوں کا سارا حسن تاریکی نگلے بیٹھی تھی۔ نوجوان نے اپنا رخ سیدھا کر لیا تھا۔ وہ اب آنکھیں بند کئے غالباً سونے کی کوشش میں تھا۔ گاڑی کے سارے مسافروں کی گردنیں دائیں‘ بائیں جھولتی تھیں۔ عروج بھی اپنے میاں کے شانے پر سر رکھے آنکھیں موندھے ہوئے تھی۔ میاں بھی اونگھ رہا تھا۔ بھری گاڑی میں غالباً میں واحد مسافر تھی جو کیل کی طرح سیٹ میں گڑی ہوئی تھی۔ میرے سارے سریر میں خوف اور دہشت یوں جذب ہو رہی تھی جیسے ریگستانی سیگار و پانی اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ تیسرا کلمہ میری زبان پر تھا۔ ہر پندرہ منٹ بعد میں خود اللہ کے حضور کسی مظلوم کی طرح کھڑا کر دیتی۔ بھلا جیسی بھی جنونی اور احمق ہوں پر ہوں تو تیری بندی۔ ‘‘بس اب تیز رفتاری سے پٹن کی طرف رواں دواں تھی۔ بشام سے چھبیس میل آگے پٹن اور تقریباً چورانوے میل چلاس۔ میرے سفر کی پہلی منزل۔ میں خوف اور اندیشوں کی گھمن گھریوں میں الجھی ہوئی تھی۔ کیونکہ بس کو رات کے تین یا ساڑھے تین بجے وہاں پہنچ جانا تھا۔ رات کی تاریکی ۔ انجان جگہ‘ شہر سڑک سے ڈیرھ دو میل کی بلندی پر۔ پروردگار میں اوکھلی سردے بیٹھی ہوں۔ موسلوں سے بچانا اب تیرا کام ہے‘‘۔ پیرودہائی اڈے پر مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ بس پوپھٹے چلاس پہنچے گی۔ لیکن ڈرائیور کی بیٹی کے ہاں گلگت میں بارہ سال بعد بچے کی ولادت ہوئی تھی اور وہ اُ سے دیکھنے کی خوشی میں ایکسیلیٹر کومعمول سے زیادہ دبائے جا رہا تھا اور مجھ جیسی پردیسن کا پٹڑا ہوا جاتا تھا۔ یقینا دعا قبول ہو گئی تھی کیونکہ جسم کا ہرمواس کے حضور تنا کھڑا تھا۔ کو میلا میں گاڑی خراب ہو گئی۔ مسافروں کو نیچے اتار دیا گیا۔ میں اور عروج بند دوکانوں کے سامنے پڑے بینچوں پر بیٹھ گئیں۔ رات نہ صرف سیاہ تھی بلکہ ڈراؤنی بھی تھی۔ ہم سے کچھ فاصلے پر پولیس کا سپاہی بیٹھا ڈنڈے سے کھیل رہا تھا۔ میں نے اس سے مزید معلومات حاصل کرنی چاہیں۔ یہاں بچے بچیوں کی تعلیمی حالت کیسی ہے؟ ‘‘صفر ‘‘اس کے لہجے میں رکھائی بھی تھی اور رعونت بھیگورنمنٹ یہاں ہر بچے کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیں۔ انہیں بھیڑ بکریاں چرانے سے فرصت ملے تب پڑھیں گے نا۔ اور ہاں لڑکیوں کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے اپنی تاریخ دانی کی کتاب کو بستے میں باندھ دیا۔ کیونکہ اس کے پھڑپھڑاتے صفحے مجھے کچھ نہ کچھ جاننے پر اکساتے تھے اور پاس بیٹھا مقامی آدمی بڑا روایتی جان پڑتا تھا۔ اس کے ہاں عورت کو سوال جواب کی اجازت نہیں تھی۔ گاڑی کی مرمت میں ڈھائی گھنٹے لگے۔ پانی باغ‘ لٹر‘ شتیال اور بشہ نالہ تاریکی میں ہی گزر گئے۔ دیوقامت ننگے بچھے پہاڑوں کی چوٹیاں سپید نظر آنے لگی تھیں۔ اس سپیدی کو دیکھ کر میرا دل ایسی طمانیت سے سرشار ہوا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ چلاس اب زیادہ دور نہیں تھا۔ تھور نالہ سے صرف اٹھارہ میل کا فاصلہ تھا اور تھور نالہ پل جھپکتے میں آیا چاہتا تھا۔ میں بار بار گھڑی کو دیکھتی تھی۔ بالاخر ڈرائیور سے کہہ بیٹھی ۔ اگر آپ جلدی کریں تو مجھے چلاس میں صبح کی نماز مل سکتی ہے‘‘۔ اس اللہ کے بندے نے فوراً گاڑی ایک نالے کے پاس روک دی۔ ہوائیں گرم اور تیز تھیں۔ نالے کا پانی ٹھنڈا اور شفاف تھا۔ وضو کیا اور دور جا کر ٹیلے کے پیچھے نماز ادا کی۔ حقیقتاً سرور اور سپردگی کی ایسی کیفیت نماز میں پہلے کبھی نہ آئی تھی۔میرا پہلاپڑاؤ چلاس تھا۔ میرے چھوٹے چچا ایک طویل عرصہ یہاں ملازمت کے سلسلے میں رہے تھے اور یہاں کے مقامی لوگوں کے نام ان کے خط میر ے پاس تھے۔ چلاس کے چاندنی ہوٹل کے سامنے گاڑی رکی۔ سب مسافر بھی چائے پانی کے لئے اتر گئے۔ عروج سے میں نے ان کے گلگت میں قیام کا پتہ پوچھا۔ ہنستے ہوئے بولی۔ ’ یار کسی سستے سے ہوٹل میں تلاش کرلینا۔‘‘
|