|
میرا گلگت و ہنز ہباب:3 چلاس : دیامر کا ایک اہم شہرنانگا پربت کے جلوے۔ چلاس قلعہ۔ جدوجہد آزادی گل جان اور اس کا محبوبلوگوں کی بات نہیں پر میری ضرور ہے کہ زندگی میں بہت سی تشنہ آرزوئیں اور ادھوری خواہشیں ایسی بھی رہیں جن کی گھمن گھیریوں میں غوطے کھاتے اور الجھتے ان کے پورا ہونے کا تصور ہمیشہ محال نظر آیا۔ خدا غریق رحمت کرے جناب فضل کریم فضلی کو اور عمر دراز دے قرۃ العین حیدر کو کہ اول الذکر نے نہایت تفصیلاً اور موخرالذکر نے قدرے مختصر کنچن چنگا کے حسن و جمال کے نقشے یوں کھینچے ہیں کہانہیں پڑھ پڑھ کر میں نے بے اختیار نیلی چھت والے سے گلہ کیا۔واہ مولا مجبور و بے بس اشرف المخلوق بنا کر احسان کا ٹوکرہ سر پر دھر دیا ہے۔ مرغ زریں ہی بنا دیتا کہ تیرے جلوے تو دیکھتا‘‘۔چلاس کا شہر شاہراہ ریشم سے خاصی بلندی پر ہے۔ چاندنی ہوٹل میں جب مسافر ناشتہ کر رہے تھے میں نے ہوٹل والے سے بات کی جس نے ایک نو عمر لڑکے کو جگایا جو کرائے پر سوزوکی چلاتا تھا۔ بیس روپے کے عوض وہ مجھے لے جانے پر آمادہ ہوا۔سوزوکی نے رخ پھیرا۔ ذرا فاصلے پر شنگریلا تھا۔ ائرمارشل اصغر خان کے چھوٹے بھائی بریگیڈئراسلم کا شنگریلا ہوٹل۔ شمالی علاقہ جات میں ان مہنگے شنگریلا ہوٹلوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔ خاص طور پر شنگریلا بلتستان نے۔دفعتاً میں نے اپنے دائیں ہاتھ دیکھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کنچن چنگا سورج کی اولین کرنوں میں ہنستی ہو اور کہتی ہو کہ خواہشیں اور آرزوئیں اگر سچی طلب رکھتی ہیں تو کسی نہ کسی روپ میں ضرور پوری ہوتی ہیں۔میں نے ڈرائیور لڑکے کی طرف دیکھا۔اس نے میری آنکھوں سے چھلکتے سوال کا مفہوم سمجھا اور بولا۔یہ نانگا پریت ہے۔ استور اور چلاس کا درمیانی پہاڑ۔ دنیا کی چھٹی اونچی چوٹی جس کی بلندی ۸۱۲۶ میٹر ہے‘‘۔ میں سوزوکی سے نیچے اتر آئی تھی۔ڈرائیور لڑکا بولے جا رہا تھا۔ میرے کان بند ہو گئے تھے۔ ہونٹ سل گئے تھے۔ آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ اس وقت چلاس کے پہاڑوں سے ٹکرا کر جو ہوائیں لوٹتی تھیں وہ تیز بھی تھیں اور گرم بھی۔ نانگا پربت کی برف کے پیرہن پہنے چوٹیاں جن پر سورج کی طلائی کرنیں کیسے کیسے دلفریب نقش و نگار بنا رہی تھیں۔ مجھ پر جذب کی گہری کیفیت طاری تھی۔ جی چاہتا تھا وجود کی قید سے آزاد ہو کر ان کے سینے پر چڑھ دوڑوں۔ حسن فطرت کی شراب اس فیاضی سے بہہ رہی تھی کہ میری آنکھیں پی پی کر سیراب ہونے کی بجائے مزید پیاسی ہو رہی تھیں۔ ڈرائیور چھو کرہ پاس آکر بولا ا ب چلئے نا۔ میں نے واپس بھی آنا ہے‘‘۔میں نے نگاہوں کا رخ پھیرا۔ آسمان کی نیلی وسعتوں سے زمین کی خاکستری پنہائیوں میں آئی سونیوال کوٹ کی بستی شاہ بلوط کے جھومتے سبز درختوں کے درمیان کھڑی تھی۔ دور بین کی آنکھیں مجھے چھوٹی چھوٹی تفصیلات سنانے لگی تھیں۔ مثلاً گھروں کے آنگن سونے تھے۔ خاصی گنجان وادی تھی‘ پر زندگی کی جیتی جاگتی علامت دھواں تین چار گھروںکے سوا کہیں سے نہیں اٹھ رہا تھا۔ ڈھور ڈنگر بھی نظر نہیں آتے تھے اور انسان بھی کم وبیش نظروں کی زد سے باہر تھے۔ چند بوڑھوں نے ضرور اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ گلیوں اور گھروں میں اچھلتے ناچتے بچوں کی عدم موجودگی تشویشناک تھی۔میں نے خود سے کہا تھا۔ ’’ملک میں امن و امان کی صورت حال اطمینان بخش ہے۔ لہٰذا میرے خیال کے مطابق مردوں کے لام پر جانے اور عورتوں اور بچوں کے ادھر ادھر ہونے کا بھی کوئی سوال نہیں۔ ‘‘میں نے لڑکے سے اس ویرانی کا سبب پوچھا۔پتہ چلا کہ چلاس چونکہ سارے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گرم ہے۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی یہاں کے لوگ ٹھنڈی جگہوںپر چلے جاتے ہیں۔ یہ بستی جواب شاہین آباد کہلاتی ہے۔ موسم گرما کے آغاز میں ہی گئی داس اور نیاٹ کے نالوںمیں چلی گئی ہے۔ بات سمجھ میں آجائے تو سر کا ہلنا فطری امرہے۔میں بھی ہلتے سر کے ساتھ آکر سوزوکی میں بیٹھ گئی۔لڑکے نے سوزوکی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔نانگا پربت کو مقامی لوگ دیامر کہتے ہیں۔ ہماری زبان میں اس کے معنی ہیں پریوں کے رہنے کی جگہ۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر پریاں رہتی ہیں۔ اب لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سب غلط باتیں ہیں۔میں نے نانگا پربت کے حسن کو پھر دیکھا اور لڑکے سے کہا۔ارے غلط کیوں ہیں؟ حسن و رعنائی کے خیالی یا حقیقی پیکر ایسی دل آویز جگہوں پر نہ رہیں گے تو کیا پنڈی بھٹیاں کے چک نمبر ۸۸ کی روڑیوں پر ڈیرے ڈالیں گے‘‘۔لڑکا کھلکھلا کر ہنسا۔ بات شاید اس کے دل کو لگی تھی۔میرے سامنے بٹوگاہ کے کنارے واقع ایک اور آبادی تھی۔ چلاس بازار تھورا سا اونچائی پر ہے۔ بٹوگاہ چلاس کا مشہور نالہ ہے۔ چلاس کے اکثریتی قبیلے بٹو کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ اکثریت شین ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تاریخ کی قدیم ترین بستی ہے۔ بٹو کوٹ کی بستی بھی ویران نظر آرہی تھی۔ لڑکا بتا رہا تھا کہ بیشتر لوگ اس مال مویشیوں کے ساتھ بٹوگاہ کی چراگاہوں میں چلے گئے ہیں۔ وہاں مکئی کی فصل کاٹ کر اکتوبر میں واپس آئیں گے۔ اللہ۔ اب میں اس ساری جان سے لرزی تھی۔ یہاں تو بستیاں ویران پڑی ہیں۔ جن کی مہمان بننے جاری ہوں وہ بھی اگر ٹھنڈی ہواہیں کھانے اپنے گرمائی مستقر گئے ہوئے ہوں تو میرا کیا بنے گا؟ بہرحال دل کو سمجھایا کہ اب گھبرانا کیسا؟ اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈر؟ چلاس کا بازار آیا۔ اونچے اونچے موڑ آئے۔ ٹیڑھی میڑی گلیاں۔ چھوٹی سی عمر کا لڑکا کس مہارت سے گاڑی چلاتا تھا۔ ہر موڑ پر میرا دل ڈوب جاتا کہ بس اب گاڑی الٹی کہ الٹی لیکن خیریت رہی اور ہسپتال روڈ کے عین مقابل ایک کھلے سے میدان میں اس نے مجھے اتارتے ہوئے کہا۔ لیجئے وہ سامنے آپ کے میزبانوں کا گھر ہے۔ ‘‘] ابھی میں نے زمین پر قدم رکھ کرچلاس کی ہوا کا ناک کے نتھنوں سے ایک زور دار کش لیا ہی تھا کہ میرے دائیں بائیں بچوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ چمکتے دمکتے چہروں والی چھوٹی چھوٹی بچیاں جنہوں نے ایرانی جرسی کے سبز اور سرخ پھولوں والے میلے کچیلے سوٹ پہن رکھے تھے۔ اوڑھنیاں سروں پر تھیں اور بالوں کا رنگ واضح نہیں ہو رہا تھا۔ سرخ و سفید چہروں پر زکام کے پیلے لیس دار مادے سے لتھڑی ناکوں والے لڑکے جن کے نقش و نگار ان خدوخال سے مختلف تھے جن کے بارے میں میں نے پڑھا اور سنا تھا۔اپنے اردگرد اس پر رونق میلے کو دیکھ کر مجھے خوشی کا احساس ہوا تھا۔ دل کو ڈھارس بندھی کہ چلو کچھ لوگ تو ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ بہت سے سرکاری ملازمین اور کاروباری گھرانے ابھی یہیں ہیں۔ تبھی میرے میزبان آنکھوں میں حیرت و استعجاب کے رنگ لئے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے ڈاکٹر ناموس کی کتاب کا ایک خالص شین چہرہ کتابی صفحات سے نکل کر میرے سامنے آگیا ہو۔ چھ فٹی قامت ’کھڑی ناک پر ذرا عمودی ’موٹی آنکھوں کی رنگت اودے اور نیلے رنگ کے بین بین‘ رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں لیکن گال پچکے ہوئے۔ چہرہ سرخ و سفید اور باریش۔ انہیں شاید کسی نے اطلاع دے دی تھی۔ میں نے اپنا تعارف اپنے چچا کے حوالے سے کروایا۔ بہت خوش ہوئے۔ ان کے پیچھے پیچھے چلتی گھر میں داخل ہوئی۔ گزرگاہ کے ساتھ مردانہ بیٹھک جس کا دروزہ صاحب خانہ نے کھولا تو لکڑی کی چھت کھڑکیوں اور دروازوںکے ساتھ فرش بھی چوبی نظر آیا۔ چلاس کی وادیاں داریل اور تانگیر جنگلات کا گھر ہیں۔ مکان میں لکڑی کا استعمال فراخدلی سے ہوتا ہے۔ نشست گاہ آنگن سے تین زینے نیچی تھی۔ صحن کے ایک طرف بادام کا درخت کچے پھل کے ساتھ پر پھیلائے کھڑا تھا۔ دوسری طرف کائل کی لکڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ آنگن سے ذرا اونچا برآمدہ اور آگے دو کمرے جن پر کسی اجڑی بیوہ کا گمان پڑتا تھا۔ ہاں البتہ دیواروں پر لٹکتی بیش قیمت بندوقیں چلاسی لوگوں کی جنگویانہ ذہنیت کی عکاس تھیں۔ بلوری آنکھوں والی خاتون خانہ بیٹی جنے بیٹھی تھی۔ پتہ چلا کہ گھر والوں نے تو بابو سر چلے جانا تھا بس اس زچگی نے روک دیا۔ اب کل پرسوں کی تیاری تھی۔ میں نے دل میں کہا: ’’چلو شکر ہے۔ لڑکی بھاگوان ہے’ وگرنہ میں کہاں خجل خوارہوتی‘‘ ۔ گھر پرخوشحالی اور رزق کی فراوانی تھی۔ پر صفائی ستھرائی اور سلیقہ جیسی خوبیوںکی تنگی تھی۔ چودہ سالہ جوان بیٹی گلاب کا مہکتا پھول تھی جس کی مسحور کن خوشبو نے اندر باہر کے سارے گند پر ایک پردہ سا ڈال دیا تھا۔ چائے سے فارغ ہو کر میں نے چارپائی کی پٹی سے نیچے لٹکتی ٹانگوں کو اوپر کیا۔ دیوار سے ٹیک لگائی اور اپنے میزبان کی طرف دیکھا جو مقامی ٹوپی سر سے اتارے اپنے خشخشی بالوں میں انگلیاں چلا رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں تھوڑا سا آرام کر لوں۔ مجھے آرام کی ضرورت نہیں تھی۔ میں ان سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ شہر کے مضافات میں گھومنے کی متمنی تھی۔ وقت کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھانا میرا منتہائے مقصود تھا۔ میں جو گھر میں تھوڑا سا کام کرنے کے بعد ہمیشہ شکست خوردہ کھلاڑی کی طرف ہانپ کر بیٹھ جاتی تھی۔ اب اٹھارہ گھنٹے کے طویل اور صبر آزما سفر کے بعد بھی راج پری پیکر کی طرح صعوبتوں کے اکھاڑے میں کودنے اور شہ زوری دکھانے کے لئے تازہ دم تھی۔ صاحب خانہ نے اپنی پٹولہ سی حسین بیوی پر ایک نظر ڈالی۔ پھر نگاہوں کا رخ میری سمت کیا اور بولے۔ آپ کو یقینا یہ تو پتہ چل گیا ہو گا کہ شنا یہاں کے اکثریتی لوگوں کی زبان ہے۔ شنا بولنے والے لوگ دراصل دار دیا دُرد ہیں اور نسلاً آریائی ہیں۔ آریا قوم دس پندرہ صدی قبل از مسیح وادی سندھ میں فاتح بن کر آئی۔ انہوں نے ’’جلکوٹ اور گور‘‘ کے درمیانی علاقے میں رہنا شروع کیا۔ ان کا وہ گروہ جو اپنے طور طریقوں ’رسم و رواج پر قائم رہا ’’شین‘‘ کہلایا۔ لیکن وہ لوگ جو اردگرد پھیل گئے اور جنہوں نے مقامی لوگوں سے شادیاں کیں۔ اپنا رنگ انہیں دیا اور کچھ ان کا رنگ خود لیا۔ یشکن بنے۔ کمی اور ڈوم کمتر ذاتیں ہیں۔ شین اس علاقے کی سب سے اونچی اور ممتاز قوم ہے۔ ہم دونوں شین ہیں۔ ] انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور آنکھوں سے بیوی کی طرف اشارہ کیا۔صاحب خانہ نے آخری جملہ گو دھیمے انداز میں کہا تھا لیکن اس میں تفاخر کی جو لہریں موجیں مار رہی تھیں۔ وہ مجھ سے چھپی نہ رہی تھیں۔ باہر کوئی ملنے والا آیا تھا۔ میرے میزبان اٹھ کر چلے گئے۔ میں کمرے سے نکل کر آنگن میں آئی۔ دھوپ کی تیزی اور اس کا پسار پہاڑوں اور میدانوں پر بھری دوپہر کی مانند تھا۔ لیکن ابھی صبح تھی اور میری گھڑی نو بجا رہی تھی۔ برآمدے کی دیوار کے ساتھ لوہے کے چولہے میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ یہ چولہا عجیب ساخت کا تھا۔ آگے پیچھے کا سلسلہ یوں پھیلا ہوا تھا کہ چولہے کے منہ میں جلتی لکڑیوں کی آگ تیسری دیگچی تک پہنچ رہی تھی۔ پتیلوں اور دیگچی میں جانے کیا کیا پک رہا تھا؟ میں قریب جا بیٹھی۔ گلاب کے پھول نے ہنستی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میں نے نام پوچھا۔ گل جان بیگم۔ ‘‘ایسی معصوم اور بھولی بھالی صورت کے لئے کیسا بھاری بھر کم نام تھا۔میں کھڑی ہو گئی کیونکہ گل جان بیگم نے مجھے پیشکش کی تھی کہ ’’آؤ تمہیں اپنا باغیچہ دکھاؤ ں‘نشست گاہ کے دروازے سے اتارا گیا دس پوڈوں کا چھوٹا سا چوبی زینہ گھر اور باغیچے میں رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ ناشپاتی‘ سیب ‘ خوبانی کے درختوں کی ٹہنیاں اور انگور کی بیلیں پھولوں کے بارسے جھکی پڑتی تھیں۔ اس دلفریب نظارے کو دیکھ کر میرے چہرے اور آنکھوں سے خوشی کی کرنیں پھوٹی تھیں۔ کیونکہ میدانی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے ہم لوگ تو قدرت کے ان انمول عطیات کو ان کے حسن کے ساتھ دیکھنے کی سعادت سے محروم ہی رہتے ہیں۔پر میری قسمت کہ میرے ذہن و دہن کو للچاتا پھل ابھی کچا تھا۔ پکا پھل توت ختم ہو چکا تھا۔ اگر کہیں کوئی ٹانواں ٹانواں دانہ نظر آتا تھا تو اسے توڑنے کے لئے یقینا میں لولی لنگی ہونے کا رسک لینا نہیں چاہتی تھی۔ سوانچل (ساگ) اور منڈیا (چائنا پالک) کی کیاریوں میں ابھی گل جان نے پاؤں دھرا ہی تھاجب اس کی پکار پڑی۔ وہ اور اس کے پیچھے پیچھے میں بھی الٹے پاؤں بھاگی۔ پتہ چلا کہ گوشت تیز آنچ سے جل گیا ہے اس کی بُونے چارپائی پر بیٹھی زچہّ ماں کو اٹھنے اور پکارنے پر مجبور کر دیا تھا۔میں اب چلاس کے گردو نواح کا چکر لگانے اور قبل از تاریخ وہ چٹانی مجسمے اور پتھروں کے ہتھیار دیکھنے کا سوچ رہی تھی جن کی وجہ سے چلاس خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔اس خواہش کا اظہار جب کمرے میں موجود صاحب خانہ سے کیا گیا تو بے چارے نے گھبرا کر ایک بار زمین کو دیکھا ’ دوسری بار بیوی کو اور تیسری بار مجھے۔ پھر قدرے تذبذب سے بولا۔بی بی دراصل ان علاقوں میں عورت کا یوں پھرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے‘‘۔چلو یہ اچھی ایکٹویٹی رہی۔ جان جوکھوں میں ڈال کر گویا میں ان کا گھر دیکھنے اور کھانے کھانے ہی تو یہاں آئی ہوں‘‘۔ بہرحال میں نے غصے پر قابو پایا اور ہنس کر کہا۔میں آپ کی مدد اور تعاون کی ضرورت مند ہوں۔ اتنا کٹھن سفر۔ ۔ ۔ انہوں نے فوراً میری بات کاٹ دی۔چلیئے میں کچھ کرتاہوں‘‘۔ وہ باہر نکل گئے۔ تھوری دیر بعد اندر آئے مجھے بتایا۔ابھی باہر میرا بھتیجا آیا تھا۔ اسے میں نے آپ کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ ابھی آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ چلاس کے مضافات میں گھوم آئیے۔ باقی رہے تاریخی مجسمے‘ دراصل یہ مختلف جگہوں پر ہیں۔ دریا پار ایک وادی تھلپن ہے۔ تھور اور گچی میں بھی سننے میں آئے ہیں۔ میں دراصل تذبذب میں ہوں کہ وہاں جانا مسئلہ ہے‘‘۔ ان تاریخی کتبوں کو دیکھے بغیر چلاس آنا رائیگاں جاتا تھا۔ میں چارپائی پر بیٹھ گئی اور رسان سے بولی۔ آپ میری مجبوری سمجھیں۔ کسی اچھی سی گاڑی اور ماہر ڈرائیور کا بندوبست کر دیجئے۔ جتنے پیسے وہ لینا چاہے میں دوں گی۔ اچھا برا لگنے کی بات چھوڑ ئیے۔ بچوں والی عورت کے لئے بار بار گھر سے نکلنا مشکل ہے۔ روز روز کوئی آیا جاتا ہے !پھر ایک عجیب سی بات ہوئی۔سترہ اٹھارہ سال کا ایک لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ یہ محمد صادق تھا۔ جس نے گائیڈ کے فرائض سرانجام دینے تھے۔ میں اٹھنے ہی والی تھی کہ برآمدے میں کھڑی گل جان نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ دہلیز سے قدم نکلتے ہی اس نے مجھے ہاتھ سے تھام کر دوسرے کمرے میں ایک جستی ٹرنک کے سامنے لاکھڑا کیا۔ میں حیران و ششدر ’’سر آرتھر کنین‘‘ ڈائل کی جاسوسی کہانیوں والی صورت حال محسوس کرتی تھی۔تب ایک جھٹکے سے بکس کا ڈھکن اوپر اٹھا۔ اس نے جرسی کی پھولدار چادر کپڑوں کی تہوں سے نکال کر اسے بند کیا۔ میرے سر سے وہ نسبتاً مہین چادر اُتاری اور وہ اوڑھا دی۔ بارہ تیرہ سالہ گل جان جس نے مجھے کچھ کہے بغیر بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔ میں نے اس کی پیشانی چومی اور باہر نکل آئی۔گھر سے نکل کر جو سڑک پاؤں کے نیچے آئی وہ ہسپتال روڈ تھی۔ دور افتادہ علاقوں میں سرکاری عمارتوںکے مخصوص پیٹرن پر تعمیر شدہ چھوٹا سا ہسپتال جہاں ہمہ وقت دس بارہ مریض داخل رہتے ہیں۔ پانچ مرد ڈاکٹر حاضر ’ خاتون ڈاکٹر غیر حاضر ہی نہیں کلی غائب۔انچارج ڈاکٹر محمد افضل خان سمیت تین اور ڈاکٹر استور سے تھے۔ پتہ چلا کہ تعلیمی لحاظ سے استوار شمالی علاقہ جات میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ زنانہ وارڈ میں زچگی کا ایک اُلجھا ہوا کیس چلاس سے چھ میل پرے وادی سے آیا ہوا تھا۔ پورا خاندان برآمدے میں جمع چہ میگوئیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دائی جو اپنے آپ کو مڈوائف کہتی تھی۔ انہیں سمجھا سمجھا کر ہار گئی تھی کہ اگر انہیں مریضہ کی جان درکار ہے تو مرد ڈاکٹر اندر بھیجنا بہت ضروری ہے۔ایسے نازک لمحات میں پند و نصائح اور قائل کرنے کے جو حربے استعمال میں لائے جا سکتے تھے وہ سب آزمائے گئے اور یوں مرد ڈاکٹر اندر جانے میں کامیاب ہوا۔میں نے ڈاکٹر افضل خان کی طرف دیکھا اور بے اختیار کہا۔اگر آپ نے کراچی جیسے شہر کو چھوڑ کر محض اپنے علاقے کی خدمت کے لئے یہاں ڈیرے ڈالنے تھے تو میٹریکولیٹ گھر والی کی جگہ ڈاکٹر بیوی لانی تھی۔ کم از کم ایسی صورت سے تو بچ جاتے۔ ’’ ارے بی بی بہتیرے طرلے مارے اس ماڈرن ڈاکٹر لڑکی کے جسے مجھ سے محبت کا دعویٰ تھا۔ مگر جو شہر چھوڑ کر یہاں آنے پر تیار نہیں تھیں۔ آپ بتائیں کیا کرتا۔‘‘میں نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ ایسی صورت میں بتانے کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا۔ریاض گلی سے جو چڑھائی شروع ہوئی تو وہ کھتر محلہ جا کر ختم ہوئی۔ پتھروں کی دیواروں والے گھر جن کے چھوٹے چھوٹے دروازے بند تھے۔ جولائی کے تپتے سورج نے مجھے پسینہ پسینہ کر ڈالا تھا۔ ایک دیوار کی اوٹ میں سستانے بیٹھی تو صادق ہنسنے لگا۔میرے دائیں بائیں اور سامنے جانوروں کی بکھری ہڈیاں ہر جاندار کے فانی ہونے کی داستانیں سنانے ہی لگی تھیں کہ میں دہلا کر اٹھی۔ ان کہانیوں کو سننے کا ابھی میرے پاس وقت نہیں تھا۔محمد صادق بتاتا تھا۔ دیامر ۱۹۴۷ء میں گلگت پاکستان کا حصہ بنا۔ جنگ آزادی گلگت و بلتستان میں چلاسیوں اور استوریوں نے جی جان سے مجاہدوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ عملی طور پر جنگ میں حصہ بھی لیا۔ ۱۹۵۳ء میں پورے داریل و تانگیر کا الحاق دیا مر کے ساتھ ہوا۔ ۱۹۷۲ء میں انتظامی بہتری کے لئے استوار ’داریل و تانگیر اور چلاس کی تحصیلوں کو ملا کر ایک ضلع دیا مر کے نام سے قائم کیا گیا جس کا صدر مقام چلاس ہے۔تھوڑی سی چڑھائی کے بعد میرے سامنے ایک پختہ سڑک تھی جس کے دونوں جانب بڑے بڑے دروازوں والی پختہ دوکانیں تھیں۔ گاہکوں اور دوکانداروں کی اکثریت باریش تھی۔ دلوں کے حال خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ سنت نبوی سے وابستگی کی بنا پر ہے یا اس میں خط بنوانے کی کاہلی کا عمل دخل ہے۔ چلاس کی اٹھانوے فیصد آبادی سُنیّ مسلک سے متعلق ہے۔ پرلی طرف چلاس کی تیسری آبادی جسے مہاجر کالونی کے ساتھ ساتھ رونئی بھی کہا جاتاہے‘ واقع ہے۔ گھروں کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں سرکاری ملازمین اور پٹھانوں کی اکثریت ہے۔ ستراسی گھر ہوں گے۔ ساتھ ہی شلکٹ کا گاؤں ہے۔ محمد صادق مجھے مچھلیوں کے فارم دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا جو کہیں قریب ہی تھا لیکن مجھے زندوں کی نسبت بے جانوں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ میں نے چلاس کا تاریخی قلعہ دیکھنے کے لئے دوڑ لگا رکھی تھی۔صادق کہنا تھا۔دیکھنا تھا تو آپ نے پہلے بتایا ہوتا میں شارٹ کٹ سے لے چلتا۔ ہاں آپ ذرا آہستہ چلئے۔ میرے پیچھے رہیے۔ میری بہت سی خراب عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی مرد کے ساتھ چلتے ہوئے میرا ایک قدم پیچھے رہنے کی بجائے اس سے آگے رہتا ہے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں میاں نے غالباً مروت میں اس عادت کو برداشت کیا۔ پر جب تعلقات میں ذرا بوسیدگی ائی تو ایک دن سیر کے لئے جاتے ہوئے بیچ سڑک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔کیسی سٹوپڈ عورت سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ پیچھے نہیں قدم چلتے تو آگے بھی مت بڑھو‘‘۔ وہیں ’’تو تو میں میں‘‘ ہو گئی اور نتیجتاً ہم لوگ گھر میں الگ الگ داخل ہوئے۔ بیچارہ صادق ‘‘اب بھلا میں مرد کی ذہنیت پر چچ چچ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی۔ بازار کے ساتھ جماعت خانہ تھا اور اس کے پاس ہی مضبوط قلعہ آن بان سے کھڑا تھا۔ اندر پولیس نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا۔ میں نے برجیوں میں سے جھانکتے ان سوراخوں کو دیکھا جن کے دہانوں پر رکھی گئی بندوقوں کی نالیوں سے شعلے نکل کر دشمن کو خاکستر کرتے تھے۔چلاس کے جری و دلیر اور غیور لوگ ہمیشہ دشمن کے لئے عذاب بنے رہے۔صادق بتا رہا تھا۔یہ ۱۸۵۱ء کا ذکر ہے۔ ڈوگرہ فوج نے چلاس پر حملہ کر دیا۔ ڈوگرہ فوج کیل کانٹے سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نامور فوجی اور سول راہنماؤں کے ساتھ تھی۔ وزیر زور آور سنگھ ’دیوان ٹھاکر سنگھ ’کر نل بجے سنگھ اور کرنل جواہر کے ہمراہ خود آئے تھے۔ اہل چلاس کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ لوگ اپنے اس قلعے میں آگئے۔ یہ قلعہ ایسا مضبوط ’ایسا مستحکم اور ایسا پر اسرار تھا کہ کسی طرف سے بھی اس پر حملہ کرنے کی راہ نہ تھی۔ ڈوگرہ فوج اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ چلاسی مردوں کی شجاعت تو ایک طرف ’عورتیں ایسی جنگجو کہ انہوں نے بندوقیں ہاتھوں میں تھام کر مردوں سے کہا :تم لوگ رات کو لڑو‘ دن ہمارے لئے رہنے دو۔ ‘‘اب کرنل بجے اور جواہر سنگھ حیران کہ قلعے میں محصور لوگ کیا فولادی ہیں کہ تھکتے نہیں۔کسی وقت تفنگ بازی کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ مخبروں نے خبر دی کہ عورتیں مردوںکے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ جونہی ڈوگروں کی تازہ کمک پہنچتی۔ فصیل سے گولیوں اور پتھروں کی ایسی بارش ہوتی کہ سپاہیوں کی اکثریت وہیں ڈھیر ہو جاتی۔ صورت حال تشویشناک تھی۔ آخر کار قلعے کے اندر نقب لگا کر پانی کے حوض تک رسائی حاصل کی گئی اور پانی ضائع کر دیا۔ باہمت چلاسی اب مجبور ہو گئے تھے۔ اطاعت تو قبول کی ’خراج ادا کرنا بھی منظور کیا ’لیکن اس کے باوجود ۱۸۹۲ء تک ڈوگرہ فوج کو باقاعدہ انتظامیہ قائم کرنی نصیب نہ ہوئی۔ اسی سال انگریزی فوج کے میجر رابرٹسن نے چلاس پر حملہ کیا۔ زبردست جھڑپوں کے بعد افواج کشمیر نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا ’لیکن چلاس والوں نے اپنے اندرونی معاملات میں انہیں مداخلت کرنے کی کبھی اجازت نہ دی۔ ہمیشہ ان کے لئے مصیبت بنے رہے۔جنگ آزادی کے لئے اہل چلاس کی خدمات نے بھی تاریخ کے صفحات میں سنہری ابواب کا اضافہ کیا۔ ٹائیگر فورس جس کی قلندرانہ آن میں سکندرانہ شان تھی۔ اس میں چلاس کے جیالے بھی شامل تھے جو ہر محاذ پر بے جگری سے لڑے اور شجاعت کے میدان میں نئی داستانیں رقم کیں۔جب واپسی کے لئے ڈھلانی راستے پر تیزی سے اترا جا رہا تھا۔ میں ایک جگہ بے اختیار رک گئی۔ میرے سامنے ایک ایسا گھر تھا جس کی دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ آنگن میں جابجا کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا شکستہ دیوار کی چھوٹی سی اوٹ میں ایک نحیف و نزار بوڑھا فراغت کا مرحلہ طے کر رہا تھا۔ خوبانی کے پیٹر کے نیچے بچھی چارپائی پر ایک ایسی لڑکی بیٹھی تھی جو اس ماحول کی مناسبت سے مجھے کنول کا پھول نظر آئی تھی۔ درخت کے تنے سے بندھی بکری تصویر حیرت بنی اس ماحول کو دیکھتی اور کبھی کبھی بھاں بھاں کرتی تھی۔میں بے اختیار اس کے پاس جا بیٹھی۔ سامنے کا منظر کیسا دلفریب تھا۔ دریائے سندھ ایک پتلی سی لکیر کی مانند نظر آرہا تھا۔ سہاگہ کئے ہوئے اور سبز کونپلوں والے چھوٹے بڑے کھیت جیومیٹری کی ہر شکل کا نمونہ تھے۔ چلاس کی زرخیز میدانی زمین دو فصلی ہونے کے باوجود غذائی ضروریات میں لوگوں کو خود کفیل نہیں کرتی۔شاہ بلوط کے قد آور درختوں کے پتے ہوا کے زور سے جھوم کر جب سورج کے رخ پر آتے تو یوں لگتا جیسے چاندی کے دریا میں غوطہ مار کر نکلے ہوں۔ دریا پار کھنر کے پہاڑ تھے۔ ننگے بچھے یہ پہاڑ ذرا جاذب نظر نہ تھے۔صادق نے شنا (مقامی زبان) میں اسے غالباً میرے متعلق بتایا تھا۔ گرمی کی اس شدت میں اس نے نیلی پھولوں والی جرسی کا گندہ مندہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ گلے میں کپڑے پر لگائے گئے موتیوں کا زیور جسے وہ مشٹی کہتی تھی زیب تن تھا۔ اس کی صحت ’حسن و جوانی اور بانکپن کو دیکھتے ہوئے میرا یہ سوال فطری تھا۔اتنا گند پھیلائے بیٹھی ہو؟ طبیعت نہیں گھبراتی‘‘۔ اس ماہ رخ نے کمال بے اعتنائی سے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا۔دراصل پرسوں تو ہم لوگوں نے گٹو مل چلے جانا ہے۔ وہاں ہمارا گھر ’زمین‘ بھیڑ بکریاں‘ مال مویشی‘ دیار’ دیودار اور چلغوزوں کے درخت ہیں۔ جب جانا ہے تو فضول میں یہاں ہلکان ہونے سے فائدہ! تین چار دن پہلے جھاڑو دیا تھا۔ ایک تو بکریاں اتنی کم بخت ہیں کہ جگہ جگہ گند ڈالتی پھرتی ہیں۔ ‘‘اب بھلا اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘ کہنے کے سوا کوئی اور چارہ تھا؟اس کی شادی کو گیارہ سال گزر گئے تھے اور ہنوز وہ بچے سے محروم تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ شوہر کا رویہ کیساہے؟ اس نے اعتماد اور توکلّ سے لبالب بھرا جواب دیا تھا۔یہ تو مولا کی دین ہے۔ بندہ کیوں پھوُں پھاں کرتا پھرے؟ جب اس کی کوئی کاریگری نہیں۔اگر وہ تمہیں چھوڑ دے پھر‘‘۔ ’’چھوڑ دے۔ ہزار بار چھوڑدے۔ اللہ مالک ہے۔ بہتیرے مرد۔اس ان پڑھ جاہل عورت نے مجھ جیسی پڑھی لکھی کے منہ پر زناٹے کا تھپڑا مارا تھا۔ ’’بات ہوئی نا‘‘ میں نے اس کے شانے تھپتھپا کر داد دی۔ |