|
ڈاکٹر جاوید جمیل قصّہ درد_دل سناتے کیا خوش تھی محفل بہت, رلاتے کیا ایک طوفان سا تھا یادوں کا چاہتے بھی تو روک پاتے کیا؟ آرزو کی ہے خو گلے پڑنا آرزو کو گلے لگاتے کیا انکا ہر جلوہ جان لیوا ہے ملتے رہتےتو جاں سے جاتے کیا؟ آخر_شب تھی شمع چپ چپ تھی اب اسے اور ہم جلاتے کیا کر دیا ہم نے خم سر_تسلیم یہ نہ کرتے تو سر کٹاتے کیا ؟ غم کا رشتہ تھا دل کی دھڑکن سے اس سے پیچھا کبھی چھڑاتے کیا صبح آنے میں دیر تھی جاوید آپ تھے نیند میں اٹھاتے کیا |