|
انٹرویو ڈاکٹر ممتاز عالم
رضوی
ماریشس میں
اردوکا مستقبل بہت روشن ہے:پروفیسرابن کنول
پروفیسر ابن کنول کاشماراردو کے معروف ادیبوں میں ہوتا ہے،گزشتہ چھبیس سال سے شعبۂ اردو ،دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں،شعبہ میں صدارتی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں،ان کی ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں،جن میں بوستان خیال ایک مطالعہ،داستان سے ناول تک،تنقیدوتحسین،میرامن،باغ وبہار،انتخاب سخن،بندراستے،تیسری دنیا کے لوگ،تحقیق وتدوین،نظیراکبرآبادی وغیرہ شامل ہیں۔آپ نے امریکہ،اگلینڈ،ماریشس،سعودی عرب اور پاکستان سمیت کئی ملکوں کے سفر کئے ہیں،انھوں نے اردو کے حوالے سے تین بار ماریشس کا سفر کیا،ماریشس میں اردو کی صورت حال پرمعروف صحافی ڈاکٹرممتازعالم رضوی نے پروفیسر ابن کنول سے خصوصی گفتگو کی،جس کے اقتباسات پیش ہیں :سوال :اردو کی نئی بستیوںمیں اردوکی موجودہ صورت حال کیا ہے ؟ جواب :آج سے سو سال پہلے جب داغ نے کہا تھا ’’ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ‘‘توظاہر ہے اس میں مبالغہ شامل تھا ۔داغ کو علم بھی نہیں تھا کہ اردو دوسرے ممالک میں بولی بھی جاتی ہےیانہیں،انھوں نے تو بس شاعرانہ انداز میں کہا تھا ۔لیکن آج صورت حال واقعی یہ ہے کہ اردو بر صغیر سے نکل کر ،یا اپنے وطن سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔خواہ وہ امریکہ ہو ،یوروپ ہو ،آسٹریلیا ہو ،یا افریقہ کے ممالک ہوں ۔میں آپ سے عرض کروں کہ اتفاق سے اردو ہی کے حوالے سے مجھے امریکہ بھی جانے کا اتفاق ہوا ،یوروپ اور افریقی ملک موریشس بھی گیا ۔اورخلیجی ممالک یعنی سعودی عرب یا دبئی وغیرہ گیا ،تو مجھے زبان کے اعتبار سے بولنے میں کسی بھی ملک میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔میں نے اردو میں ہی رابطہ قائم کیا ۔آپ دیکھیں کہ امریکہ جیسی جگہ پر اردو والے اتنی تعدادمیں موجود ہیں کہ وہاں کئی بڑے شہروں سے جوہفت روزہ اخبار نکلتا ہے ’’اردو ٹائمز ‘‘اس کی شخامت اچھی خاصی ہے ۔اسے لوگ خریدتے ہیں ۔اور مختلف جگہوں پر دور دراز میں وہاں اردو کے پروگرام ہوتے ہیں ۔ان تقریبات میں لوگ شرکت کرنے کے لیے طویل سفر طے کرکے آتے ہیں اور نہ صرف آتے ہیں بلکہ ٹکٹ لیکر ان تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔آپ کو حیرت ہوگی کہ جس وقت میں 2001میں امریکہ گیا تھا ۔جہاں میں گیا تھا وہاں کیلیفورنیایونیورسٹی میں ان لوگوں نے میرے اعزاز میں ایک شام افسانہ رکھی تھی اور اس وقت اس پروگرام کا 10ڈالر کا ٹکٹ تھاباوجود اس کے اس افسانوی نشست میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ شرکت کرنے کے لیے آئے تھے ۔آپ یہ دیکھئے کہ ہمارے یہاںشرکا کو بلانے کے لیے کارڈ پر لکھا جاتا ہے کہ چائے کس وقت ملے گی تاکہ لوگ چائے کی لالچ میں ہی آ جائیں ۔سمینار میں لنچ کا بطور خاص ذکر کیا جاتا ہے تاکہ لوگ لنچ کی وجہ سے سمینارمیں شرکت کریں ۔ سوال :آخر اس کے اسباب کیاہیں ؟جواب :اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہ وہ انگلینڈ میں ہوں یا دوسری جگہ پر ہوں جو ہندوستان اور پاکستان سے لوگ گئے ہوئے ہیں وہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ہماری جڑیں جس تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں ،جس زبان سے جڑی ہوئی ہے وہ محفوظ رہے اور سو فیصد نہ سہی لیکن کسی حدتک ہمارے بچوں میں بھی سرایت کر جائے نیز بچے اسے سنبھالیں ۔ [ سوال : آپ کو کیا لگتا ہے کہ اردو کی نئی بستیوں میں نئی نسلیں بھی اردو پڑھ رہی ہیں ؟جواب :کہیں کہیں ایسا ہے کہ بہت سے نوجوان اردو رسم الخط کی بجائے اردو کو رومن میں پڑھتے ہیں ۔انگلینڈ میں یہ چیز بطور خاص دیکھی جا سکتی ہے ۔وہاں ایک دو اخبار بھی ہیں جو رومن رسم الخط میں نکلتے ہیں ۔رومن میں صحیح نہیں ہے لیکن نہ سے توبہتر ہے ۔کم از کم وہ لفظیات تو سمجھتے ہیں ۔آپ انٹرنیٹ پر دیکھ لیں کہ جو لوگ بات چیت کرتے ہیں تو اردو رسم الخط میں تو بہت کم لوگ ٹائپ کر پاتے ہیں ،رومن میں سب بات چیت چلتی ہے ۔میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ رسم خط بدلے لیکن وہ اردو تو کم از کم بول رہے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مقامی لوگوں میں بھی اردو کے تئیں دلچسپی ہے ۔مقامی لوگ بھی اردو سیکھتے ہیں ۔آپ روس میں دیکھ لیں ۔میرے طالب علم آسٹریلیا ، روس ، امریکہ وغیرہ میں موجود ہیں ۔وہیں کے لوگوں کی بات کر رہا ہوں ۔یعنی انگریز اردو پڑھ رہے ہیں ۔تو اب یہ صورت حال ہے کہ دوسرے ملکوں میں اردو پڑھی جا رہی ہے ۔اب آپ الا زہر یونیورسٹی میں دیکھ لیں ۔میں مصر کی بات کر رہا ہوں ۔الازہر یونیورسٹی میں باقاعدہ اردو کا شعبہ موجود ہے ۔اردو شعبہ میں اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت جو صدر شعبہ اردو ہیں وہ میرے شاگر د ہیں ۔ان کا نام ہے ڈاکٹر قاضی محمد احمد ۔ہمارے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے ۔میں آپ سے ذکر کروں گا کہ افریقی ممالک میں ہی موریشس شامل ہے ۔وہ ایک بہت ہی چھوٹا سا جزیرہ ہے اس میں اردو بہت زیادہ فروغ پا رہی ہے ،بر صغیر کے بعد شاید کوئی ایسا ملک ہو کہ جہاں پر موریششس جیسے اردو پڑھنے اور بولنے والے ہوں ۔ سوال :موریشس میں اردو کی موجودہ صورت حال کیا ہے ،وہاں کی کیا حقیقت ہے ؟ جواب :میں موریشش اب تک تین بار جا چکا ہوں ۔پہلی بار میں 2003میں گیا تھا جب وہاں عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی تھی ۔اب آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ عالمی اردو کانفرنس موریشس میں ہو رہی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ موریشس میں اردو کے چاہنے والے یا اردو کے عاشقین موجود ہیں ۔ظاہر ہے ایسی صورت میں ہی اس طرح کی کانفرنس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔ ممتا ز صاحب میں آپ سے عرض کروں گا کہ موریشس وہ چھوٹا جزیرہ ہے ساؤتھ افریقہ کے پاس، جس کی آبادی کل ساڑھے بارہ لاکھ کی ہے ۔بہت کم تعداد میں وہاں لوگ موجود ہیں ۔اں میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو انیسویں صدی میں ہندوستان سے مزدور کی حیثیت سے گئے تھے ۔یا انگریز جن ہندوستانیوں کو کالا پانی کی سزا دیتے تھے، انھیں وہاں لے جاتے تھے ۔لیکن عام طور پر ہندوستانیوں کو انگریز مزدور بنا کر لے گئے اور یہ کہہ کر لے گئے کہ ہم تمہے ایسی جگہ لے جا رہے ہیں جہاں تم پتھر اٹھاؤ گے تو اس پتھر کے نیچے سے سونا نکلے گا ۔وہ بے چارے غریب و لاچار لوگ کہ جو ہندوستان میں غریبی سے جوجھ رہے تھے ۔یوپی کے لوگ تھے ،بہار کے لوگ تھے ،تو ان لوگوں نے سوچا کہ چلو غریبی سے تو پیچھا چھوٹے گا ۔لیکن ظاہر ہے وہاں پتھر کے نیچے سونا نہیں تھا ۔وہاں گننے کی کھیتی کرانے کے لیے ہندوستانیوں کو انگریز لے کر گئے تھے ۔انگریز گننے کی کھیتی کراتے تھے اور میں نے وہاں دیکھا کہ میوزیم میں وہ کولہو بھی رکھے ہوئے ہیں بڑے بڑے جس میں جانوروں کی جگہ آدمی لگائے جاتے تھے۔ان کولہوؤں میں ہندوستان سے گئے مزدور لگائے جاتے تھے ۔اچھا !جو یہاں سے مزدور گئے تو ان کی زبان بھوج پوری تھی ۔اس میں ہندو اور مسلمان سب تھے ۔لیکن دیکھئے !ہوتا یہ ہے کہ جب ہم اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہندو کون ہے اور مسلمان کون ہے ،وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہندوستانی کون ہے ۔اس میں پھر وطن پرستی کا جذبہ زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔تو جب ہندوستان سے مزدور گئے تو وہاں سب مل جل کر رہے ۔وہاں بھوج پوری بولنے کا کافی رواج رہا ہے ۔آج بھی موریشس میں وہاں کی زبانوں میں بھوجپوری کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔لیکن یہ ضرور ہے کہ وہاں کی بھوجپوری اور یہاں کی بھوجپوری میں کافی فرق آ گیا ہے ،چونکہ وہاں فرنچ کالونی رہی ہے اس لیے فرنچ کا بھوجپوری زبان پر کافی اثر ہے وہاں کی مقامی زبان ہے کریول جو کہ مقامی زبانوں سے ملکر بنی ہے اس کا بھی کافی اثر ہے لیکن بھوجپوری کلچر موجود ہے ۔وہاں ہندو اور مسلمانوں کی آبادی ہے اور عیسائی جو ہیں چونکہ اب ملک آزاد ہو چکا ہے اس لیے اب وہ اقلیت میں ہیں ۔تو وہاں اب حکومت ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے ۔جیسا کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ جو لوگ برصغیر سے یورپ اور امریکہ گئے ہیں وہ اپنی زبان اور تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔اسی طرح اس ملک میں بھی ہندی اور اردو زندہ ہے ۔وہاں کے مسلمانوں نے اردو کو ایک طرح سے مذہبی زبان بنا دیا ہے ۔وہاں کی بہت سی مسجدوں میں اردو میں خطبہ اور تقریریں ہوتی ہیں ۔وہاں پورٹ لوئس میں جو سب سے بڑی جامع مسجد ہے اس کے مولانا جمعہ کی جو تقریر کرتے ہیں وہ اردو میں کرتے ہیں ۔وہاں ایک سہولت حکومت کی طرف سے ہے کہ موریشس ریڈیو سروس سے وہ تقریر براہ راست فرینچ میں نشر ہوتی ہے کیونکہ وہاں کے لوگ فرینچ زیادہ سمجھتے ہیں ۔وہاں محترمہ مریم گودڑ اس کا ٹرانسلیشن کرتی جاتی ہیں ۔ تو میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ اردو زبان کو وہاں ابتدا میں مذہبی زبان ہونے کی وجہ سے ترقی ملی لیکن بعد میں اس زبان کی طرف توجہ دی اور زبان کو پوری طرح سے سیکھنا شروع کر دیا ۔ سوال وہاں کے مسلم ہی اردو پڑھ رہے ہیں یا غیر مسلم بھی اردو پڑھ رہے ہیں ؟جواب: دیکھئے وہاں پر اب مسلمانوں کی زبان اردو سمجھی جانے لگی ہے ۔وہاںبہت سے مولاناؤںکی تقریر اردو میں ہوتی ہے ،تو اس طرح اردو زبان مسلمانوں کی شناخت بن گئی ہے۔ موریشس1968 میں آزاد ہوا لیکن اس سے پہلے ہی وہاں پر اردو کی تعلیم شروع ہو گئی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1957 سے وہاں جامعہ اردو علی گڑھ کاسینٹر ہے ۔ اس سینٹر سے آپ کو حیرت ہوگی کہ موریشس کے سینکڑوں طالب علم ہر سال ادیب کامل ،ادیب ماہرکاامتحان دیتے ہیں۔ ابھی ہم نے وہاں کی کچھ تصویریں دیکھیں جو آج سے 40 یا 45 سال پرانی تھیںکہ جہاں سینٹر میں بچے امتحان دے رہے ہیں۔ تو تقریبا ً کئی ہزار بچے تھے۔ حیرت ہوئی مجھے دیکھ کر اس زمانے سے وہاں یہ ماحول ہے ،پھر وہاں 1965 کے آس پاس علی گڑھ کے ایک استاد تھے عظیم الحق جنیدی جنھوں نے کچھ کتابیں بھی لکھی ہیں تاریخ وغیرہ کی ,وہ وہاں گئے اور لوگوں کی مدد کی نیز اردو کے سلسلہ میں کتابیں تیار کرکے دیں ۔ وہاں کے جو اردو والے ہیں،وہ ان کااحسان مانتے ہیں ہندوستان کے اسکالر اور علی گڑھ کے استاد ڈاکٹر اطہر پرویز کا ،جو بہت زمانے تک موریشس میں رہے۔ انھوں نے باقاعدہ وہاں اردو کی تعلیم دی ، انھوں نے موریشس میںاردو کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ سوال : ڈاکٹر صاحب اس بار آپ کا دورہ موریشس کیسا رہا ؟جواب :میں آپ کے سوال کی طرف ہی آ رہا ہوں لیکن تھوڑی تفصیل اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ وہاں کا پس منظر معلوم ہو جائے ۔تو میں بات کر رہا تھا اردو کی تعلیم و تدریس کی ۔آپ دیکھئے کہ 1968میں اطہر پرویز صاحب وہاں گئے اور اسی سال سے وہاں کے طالب علم ہندوستان اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے لگے تھے ۔وہاں ایک قاسم ہیراصاحب ہیں جنھیں موریشس یونیورسٹی میں جس کا مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ ایک حصہ ہے ،جہاں اب ایم اے کی سطح تک اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔اس انسٹی ٹیوٹ میں انھیں شعبہ اردو کا فاؤنڈر مانا جاتا ہے ۔انھوں نے 1968میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایڈ کیا اور بی ایڈ کرنے کے بعد جب وہ واپس اپنے وطن پہنچے ۔وہاں اسکولوں میں اردو شروع کروائی اوپھر کالجوں میں اردو شروع ہو گئی ، مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ جو کہ موریشس یونیورسٹی سے ملحق ہے جس میں شعبہ اردو قائم ہوا ۔ا یک اور صاحب ہیں عنایت حسین عیدن کہ جن کا ابھی تازہ ترین ناول آیا ہے اور جس کا ہندوستان میں اجرا بھی ہوا ہے ۔وہ بھی اردو شعبہ کے فاؤنڈرس میں سے ہیں ۔میں جب پہلی بار مورشس گیا تھا تو عالمی اردو کانفرنس میں گیا تھا لیکن گزشتہ دو سال سے میں وہاں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ایکسٹرنل اکزامنر کی حیثیتسے گیا ہوں ۔ میں آپ سے عرض کروں کہ موریشس یونیورسٹی میں اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔وہاں اردو کے کئی کورسیز ہیں ۔بی اے آنرس ،بی اے پاس یعنی دوسرے سبجیکٹ کے ساتھ بھی لوگ اردو ایک مضمون کے طور پر لیتے ہیں ۔اس سال سے وہاں اردو میں ایم اے بھی شروع ہو گیا ہے ۔ابھی ہم وہاں بات کرکے آئے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ وہاں جلد ماس میڈیا کا بھی کورس شروع کر دیا جائے ۔ایک اردو سرٹیفکیٹ کورس بھی منظورہوگیاہے ۔اس میں تعلیم بالغان کے طور پر اردو سکھائی جائے گی ۔یہ کورس اگست سے شروع ہو جائے گا ۔میں نے وہاں کی ایک تقریب میں کہا تھا کہ بہت ممکن ہے آئندہ برسوں میں ہندوستان اور پاکستان سے اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے طالب علم موریشس آنے لگیں کہ جس طرح آج موریشس سے لوگ ہندوستان اور پاکستان جاتے ہیں ۔ ممتاز صاحب آپ کو حیرت ہوگی کہ وہاں تقریبا 200اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے جبکہ کل آبادی ساڑھے بارہ لاکھ ہے جیسا کہ شروع میں میں نے بتایا تھا ،اردو پڑھانے والے دو سو اسکول دہلی میں بھی نہیں ہیں جبکہ یہاںڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے ۔دہلی کی آبادی سے کتنی کم موریشس کی آبادی ہے، لیکن وہاں بڑی تعداد میں اردو کے اسکول ہیں ۔موریشس کے یہ وہ 200اسکول ہیں کہ جہاں بچوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب جہاں ابتدائی تعلیم اردو کی ہو وہاں آپ اندازہ لگا لیں کہ اردو کا مستقبل کیا ہوگا ۔ظاہر ہے بچے آگے چل کر اردو تو بولیں گے ۔اردو پڑھیں گے ۔ زبان کو سکھانے یا فروغ دینے کے لیے اگر آپ کی نیت صحیح ہے تو آپ اسکولوں سے اردو شروع کرائیں گے ۔اب آپ خود سوچیں کہ اگر اسکولوں سے اردو ختم ہو جائے گی تو کون پڑھے گا ۔سوال : وہاں اردو کو روزگار سے جوڑنے کا بھی کوئی پروگرام ہے ؟ جواب :ہمارے یہاں تو عام طور پر طلبا پی ایچ ڈی کرکے بھی بے روزگار گھومتے ہیں ۔اب کچھ صورت بہتر ہوئی ہے کہ انھیں میڈیا میں نوکریاں ملنے لگی ہیں ۔اردو کے چینل بھی کھل رہے ہیں اور اردو کے اخبارات بھی آ رہے ہیں ۔وہاں ہم نے عام طور پر یہ دیکھا کہ وہاں بی اے کا طالب علم بھی ہے تو اس کی ملازمت اسکول میں لگ جاتی ہے ۔کہیں نہ کہیں وہ کام پر لگ جاتے ہیں ۔ہو سکتا کہ مستقبل میں ان کو کچھ پریشانیاں ہوں کہ جب زیادہ تعداد میں بچے پڑھ کر نکلیں گے لیکن اس کا جوازیہ بھی ہے کہ اسکول بھی اسی تعداد میں بڑھتے چلے جائیں گے ۔وہاں ابھی ملازمت کی مشکل نہیں ہے ۔یہاں سے جو طالب علم اردو پڑھ کر جاتا ہے اسے وہاں نوکری مل ہی جاتی ہے ۔جو ایم اے اور بی اے کر کے گئے ہیں وہ وہاں ٹیچر ہیں ۔اب آپ یہ دیکھیں کہ جب دو سو اردو میڈیم اسکول ہیں تو اسی تناسب سے وہاں ٹیچر بھی ہیں ۔یعنی ٹیچر وں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے ۔ سوال :وہاں میڈیا کی کیا صورت حال ؟ جواب :وہاں ٹیلی ویژن پر اور ریڈیو پر ،ایم بی سی یعنی موریشس براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ہے جس میں اردو کے پروگرام آتے ہیں اور ریڈیو پر بھی اردو کے پروگرام براڈ کاسٹ ہوتے ہیں ۔تو اس طرح میڈیا سے بھی کافی لوگ جڑے ہوئے ہیں ۔وہاں باقاعدہ بزم کی طرز پر پروگرام آتا ہے کہ جس طرح ہمارے یہاں دور درشن پر بزم کے نام سے ادبی پروگرام ہے ۔وہاں اس کا نام انجمن رکھا گیا ہے ۔اس پر انٹرویوز ہوتا ہے اور یہ ہر جمعہ کو نشر ہوتا ہے ۔جو ہندوستان سے لوگ جاتے ہیں انھیں بھی وہاں بلایا جاتا ہے اور ان کا انٹر ویو ہوتا ہے ۔اس پر شعرو شاعری کا بھی سلسلہ ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ وہاں دو انسٹی نیوٹ ہے ۔ایک ہے نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ ہے جس کے قیام کو 40سال ہو گئے ہیں ،ابھی ان لوگوں نے 40سالہ جشن بھی منایا ہے ۔وہاں ایک بہت بڑے سرمایہ دار تھے عبداللہ احمد صاحب جو 1926میں گجرات سے وہاں منتقل ہوئے تھے ،انھوں نے اس انسٹی ٹیوٹ کو قائم کیا تھا وہ اس کے سرپرست تھے ۔عنایت حسین عیدن ،فاروق بوچا ،قاسم ہیرا ،صابر گودڑ یہ لوگ وہاں پر ہیں جنھوں نے اس انسٹی ٹیوٹ کو قائم کیا اور اس کے زیر اہتمام نہ صرف یہ کہ ادبی پروگرام کرتے ہیں بلکہ مشاعرے اور کانفرنسز بھی کرتے ہیں ۔طالب علموں کو امتحانات بھی دلاتے ہیں اور ان کی تیاری بھی کراتے ہیں ،کوچنکگ کلاسیز کراتے ہیں ۔اسی کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں کہ 2003میں جب عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی تھی اور ہندوستان سے اس میں شرکت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ گئے تھے ،دوسرے ملکوں سے بھی لوگ آئے تھے ۔وہاں پر ان لوگوں نے اردو اسپیکنگ یونین قائم کی ۔یہ یونین عبداللہ احمد کے سرپرستی میں قائم ہوئی تھی کہ جن کا حال ہی انتقال ہو گیا ہے ۔اب اردو اسپیکنگ یونین کے صدرشہزاد عبداللہ ہیں جو کہ عبداللہ احمد کے بیٹے ہیں ۔وہ بہت فعال ہیں ۔آپ کبھی وہاں جاکر دیکھیں کہ اس کا وہاں بہت بڑا دفتر ہے ۔یہ دفتر ایک بہت بڑے احاطہ کی کوٹھی میں بنا ہوا ہے کہ جہاں بہت سارے اسٹاف بیٹھتے ہیں ۔ان کی اپنی لائبریری ہے اور ان کا ایک باقاعدہ اخبار نکلتا ہے جس کا نام صدائے اردو ہے ۔وہ کتابیں بھی چھپواتے ہیں ۔اس اردو اسپیکنگ یونین کو حکومت سے تعاون بھی حاصل ہے ۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ موریشس کے لوگ اردو کے فروغ کے لیے کتنی کوششیں کر رہے ہیں ۔ سوال : وہاں کے مدرسوں میں اردو کی کیا صورت حال ہے ؟ جواب :میں نے شروع میں یہ بات کہی تھی کہ جب وہاں اردو کی ابتدا ہوئی تھی تو وہاں اردو کو مذہبی زبان سمجھ کر لکھنا، پڑھنا اور بولنا شروع کیا تھا ۔تو وہاں کے مدرسوں میں بھی ہندوستان اور پاکستان سے مولوی حضرات جاتے ہیں اور اردو کی تعلیم دیتے ہیں ۔جب ہماری ملاقات وہاں کے مولویوں سے ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان سے ہی گئے ہوئے ہیں ۔وہ موریشس میں قرآن مجید بھی پڑھاتے ہیں اور اردو کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔ سوال :موریشس میں اردو کا مستقبل کیسا لگ رہا ہے ؟ جواب :موریشس میں بطور خاص مجھے اردو کا مستقبل بہت روشن نظر آ رہا ہے ۔میں آپ سے عرض کروں کہ گزشتہ سال جب میں موریشس یونیورسٹی میں گیا تھا تو تقریبا پچاس طالب علم بی اے آنرس کے تھے۔پچاس طالب علم ایک بڑی تعداد ہے ۔ میں آپ سے عرض کروں کہ ان طالب علموں کی میں نے کاپیاں بھی دیکھیں اور ان کے لکھے ہوئے ڈیزرٹیشن دیکھے ،وہ کسی بھی طرح ہمارے طالب علموں سے کمزور نہیں تھے ۔سوائے اس کے کہ ان میں کچھ اسپیلنگ کی غلطیاں تھیں ،کچھ تذکیر و تانیث کا معاملہ تھا ،وہ ہمارے یہاں بھی ہے ۔ہمارے یہاں آپ دیکھئے کہ جو دوسرے صوبوں سے طالب علم آتے ہیں ان کے یہاں اسپیلنگ کی غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور تذکیر و تانیث کی بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔تو ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی ۔اس بار جب وہاں ایم۔ اے۔ شروع ہوا تو پہلے ہی سال میں وہاں ایم اے میں 11طالب علم تھے جبکہ وہاں وہ کورس سیلف فائنانسنگ ہے اور طالب علم کی 80ہزارروپیے فیس ہے اس کے باوجود وہاں پہلے سال میں ایم اے کے طالب علموں کی اتنی تعداد تھی ۔مجھے پوری امید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ تعداد اور بڑھے گی ۔وہاں جو لوگ اردو کے فروغ کے لیے کوشش کر رہے ہیں ان کی نیت صاف ہے ۔ان کے اندر سیاست نہیں ہے ۔ہمارے یہاں اگر اردو کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے تو اس لیے کہ اردو کی آواز اٹھاؤ تاکہ اردو والے ووٹ دیں ۔وہاں اس کا کوئی چکر ہی نہیں ہے ۔وہاں جو لوگ بھی اردو پڑھ رہے ہیں وہ اپنے شوق کی بنیادپر پڑھ رہے ہیں ۔وہاں تو لوگوں کو اردو زبان سے محبت ہے ۔ سوال : تھوڑی عجیب سی بات ہوگی لیکن کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہندوستان میں اردو زبان ختم ہوتی ہے تو موریشس میں اردو زندہ و باقی رہے گی ؟ جواب :بلا شبہ زندہ رہے گی ۔میں پھر وہی دوہراؤں گا کہ ایسا نہ ہو کہ آئند برسوں میں لوگ اردو پڑھنے کے لیے ہندوستان سے موریشس جانے لگیں ۔جیسے وہاں کے طالب علم وظیفہ لیکر یہاں آتے ہیں ۔یہ بہت اہم بات ہے ۔دیکھئے یہاں سے ہزاروں میل دور ایسے ملک میں اور اتنے چھوٹے سے جزیرے میں کہ جس کے چاروں طرف سمندر ہے اور جہاں کی آبادی کل بارہ ساڑھے بارہ لاکھ ہے ۔وہاں شام ہوتے ہی سناٹا ہو جاتا ہے ۔ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے ۔بازار بند ہو نے لگتے ہیں ۔وہاں رات میں بازار نہیںکھلتے ۔ایسے ملک میں اردو فروغ پارہی ہے۔ سوال : جلدی بازار بند ہو جانے کی وجہ کیا ہے ؟ جواب :ان کا اپنا کچھ کلچر ہے کہ وہ جلد ی بازار بند کر دیتے ہیں ۔وہاں جتنے بازار ہیں وہ سب چار بجے سے بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔وہاں جو بڑے بڑے مال ہیں اگر وہ بہت دیر تک کھلے رہ گئے تو بس آٹھ بجے رات تک ۔لوگ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں اور ذاتی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔گھروں میں ٹی وی دیکھتے ہیں اور کچھ کام کر رہے ہیں ۔میںنے وہاں ایک چیز دیکھی وہ یہ کہ ان لوگوں کے اندر خلوص بہت ہے ۔وہ لوگ مہمان نواز بہت ہیں ۔وہاں کے خواہ اردو والے ہوں یا ہندی والے ہوں ،ان کے اندر محبت بہت پائی جاتی ہے ۔مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ میں باقاعدہ اسکول آف انڈین لینگویجز ہے ۔اس میں ہندستانی زبانیں سکھائی جاتی ہیں، وہاں شعبہ ہندی بھی ہے ،شعبہ تیلگو بھی ہے ،تامل بھی ہے ۔مراٹھی بھی ہے ۔یہ تمام شعبے وہاں پر موجود ہیں اور ان تمام زبانوں کے لوگ ،وہاں کے مقامی لوگ اس زبان کو سکھاتے ہیں ۔اس وقت وہاں شعبہ اردو کے صدر ہیں صابر گودڑ صاحب ہیں اور ان کے ساتھ رحمت علی ،ڈاکٹر ریاض گوکل ، محمدآصف ،سکینہ رسم علی اور زینب وہاں کے اسٹاف میں شامل ہیں ۔ یہ لوگ اردو پڑھاتے ہیں ۔اسی طرح ہندی اور دوسرے شعبوں میں لوگ ہیں جو تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ہر سال یہاں سے ہر زبان کا ایک ایکسٹرنل اکزامنر جاتا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں سے ہر زبان کے وزیٹنگ پروفیسر بھی جاتے ہیں جو وہاں زبان پر خصوصی لیکچرس دیتے ہیں ۔تو یہ سب آنے والے مہمانوں کی بہت اچھے طریقہ سے مہمان نوازی کرتے ہیں ۔سب کا خیال رکھتے ہیں ۔ویسے تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ دنیا کے خوبصورت ترین جزیروں میں سے ایک ہے ۔مجھے نام تو یاد نہیں ہے لیکن کسی انگریز نے وہاں کہا تھا کہ شاید موریشس کو دیکھنے کے بعد اللہ نے جنت بنائی ہوگی ۔ سوال :کیا موریشس میں بھی ادبی نشستوں اور محفلوں کی روایت ہے ؟جواب : ہاں وہا ں پر بھی ادبی نشستوں اور ادبی محفلوں کا چلن ہے ۔وہاں لوگ نشستیں بھی کرتے رہتے ہیں اور مشاعرے بھی ہوتے ہیں ۔ادبی شامیں بھی ہوتی ہیں ۔مذہبی جلسے بھی ہوتے ہیں ۔میلاد اکبر جو ہندوستان میںپڑھاجاتا ہے، وہاں بھی خوب مشہور ہے ۔ظاہر ہے انھیں چیزوں سے زبانیں زندہ رہتی ہیں ۔دیکھئے !کوئی بھی زبان ہو اسے سرکار نہیں بلکہ عوام زندہ رکھتی ہے ۔میں اپنے ایک بیان میں کہا بھی تھا اردو سرکار کی وجہ سے زندہ نہیں ہے بلکہ اپنی طاقت کی وجہ سے زندہ ہے ۔یہ اس قدر طاقتور زبان ہے کہ خود بہ خود یہ زندہ رہے گی ۔آپ دیکھیں کہ آج الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ، وہ اردو زبان کو استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔ ہندوستان میں گزشتہ چند برسوں میں پانچ اردو کے چینل شرو ع ہو گئے ہیں ۔دہلی سے اب کتنے بڑے اخبارات نکلنے لگے ہیں ۔اور آج سے تیس سال اور چالیس سال پہلے جس طرح کی کتابیں چھپتی تھیں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت کتابیں آج چھپ رہی ہیں ۔آج اردو کی ڈیمانڈ ہے ۔اردو کی مانگ ہے ۔تبھی تو یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں ۔مارکیٹ میں زبان کی ویلیو ہے ۔سرکاری سطح پر اکیڈمیاں بنا دی جائیں یا کچھ بھی لیکن اس سے زبان زندہ نہیں رہے گی ۔اردو تو اپنی تہذیب ،اپنی شیرینی ،اپنی لچک ،اپنی نرمی ،اپنے لہجہ کی وجہ سے زندہ رہے گی ۔یہی وہ چیزیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری اردو زبان آج دوسرے ملکوں میں بھی مقبول ہو رہی ہے ۔ 3/121,lalita park, laxmi nagar ,new delhi
|