|
عبیداللہ علیم بنا گلاب تو کانٹے چبُھا گیا اِک شخص ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص |