شبیرنازش
آنکھ میں رَتجگا تو ہے ہی نہیں
ہجر کا تذکرہ تو ہے ہی نہیں
مِل گیا تُو ، تو مِل گیا سب کچھ
اور کچھ مانگنا تو ہے ہی نہیں
ایک ہی راستہ نجات کا ہے
دوسرا راستہ تو ہے ہی نہیں
عکس مجھ کو دِکھا رہا ہے کون؟
سامنے آئنہ تو ہے ہی نہیں
معذرت کر نہ بے وفا کہہ کر
مجھے اب ماننا تو ہے ہی نہیں
یہ مرض عشق کا مرض ہے میاں!
اِس مرض کی دوا تو ہے ہی نہیں
آپ اپنوں میں اب نہیں شامل
آپ سے اب گلہ تو ہے ہی نہیں
شبیرنازش
٭
جب اُس نے گفتگو ہی سے تاثیر کھینچ لی
میں نے بھی میل جول میں تاخیر کھینچ لی
پہلے تو میرے ہاتھ میں کشکول دے دیا
پھر یوں کِیا کہ وقت نے تصویر کھینچ لی
میرے گناہ ، کیا تری رحمت سے بڑھ گئے؟
پھر کیوں مری دعاؤں سے تاثیر کھینچ لی؟
دل نے ابھی لِیا ہی تھا تازہ ہوا میں سانس
فوراً کسی نے پاؤں کی زنجیر کھینچ لی
اِک اختلافِ رائے پر ، اِس درجہ برہمی
کیوں دوست تو نے ہجر کی شمشیر کھینچ لی؟
شبیرنازش
دل کے چرخے پہ سُوت سانسوں
کا
کاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
ہو گئی غیر وہ گلی ، پھر بھی
آتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
اہلِ دل بول اِک محبت کا
گاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
رنگ ، خوشبو ، فضا ، نئے منظر
بھاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
ہر قدم پر فریبِ دِلداری
کھاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
شبیرنازش
تُو جو نظارہ کرے پستی کا
رنگ اُڑ جائے تری ہستی کا
تیرگی اور بڑھی آنکھوں کی
اِک چراغ اور بجھا بستی کا
عشق پر زور کہاں چلتا ہے
کب یہ سودا ہے زبردستی کا
داستاں بن کے رہا جاتا ہے
ایک اِک فرد مری بستی کا
شبیرنازش
دل تری یاد کے سہارے پر
زندگی کس طرح گزارے پر؟
ہم دل و جان ہار بیٹھے ہیں
حسن کے ایک ہی اشارے پر
ڈار سے ہٹ کے اِک اُڑان بھری
نوچ ڈالے گئے ہمارے پر
عشق بنیاد کیوں اُٹھاتا ہے؟
اکثر و بیشتر خسارے پر
ہیں بظاہر جو مست ، مست نہیں
آنکھ رکھتے ہیں ہر ستارے پر
شبیرنازش
زندگی زرد زرد چہروں میں
بھیک ڈالی گئی ہے کاسوں میں
ہم سے کیا پوچھتے ہو رنگِ جہاں؟
ہم تو زِندوں میں ہیں نہ ُمردوں میں
دلِ معصوم ٹوٹ ٹوٹ گیا
ہم سجے رہ گئے دکانوں میں
سوئے ہوتے ہیں اپنے گھر میں ہم
پائے جاتے ہیں اُن کی گلیوں میں
اب کتابوں میں بھی نہیں ملتا
پیار ہوتا تھا پہلے لوگوں میں
یا الٰہی! بس اُس کی ایک جھلک
جس کی خوشبو ہے میری سانسوں میں
چھان دیکھی ہے مشرقین کی خاک
آن بیٹھا ہوں تیرے قدموں میں
نازشؔ ایسا قلندرانہ مزاج
کوئی ہو گا ، تو ہو گا صدیوں میں
|