یاشاعر
طاہرہ اقبال
’’پیاری طالب علمو!میرے اس کتاب گھر میں بجز کتابوں کے کوئی ساماں نہیں یہاں
ہر علم کی ہر شاخ حرف، حرف پھولوں سے لدی ہے۔ ہر نوع ہر رنگ و باس کے کتب
پھول کھلے ہیں۔ اپنی پسند کے شگوفے چن لیجیے اور اُن پر تشریف رکھیے۔ انہیں
اپنے لمس مشکبار سے محروم مت کیجیے۔‘‘
طالب علم لڑکیاں مرعوبیت و ممنونیت کے بحربے کراں میں ڈوب چلیں، کنارے کنارے
بیچ منجدھار اتھاہ ساگر۔
کتابوں کے بندھے بنڈل جن کی بوباس مثل بند کلی اُنہی کا مقدر تھی۔ چہار جانب
نشستوں کی مانند بکھرے تھے۔ لڑکیاں ایک ایک بنڈل پر سمٹ گئیں۔ یہ حرف پھول
جن میں بدن پھول مہکتے ہیں۔ بدن پھول جو اپنی بوباس لٹا مرجھاجاتے ہیں۔ حرف
پھول جو بدن مہک جذب کرسدامشکبار رہتے ہیں۔ شاعر باکمال حرفوں کی تھالی
تھامے عطرلوبان دھنکائے مشک مہکائے، مورتیوں کے چرنوں میں دوزانو ہو بیٹھا۔
حرفوں کی تھالی ہولے ہولے گردش کرنے لگی۔
عزیزازجاں متعلّم مہرلقا لال جلد والی افسانوی ادب کی کتاب تیرے تخیل کے
رومان پرورجزیروں کی مدہوش کن فضاؤں کی غماز ہے۔ نغمۂ جان ترنم، تیرا حسن
انتخاب تیرے خدوخال متوازن کا عجب سنگم ہے۔تو سراپاگیت ہے مجسم نغمہ ہے۔
راگ راگنیوں کے علم پر محیط یہ کتاب تیرے ذوق ترنم آفریں کی غماز ہے۔ ماہ
طلعت تیری نگہ شیرانی و مجاز کے کلیات کو شرف انتخاب بخش گئی۔ تجھ میں
عذراوسلمیٰ کی ساری دلربایاں مجسم ہیں تو شاعر کے تخیل کی تجسیم ہے۔
شاعرباکمال کی نیم واآنکھوں میں نظاروں کی حشرسامانیاں گندھ گئی تھیں۔
چورچور چھلکتی اُمڈتی۔
دھند کے غباروں میں کہسار کے چناروں میں
برق کوندتی ہے حسن کے نظاروں میں!
اے حسینہ غنچہ دہن میری اگلی کتاب کا انتساب تیرے نام کہ تو اس کتاب کے ہرہر
حرف میں ہر خیال میں لہو کی گردش تیز ہے۔ تو کہ شاعر حرماں نصیب کے تخیل کی
مہمیز ہے۔ لڑکیاں مرعوبیت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن سطح آب پر اُبھرتی
ڈوبتی رہیں، سورج دن اور رات کی درمیانی فصیل پہ بچھاحاضر غائب نہ پورا
اُجالا نہ پورا اندھیرا۔ شاعر باکمال کا کتاب گھر ڈوبتے سورج کی شفق میں
ملگجا، نکھرا کچھ واضح، کچھ دھندلا، کچھ ظاہر، کچھ پوشیدہ عارضوں کی شفق
لبوں کی دھنک، گیسوئے تابدار کی ملگجاہٹ، حرفوں کی مدھرتا، لہجوں کا ترنم
شعروں کا رسیلا سحر۔
پیاری طالب علمو! ہر غزل کا ہر شعر ہر اقتباس کا ہر لفظ ابلاغ معنی میں کمال
ایمائیت رکھتا ہے۔
’’یاشاعروضاحت ہو۔‘‘
گدرائی ہوئی شفق کی کرنیں کتری ہوئی دھنک پھولاپھروا۔ شاعر باکمال کے وجود
میں جھرجھری بڑھ کر پھیل گئی اور پھیل کر سمٹ گئی۔
اچھی طالب علمو! ایک ہی شعر کی شرح ایک مرد ثقیل کے لیے، نوجوان پرجوش کے
لیے یادوشیزہ ہو شربا کے لیے معنی کی مختلف پرتیں کھولتی ہے۔
’’یا شاعر مثال دی جائے۔‘‘
پیاری طالب علمو تشریح وہ جواز خود دل کے نہاں خانوں میں شرح ہوجائے غالب
خرابات کا مصرع ہے۔
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
نوجوان، ناشکیب کے جذب وکیف پر یہ کچھ یوں عیاں ہوتا ہے کہ جذبے کی تڑپ اور
نگہ کی حدت پیرہن کے تاروپود کو جھلسا کر بھسم کردیتی ہے۔سراپا غزل شعر
مجسم دوشیزہ خوش جمال کا پیرہن مانندورق مہین ہے کہ شباب ہو شربامانند
سوزبرق سنگین ہے۔
لڑکیاں اپنے اپنے وجود میں کسمسائیں، دہکتے انگاروں پر ہلکے ہلکے سرد چھینٹے۔
ترمرااٹھے اور بجھے۔ پور پور ٹھنڈک پورپور حدت۔ منتردم حرف جل کی ست رنگی
پھوار میں اشنان لیتی ہوئیں۔
یاشاعر ہم طبیعت موزوں رکھتی ہیں، چند اشعار موزوں نگہ اصلاح کے طلب گارہیں۔
اے دوشیزہ خوش جمال تو خود شعر موزوں کی مثال بے مثال ہے۔ شعرحسن تخیل ہے۔ تو
منبع تخیل۔ شعرموزوں کو زبان شیریں کی شیرینی سے ترکر کے سماعتوں میں
قندگھل جائے۔ نوآموزشاعرہ نے شعرپڑھا۔
تیری یاد جی کو گدگداتی ہے
کہ چشم نم ڈبڈباتی ہے!!
آہ۔ واہ۔ کراہ شاعر باکمال کی نگاہ سحر ناک دوشیزہ خوش جمال کو شعر کے نازک
نشیب و فراز سمجھانے لگی۔ شعری محاکات کی بلاغت واہ! داستان ہجرو فراق آہ
کراہ عجب تمثیل ہے! کوزے میں دریابند ہے۔
چشم آہو میں اشک تابدار، لرزتااُمدتا۔ واہ! آہ! کراہ! تیرا تکلم خوش ادا تیرا
تغزل سحرالبیان، تو خوبصورت شاعرہ نہیں ساحرہ ہے، خوبصورت شاعرہ گلنار
ہوگئی۔ سارے دھنک رنگ روم روم گل رنگ ہو بکھر گئے۔
اے دوشیزہ گل بدن! جہاں میں تجھے دیکھتا ہوں تیری پرواز شوخ کے پرجلتے ہیں۔
اقلیم شاعری میں تیرا ورود کسی تاجدار شہزادی کی مثل ہے۔ ناقدان ادب اپنی
ہیچ مقدار انگلیاں قلم کرڈالیں گے لیکن تیرے فن کی اتھاہ آنے والے ناقدین
کی غواصی کے واسطے چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ میری زیر طبع کتاب کا انتساب
تیرے نام۔ حرف جل میں ڈوبتی اُبھرتی جل پریاں ہفت رنگ پر پھڑپھڑاتی
سمٹتی،رنگ پہنتی خوشبو اوڑھتی، منترجل پھوار میں اشنان لیتیں۔
یاشاعر! ایم۔ اے کے تھیسس کے چند صفحات قلم بند کیے ہیں۔ شام ملگجے دھندلکے
میں پناہ لے چکی ہے۔ کل کلاس میںپیش نظر کردیا جائے گا۔ اے متعلم ارسطو صفت
کلاس میں نوجوانان نازیبا اور ناموزوں طبع ایسے کارمعقول میں دخل درمعقولات
کرتے ہیں۔ اسی کاروبار شوق کے واسطے یہ گوشہ علمی یہ گوشہ جمال مختص ہے۔
اے حسینہ خوش اندام تیرا پنجہ نازک بار قلم کا متحمل نہ ہوپائے گا یہ بارگراں
تو میرے دست ناتواں پر چھوڑدے۔ غالب عیش پسند نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا
تھا۔
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
مَیں کہاں اور یہ وبال کہاں
یا شاعر غالب کی زمیں میں طبع آزمائی کی ہے۔ لبوں کی بجلیاں تڑپیں رنگوں کی
برکھارت گھنگھور برسی۔
یونہی زور قلم آزماتی ہوں
میں کہاں اور یہ کمال کہاں
تجھ سے طالب جواب ہوتی ہوں
میں کہاں اور یہ سوال کہاں
واہ! آہ!کراہ! ہرہر حرف شاعرباکمال پر ایک وجدانگیز کرب طاری کرتا چلا گیا۔
قسمت نے کس سے واسطہ بنا دیا
میں کہاں اور یہ جمال کہاں!!
تیری آنکھوں سے سیر ہوجاتا ہوتا
میں کہاں اور یہ کلال کہاں
گریز میں عجب قربت ہے
میں کہاں اور یہ غزال کہاں
شاعر باکمال دوزانوہو بیٹھے۔ حرفوں کی تھالی تھامے جوں پجاری بیٹھا ہو دائرے
میں بچھی کتابی نشستیں تھالیکی گردش میں گھومتی تھیں۔ گول گول اڑن طشتری۔
پیاری طالب علمو! حسن مطلق نے اظہار چاہا تو انسان کامل کو اپنا عاشق بنا خود
کو جہاں تہاں کچھ پوشیدہ کچھ ظاہر کردیا۔ دھرتی کی کوکھ میں دفن بیج کو
ظاہر کی بے قراری نموبخش گئی۔ کلی کی چٹک پھول کی بیداری ہے۔ شاعر بے قرار
کی طلب حسن کی آبیاری ہے۔
کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے:
حسن سے تکمیل عشق عشق سے تکمیل حسن
اک کمی تیرے بغیر اک کمی میرے بغیر!!!
نیلگوں اندھیرا آفتاب کی نقاب ہوگیا برکھا رت کا سینہ بوجھل تھا کھل کر برسا،
رتیں بدلتی رہیں، کتاب گھر کی کتابیں بڑھتی رہیں۔ نشستیں جامد تھیں نشستگاں
تبدیل ہوتے رہے۔ پارسل گیم کا کھیل، میوزک بجتا رہا، سازندہ ایک تھا۔ پیک
فرین جادوگرسا! یہ نشستیں اپنی خوش طلعی پر کیوں نہ ناز کریں۔ پچھلے کتنے
عشروں سے اَن گنت مہرلقائیں، ماہ طلعتیں، اپنے لمس مشکبار سے انہیں مہکاتی
رہیں ہیں۔ کسی دھائی کی سیاہ نقابوں میں چھپی، کبھی سفید چادروں میں ڈھکی،
ڈھیلے ڈھالے ملبوسات چست لباسوں میں بدلتے۔ چست لباس ڈھیلے ڈھالے ملبوسات
میں تبدیل ہوتے ہے۔ سحرالبیان کے بحررواں میں بے سمت بے مقام تیرتی ہوئیں۔
حرف جل کی ہفت رنگ پھوار میں بھیگ جاتیں۔ سمندری جھاگ کے کہرے میں نظر دھند
لاتی ہوئی۔ ڈولتا ہوا بحرا کچھ تہہ آب کچھ سطح آب، حرف جل میں تیرتی جل
پریاں۔
باہر صدائے نامانوس و ناگوار سحر زدہ ماحول میں سنگ ریزے برساتی۔ کتب گھرکے
دَر سے چند سراَندر برساگئی لپکے۔ جن کے روئے سیاہ پر نظر پڑتے ہی شاعر
باکمال کے چہرے پر ناگواری لیپ ہوگئی۔
شاعر صاحب ذرا مردانے میں تشریف لائیے۔ طنز کے سارے تیر حرف جل کو ہدف کرگئے۔
لفظوں کی گردش کرتی تھالی ٹھہرگئی۔
دوشیزگان خوش جمال! اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مردان ناتراشیدہ کے تکلم
ناموزوں سے سمع خراشی کرلوں۔ باہر شور بڑھتا جارہا تھا۔ جھوٹا، مکار، فریبی،
دھوکے باز، لڑکیاں اپنے اپنے وجودوں میں کسمسائیں۔ جیسے پہلوؤں میں
چیونٹیاں سی رینگ جائیں۔ دوشیزگان خوش جمال یہ آدم زاد نہیں تصوروتخیل کے
تازیانے ہیں۔ تربیت ناموزوں انہیں درثت خصلت بناگئی ہے۔ ان کے نامناسب رویے
کے لیے حضورِ حسن منت خواہ ہوں کہ لاعلمی کا جہل انہیں گناہ کبیرہ کا مرتکب
بنارہا ہے۔
’’تم ان احمق لڑکیوں کو بے وقوف بناسکتے ہو۔ ہمیں نہیں، باہر نکلو ورنہ باہر
نکال لیے جاؤ گے۔‘‘ حرفوں کی سنگ باری بڑی شدید تھی۔
شاعر باکمال لڑھکتے پتھر کی مانند دَر سے باہر پھسلے۔
اے مردان ناتراشیدہ! مجھ شاعر ناچیز سے کس شئے کی طلب ہے جس کی سلطنت
تخیلات کا گہوارہ ہے، جس کا سرمایہ الفاظ کا گنجینہ ہے۔
’’توپھر یہ اَندر سبھاکیوں سجارکھی ہے۔‘‘ زبانوں کے لٹھ اوپر تلے برستے۔
اے احمقو یہی تو تخیلات کے گہوارے کی پریاں ہیں۔ یہی گنجینہ الفاظ کی معانی
ہیں۔ یہی تواقلیم شاعری کے عمال ہیں۔
لڑکیو! گھروں کو چلی جاؤ۔ ورنہ آگ لگادی جائے گی۔ تم سمیت سب کچھ بھسم ہوجائے
گا۔
مارو۔۔۔ مارو۔۔۔ بھسم کردو۔۔۔ آگ لگادوشور سماعتوں کو کندکرنے لگا۔
’’یہ قحبہ خانہ ہے اسے ڈھادو۔ یہ کارثواب ہے۔ بدعت کا خاتمہ کردو۔‘‘
شورگراں سماعت تھا۔
اے کم ظرفو مجھے سولی پر لٹکا دو۔ فتویٰ لگا دو لیکن اپنی زبانوں کو غلیظ مت
کرو۔ زبان کہ غلیظ ہوجائے تو کوئی آب مطاہر اسے باوضو نہیں کرتا۔ نطق کی
غلاظت زبان کی دبازت میں رَچ رَچ رستی ہے۔ انگ انگ نجس کردیتی ہے۔ جیسے
زمین کے سینے سے سیم رس رس اُسے بنجر بنا دیتی ہے۔
لڑکیاں ایک دوسرے میں چھپتی۔ جسموں کی گھڑیوں میں بندھی زینوں سے یکبارگی
لڑکھیں۔ حرف جل کر جل پریاں، حرف پاتال میں غرق ہوگئیں۔
اے مردان ناتراشیدہ! مانو کہ تمہاری جس لطافت عالم گراں خوابی میں ہے۔ مانو
کہ اس گراں خوابی کی سزا جمالی بے حسی کی صورت میں تمہیں ملنے والی ہے۔ جب
حسن روٹھ جاتا ہے تو بدصورتیوں کا دیوروح و نظر کو نگل جاتا ہے۔ سڑک پر
ٹائر جلتے تھے۔ جلے رَبڑ کی بوسارے بازار میں پھیلی تھی۔ دکانوں کے شٹر
گرادئیے گئے تھے۔ جلوس منتشر ہوچکا تھا لیکن چند نوجوان طالب علم ابھی جلتے
ٹائر فوں پر ایندھن پھینک رہے تھے اور ٹائروں بازی کررہے تھے۔
’’اندر سبھا کو بند کرو بہروپیئے شاعر کو سنگسار کرو۔ یہ عالم نہیں علم کی بے
حرمتی ہے۔‘‘
نعرے کتاب گھر کی خاموش جلدوں سے ٹکراتے تھے اور پلٹتے تھے۔
کتابوں کے منتشر بنڈل کتنے خالی خالی تھے۔ سارے حرف سارے معنی گم روشنائی کے
دھبے خندہ زن۔
مفاہیم کے چراغ گل۔ شاعرباکمال دوزانو بیٹھا تھا۔ گل چراغوں کی راکھ پورے
کتاب گھر میں اڑتی اور سانسوں میں جمتی تھی۔
اس پر مہرلقا بیٹھی تھی۔ آہ پیاری مہرلقا۔ کیا تو اب کبھی نہ آئے گی! تیرا
لمس مشکبار بے خبرحرفوں کو کیا کبھی خودشناسی نہ بخشے گا۔ کیا یہ حرف بے
معنی بے ہیئت ہوجائیں گے۔ اس پر نغمہ نفرگو جلوہ افروز ہوتی تھی۔ اے نغمہ
جاں تمہاری صدامیری گویائی ہے۔ تمہارے لفظ میری سماعت، بولو کہ میری گویائی،
میری سماعت میری حسیات سب پتھر ہیں۔
میرے حرف کہ منجمد برف
تیرا لمس چنگاری کی حدت
برف کے گھور سینے کو کریدتی
چراغ انگلیاں دہکتی ہوئیں
میرے حرفوں کو موم ساخت بنائیں
تیری سانسوں کی دھوپ تمازت
بول کہ جامد گنگ اندھیرے
دفن کردیں گے سرد سخت
زمینوں میں حرف جزیرے
گلاب حرف اپنی بوخود نگل جائیں گے
آدم خور
خون آشام
حرف
شاعرباکمال
گھٹنے زمین پہ ٹیکے ناراض دیویوں کے چرنوں میں جھکا تھا۔ آخروہ کیا دان
کرڈالے کہ روٹھی دیویاں مان جائیں۔ حرفوں کے چراغ گل تھے۔ معانی کے جزیرے
برفیاب۔ حرفوں کی تھالی خاموش۔
گل رُخ تو ہی بول۔ نغمہ نفرگو تو کیوں چپ ہے تیری خاموشی اقلیمِ حرف کی توہین
ہے۔ تمہارے لب۔
|