|
یاسمین حبیب جاگتی آنکھوں سے راتیں مختصر کرتی رہی مجھ سے ممکن جو ہوا وہ عمر بھر کرتی رہی منزلوں سے ماورائی راستے درپیش تھےسو مسلسل رائیگانی میں سفر کرتی رہی سنگلاخی کی بلندی پر عمودی کہسار سامنے آتے رہے میں جن کو سر کرتی رہی ہاتھ سے اپنے کھُرچ دی اپنی قسمت کی لکیر روز و شب تقدیر سے باہر بسر کرتی رہی میں محبت تھی سراپا اور مجھے معلوم تھا اس عمل میں بس خسارہ ہے ، مگر کرتی رہی یہ الگ ہر مرتبہ دل کی گری اک اور قاش یہ الگ ہر مرتبہ صرفِ نظر کرتی رہی بادلوں کے آنچلوں کو اوڑھنے کا شوق تھا کیسی کیسی بجلیوں کے دل میں گھر کرتی رہی زیست کی اتنی کریہہ المنظری کے باوجود میں جمال مرگ سے پیہم مفر کرتی رہی اُس کی آنکھیں قمقموں کی رات تک محدود تھیں صبح ہوجانے کی میں جس کو خبر کرتی رہی |