|
حبیب جالب
کی اکیسویں برسی
March 12, 2014
آج پاکستان کے نامور عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی اکیسویں برسی
منائی جارہی ہے۔
حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ 24 مارچ 1928ءکو میانی افغاناں،
ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور
خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔
1962ءمیں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم دستور
تحریر کی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں
نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا۔ بعدازاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی
صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی
پارٹی کے مسلک سے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی
کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی
ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے
معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاءالحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا،
بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی
حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے، نے پورے ملک میں مقبولیت
اور پذیرائی حاصل کی۔
ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون
کا، عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار
اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔
حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں
بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا،
یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج
اور انسان شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات
پیش کئے تھے۔ کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے
وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ءمیں حکومت پاکستان نے
انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز
تھا۔
حبیب جالب کا انتقال 13 مارچ 1993ءکو لاہور میں ہوا اورانھیں قبرستان سبزہ
زار اسکیم لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔
|