Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

نیشِ عشق

رضا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بہتر کوئی تصویر نہیں ہے مرے پاس
دیکھ سکتی ہے مجھے میری غزل میں دنیا
تو ان کی غزل اس بات کا مکمل جواز پیش کرتی ہے کہ انہیں اپنی تحریر کی جدت اور رفعتِ عرفان کا ادراک ہے۔
لیاقت علی عاصم نے دل آویز سوچ تصویریں اس اعلان کے ساتھ پیش کی ہیں کہ لفظوں کی بنت سے تخلیق کردہ اس سے بہتر کوئی تصویر ان کے پاس نہیں ہے۔لیاقت علی عاصم نے یہ اعلان اپنی تازہ ترین تخلیق ،، نیشِ عشق ،، میں کیا ہے۔نیشِ عشق ان کی ساتویں تخلیق ہے۔
لیاقت علی عاصم کا نظریہِ فن اور غزل گوئی کے بارے میں ان کا تصور بہت سادہ اور عام فہم ہے وہ ارتقائے شعور کو ارتقائے غزل کی بنیاد بناتے ہیں ان کے خیال میں شعور و فکر کو جلا دینا غزل کا مقصود ہے۔ سماجی زندگی اور عصری تقاضوں سے آنکھیں موند لینا درست شعری تخلیقی رویہ نہیں ہے۔ان کا تصورِ فن ان کی غزلوں میں پوری صراحت اور جامعیت کے ساتھ ملتا ہے۔اس مجموعہ کلام میں سب سے پہلے ان کی اپنی ذات کے نقوش ابھرتے نظر آتے ہیں۔
قصرِ ہزار در میں مقفل ہوں ان دنوں
اک فیصلے کی زد پہ مسلسل ہوں ان دنوں
ایسا نزولِ شعر ہوا ہی نہیں کبھی
عاصم ہجومِ فکر سے پاگل ہوں ان دنوں
میرے خیال میں شاعری دراصل فن کار کی شخصیت سے آگہی ہے اسی عرفانِ ذاتکے حوالے سے ہربرٹ ریڈ کا کہنا ہے کہ،، یہ صرف فیضان ہی نہیں ہے جس سے کہ کوئی شخص شاعر بنتا ہے۔بنیادی قوت اپنی شخصیت کی آگہی ہے اور شخصیت کے خلقی عملاور حرکت کواندرونی بغاوت اور انتشار سے بچاتے ہوئے پروان چڑہانے کی صلاحیت ہے۔ 
کہاں کی شاعری کیا شاعرِ جدید ہوں میں
بس ایک حرفِ محبت سے مستفید ہوں میں
جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا لیاقت علی عاصم کی ،،نیشِ عشق،، عرفانِ عشق یا عرفانِ ذات کا مکمل جواز پیش کرتی ہے اسے اپنی تحریر کی جدت اور رفعت کا عرفان ہے۔ وجدانی بینائی کی نعمت سے مالا مال ہو کر جب شاعر عملِ تخلیق سے گزرتا ہے تو اسے تخیل کے زور پر بڑی بڑی باتیں کرنے سے کہیں زیادہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر سچی اور کھری بات کہنا پسند ہے۔
عاصم کی غزل ایک آئینہ خانہ ہے اور ہر آئینے میں اس کی ذات ہے البتہ تصویریں دیکھنے والوں کو یکسانیت سے بچانے کے لئے لیاقت علی عاصم نے کمال مہارت سے ہر تصویر کا پسِ منظر بدل دیا ہے۔
کئی عکسِ ماہِ تمام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو خواب سے لبِ بام تھے مجھے کھا گئے
لیاقت علی عاصم کے ذھن میں جس طرح اپنی تکمیل کا ایک خاکہ موجود ہے اسی طرح ان کی لوحِ دل پر اعلیٰ اقدار سے آراستہ، مطمئن معاشرے کا عکس بھی کندہ ہے،ایسا سماج ان کا آئیڈل ہے جہاں امن ہو،علم ہو یعنی وہ اپنے معاشرے کو ہر حال میں فطرت کے طابع دیکھنا چاہتے ہیں۔
لیاقت علی عاصم نے اپنے فن اور زندگی کی سمت کاتعین کر لیا ہے اس لئے ان کی غزل کہیں بھی بے سمتی کا شکار نہیں ہوتی،وہ ارتقا کے قائل ہیں وہ منزل تک سرعت کے ساتھ نہیں پہنچنا چاہتے بلکہ وہ شعرو فن کی منازل قدم قدم طے کرتے نظر آتے ہیں۔وہ ماحول کی تاریکیوں میں
اپنے وجود کو معدوم کرنے کی بجائے انہیں اپنے مشعلِ فن کی دھیمی لو سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اوراس ساری مشقتِ سخن کا مرکز ان کی اپنے فن اور اپنی ذات کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔
لیاقت علی عاصم شاعری میں زندگی کی کلیت کے قائل ہیں اس لئے ان کے نزدیک زندگی کے سارے عناصر ایک جیسے اہم ہیں اور غزل میں راہ پا سکتے ہیں۔بعض ادیب آج بھی غزل کے سیپ میں صرف لطافت اور نزاکت کے موتی دیکھنا چاہتے ہیں یعنی وہ صرف سماوی رفعتیں ہی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن لیاقت علی عاصم کی شاعری سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے نزدیک کوئی بھی موضوع شجرِ ممنوعہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا غزل کی ہمہ گیری اور وسعت پذیری سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل میں زمینی موضوعات کو آسمانی اسلوب عطا کیا ہے اور عام زندگی کی عام سی تصویروں کو تغزل میں سجا کر حسین تر بنا دیا ہے۔اپنے اسی شعرو فن کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں۔
تمہاری طرح سے لکھتا تو مٹ چکا ہوتا
یہ میں جو ہوں یہ روایات کا ثمر ہے میاں

 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE