Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

 تمہیں میں جیت لاؤں گی

 

رضا صدیقی
مردوں کی اس دنیا میں جہاں ہر سو منافقت، پھیلی ہوئی ہے،رخسانہ سحر خم ٹھوک کر کہتی ہیں۔
ہو تم سورج محبت کے، سحر مجھ کو بھی کہتے ہیں
اندھیروں کو مٹاؤں گی، تمہیں میں جیت لاؤں گی
رخسانہ سحر کا تعلق شہر مجید امجد ساہیوال سے ہے، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسلام آباد منتقل ہوگئیں۔ جس طرح پروین شاکر کی خوشبو اسلام آباد سے ہوا کے دوش ہوئی اور چہار سو پھیل گئی اسی طرح چھوٹے شہر سے بڑے شہر کی ہجرت رخسانہ سحر کو راس آ گئی اور ان کا فن نکھرنے لگا۔ ’’تمہیں میں جیت لاؤں گی‘‘ رخسانہ سحر کا دوسرا مجموعہِ کلام ہے اس سے پہلے وہ ایک مجموعہ ’’ہرپل میرے ساتھ ہو تم‘‘ کے ساتھ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔
رخسانہ سحر کے اس مجموعہِ نو کے ابتدائی ایک چوتھائی حصے کو مردوں نے لکھا ہے اور نسائیت کے ہر ممکنہ پہلو کو تلاش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رخسانہ سحر کی شاعری پہلے سے بہتر ہے لیکن احساس سے اظہار تک، لفظیات سے موضوعات تک، وہ منزلیں جہاں بہت سے چراغ روشن ہیں اور جن کی آرزو کی جا سکتی ہے، ابھی وہ منزل رخسانہ سحر سے بہت فاصلے پر ہے۔
مردوں کی اس رائے کے برعکس رخسانہ سحر کہتی ہیں۔
مجھے اپنی ہستی کا 
ذرا ادراک کرنا ہے
مجھے جیون کے ورثے سے خود اپنا حصہ لینا ہے
مجھے بس اتنا کہنا ہے
مجھے اب خود سے جینا ہے
ٰیگانہ کا کہنا ہے
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
ادب سماجی عمل ہوتے ہوئے بھی سرشت میں فرد کا لاشعوری اور وجدانی عمل ہے۔ اور اسے جانچنے، پرکھنے کے لئے محض خارجی معیارات یا علمی پیمانے کارآمد نہیں ہوتے۔عام طور پر زندگی کے مشاہدات و تجربات کے موثرو خوبصورت تخلیقی اظہار کو ادب کا نام دیا گیا ہے اور یہ جس قدر فرد کی ذات اور داخلیت سے ہم رشتہ ہو گا اسی قدر دل آویز و کارگر ہوگا،ادب کا مظہر نثربھی ہوسکتی ہے اور شاعری بھی لیکن اس کارشتہ زندگی کی تاویلِ تعبیر اور ترجمانی و تفسیر کے ساتھ ساتھ انسان کے ارتعاشِ جذبات سے ہر حال میں جڑا رہنا چاہیئے۔
رخسانہ سحر کہتی ہیں ۔
چھائی تھی وفا دل میں مگر پھولوں کا موسم تھا
سو خوشبو کی طرح مہکی مری ہر بات گلیوں میں
فرد اور معاشرہ چونکہ زندگی کے مظہر ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی لئے لازم و ملزوم ہیں اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے، زندگی کے تخلیقی روپ کا نام ادب ہے۔ادب کی اس تفہیم سے قطع نظر ادب واحد اسلوبِ اظہار ہے جس میں لطیف سے لطیف اور کثیف سے کثیف واقعات اور خیالات کے علاوہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کی دل نشیں ترجمانی کی جا سکتی ہے۔ کثیف خیالات میں جنسیات کا تذکرہ آ جاتا ہے جیسا کے خواتین شعرا میں فہمیدہ ریاض کا نام لیا جا سکتا ہے خود رخسانہ سحر کے ہاں بھی بعض اشعار اسی قسم کا مفہوم لئے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے ہمارے بعض نقاد دوست اسے نسائی شاعری کا نام دیں لیکن میں اسے جنس کا اظہاریہ ہی کہوں گا۔
آج کی رات تو پہلو میں وہ سانول ہوگا
آج کی رات تو کمرے کو سنوارا جائے
یا ان کی نظم ’’مثال خوشبو‘‘ کی یہ چند لائنیں ملاحظہ کیجئے جو غنائیت کے ساتھ ساتھ کثیف جذبات کو لطیف پیرائے میں بیان کرتی نظر آتی ہے۔ یہ رخسانہ سحر کا کمالِ فن ہے۔
سو میں نے خود کو ترے بدن میں
مثالِ خوشبو اُتار ڈالا
بدن بظاہر تو ہے تمہارا
مگر میں اس میں مچلتی خوشبو
لطیف جذبات میں محبت کی شاعری کا ہر پہلو آ جا تا ہے ماسوائے جنسیات کے۔ محبت کے پھول چاندنی رتوں میں ایک سحر کی سی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔جس سے رخسانہ سحر گوہرِ نایاب نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اردو شاعری کی تاریخ گواہ ہے کہ شروع سے اب تک ہماری شاعری کا بنیادی موضوع محبت رہا ہے۔یہ محبت کبھی خواب ہے تو کبھی عذاب، کبھی اس کی ہلکی ہلکی پھوار سے من بھیگا۔کبھی یہماورائی اور عشق کی تپسیا میں اللہ ہو کا درجہ پا گئی۔کبھی چھو لینا اور پا لینا ہی اس کی آدرش ٹہری۔ رخسانہ سحر محبت کی شاعرہ ہے۔
فیض احمد فیض کا کہنا ہے کہ شاعر شاعری نہیں کرتا،عشق نہیں کرتا، وہ اپنی تکمیل کرتا ہے۔ جو عشق و محبت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی کیونکہ عشق ایک مکمل کائنات ہے جو تجربات، مشاہدات اور انسانی نفسیات سے بھری پڑی ہے۔عشق کرنے والا جس سے عشق کیا گیا ہو اس کی وفا، اس کی بے وفائی، اس کے لب و لہجے،اس کی ادائے ناز،اپنی بے تابی، اور بے چینی کو اپنے من میں سمو لیتا ہے۔

تعمیر کر رہی ہوں محلاتِ آرزو
اُجڑے ہوئے دیار سجانے لگی ہوں میں
رخسانہ سحر کی شاعری کے مضامین کا قابلِ ذکر پہلو خوبصورت اسلوب اور نرم و رواں لہجہ ہے۔رخسانہ سحر چونکہ اچھی شاعرہ ہیں اس لئے ان کا شعری مزاج محبت کے بیانات میں رنگ و خوشبو کا اضافہ کرتا ہے۔ان کی شاعری کو پڑھنے سے مثنوی زہر عشق کی جمالیاتی اور معنوی افادیت پر اعتبار آ جاتا ہے۔محبت کی کلاسکس کے سلسلے میں رخسانہ سحر کا یہی اسلوب وقت کا تقاضاہے۔
میں تجھ سے اپنے خدوخال کو سنوارتی ہوں
مری نظر میں کوئی اور آئینہ بھی نہیں
محبت کے فسانے سے کہانی مانگ لیتے ہیں
نئے موسم سے کچھ یادیں پرانی مانگ لیتے ہیں
کرتی ہوں محبت میں جسے قلب و جگر سے
دنیا اسے دیکھے تو کبھی میری نظر سے
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE