تحریر رضا صدیقی
کوفہِ سخن
جو دیکھتا ہوں دیکھا رہا ہوں زوالِ
فردا کے آئینے میں
میں سرخ رنگوں سے آسماں پر لہو کے
منظر تراشتا ہوں
یہ شعر ہے شمس الغنی کا جو ساری عمر
ہندسوں سے کھیلتے رہے اور اس سلسلے میں آخری عہدہ جو ان کے پاس تھا وہ حبیب
بینک کے وائس پریذیڈنٹ کا تھا ۔انہوں نے معاشیات اور مالیات پر 300 سے زائد
مضامین تحریر کئے جو انگریزی جریدےPakistan & Gulf Economistمیں شائع
ہوئے۔ابھی تقریبا دو سال قبل سن2012میں ان کا پہلا شعری مجموعہ،،سانپوں کا
نگر،، اشاعت پذیر ہوا۔ان کا ایک انگریزی ناول زیرِ ترتیب ہے اس کے علاوہ
اردو کے پانچ بڑے شعراء کے تقریبا 700اشعار کا انگریزی ترجمہ زیرِتکمیل ہے۔
کوفہِ سخن کے نام سے ان کا تازہ
مجموعہ زیرِ استفادہ ہے۔ کوفہِ سخن بڑا معنی خیز نام ہے،کوفہ والوں کی
منافقت نے واقعہِ کربلا کو جنم دیا۔تاریخ میں کوفہ علامت ہے منافقت کی،اسی
مناسبت سے شمس الغنی نے ادب میں انحطاط پذیری اور منافقت کو کوفہِ سخن کا
نام دیا ہے۔شمس الغنی کتاب میں تحریر کردہ اپنے ابتدائیہ میں لکھتے
ہیں:،،کارِ منافقت حصہ دوم حاضر ہے۔اپنے پہلے شعری مجموعے ،، سانپوں کا نگر،،
میں، میں نے شاعری کو منافقت کہا تھا۔میں اپنے اس بیان پرقائم ہوں۔،،
کتاب کا منافقانہ پن یہ ہے کہ شاعری
کی کتاب کا سارا ابتدائیہ مالیاتی ریشہ دوانیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ابتدائیہ
پڑھتے ہوئے کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ایک شعری مجموعہ ہے بلکہ
یوں لگتا ہے جیسے علامہ محمد اقبال کی کتاب ،،الاقتصادیات ،، کا دیباچہ
ہو،البتہ انہوں نے کمال مہربانی سے یہ ضرور تحریر فرما دیا ہے کہ ہمارے ادب
اور غیر ملکی ادب کے درمیاں ایک واضح disconnectموجود ہے ۔ہم آج بھی
انیسویں اور بیسویں صدی کا ادب لکھ رہے ہیں۔ پچھلے چار عشروں میں عالمی سطح
پر جو ہولناک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کا ادراک ہمارے اکثر لکھنے والوں
کو نہیں ۔آج کا با مقصد ادب لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں دنیا کے
معاشی،مالیاتی اور عمرانی مسائل کا علم ہو۔،،انہوں نے یہ فرما کر ہندوستانی
نقادوں کی اس سعی پر پانی پھیر دیا ہے کہ غزل مشکل ہے اوریہ ہر قسم کے
مضامین کو خود میں سمونے سے قاصر ہے ۔اپنے ابتدائیہ کے بعدشمس الغنی نے غزل
میں ایک معیاری مواد پیش کیا ہے۔اردو غزل نے ہر دور میں غزل کی مخالفت کرنے
والوں کی سہل پسندی کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔وسعتِ معنی اورتاریخی حوالے سے
نظم میں جہاں اوراق درکار ہوتے ہیں،ان کا یہ شعر دیکھئے اور نظرِ بینا سے
دیکھئے کہ شاعر کیا کہہ رہا ہے۔
ایک ہجرت کرو پھر میرے مدینے کی طرف
قومِ گمراہ کو تعلیمِ حرا دو سائیں
واضح ہو ذہنِ عشق پر حدِ مکان و
لامکاں
ازروے حرفِ کن فکاں، مکتوبِ لوح تھا
یہی
شمس الغنی نے زیادہ تر غزلیں غیر
مانوس بحروں میں کہی ہیں،ہاں بعض جگہ علامہ اقبال کی کامل مثمن سالم
بحر،،کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں،، اور فیض احمد فیض،، وہ
بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا کیا،، والی بحر میں کمال شعر
کہے ہیں۔
درِ حسن پر جو کشیدہ ہیں،وہ بدن نزار
ودریدہ ہیں
وہ جو حسنِ شامِ حریم تھے،وہ یہاں سے
کب کے چلے گئے
ہیں نشانِ طائفِ بے اماں، یہ سوادِ
کوفہ کی وادیاں
وہ جو کربلا کے مقیم تھے،وہ یہاں سے
کب کے چلے گئے
یہ ہے دشتِ دشنہِ خوں طلب،یہ ہے ارضِ
فرقہِ بولہب
وہ رشکِ وصفِ کریم تھے،وہ یہاں سے کب
کے چلے گئے
یہ ہجومِ چہرہِ بے نشاں، یہ نمود و
فسق کی بستیاں
وہ جو شانِ فقر و گلیم تھے،وہ یہاں
سے کب کے چلے گئے
شمس الغنی کا شبستانِ غزل تہذیب و
شائستگی، تکمیلِ ذات اور احترامِ آدمیت کے چراغوں سے فروزاں نظر آتا ہے۔ان
کی غزل کثیرالموضوعات اور کثیر المضامین ہے۔ان کے ہاں عشق کے مضامین جذبے
کی تقدیس کے وسیلے سے بیاں ہوتے ہیں،جسمانی اور مادی تلازموں کی جگہ غزل کا
رشتہ جمالیاتی رویے سے استوار ہے۔ان کی غزل میں فرد کی الجھن،ذہنی اور
نفسیاتی صورتِ حال، دکھ سکھ، چاہت، نفرت ایسے متنوع رنگ عکس پذیر ہیں اور
یہاں فرد کے مسائل کی سچی تصویروں کے ساتھ ساتھ اجتمایت کے منظر نامے بھی
ملتے ہیں۔
شمس الغنی کی غزل کی انفرادیت کا ایک
بڑا عنصر تاریخ و تہذیب،روایات و اساطیر، مذہب و سماج کی روح کو شعر کے
قالب میں سمونا ہے۔انکی نظر ماضی کے سرمئی بادلوں میں سے برق کی طرح گذرتی
ہے،میں نے شروع میں معنی کی وسعت کے اعتبار سے چند اشعار درج کئے ہیں ان
ماضی کے جھروکوں کو حال میں دیکھئے کہ وہ گزرے ہوئے لمحوں کو کیسے زنجیر
کرتے ہیں اور کہیں خود گزرتے ہوئے لمحوں کے آشوب میں مبتلا فضاوں کے اسیر
دکھائی دیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ شمس الغنی کے ہاں
رومانی احساس کی چھاپ زیادہ گہری نہیں، تاہم زندگانی کی حقیقت کے چہرے کو
بے نقاب کرنے اور اس کی روح کے پاتال میں اترنے کے لئے ان کی غزل میں ایک
جمالیاتی رویہ ضرور ملتا ہے۔ان کے ہاں امیجزاور استعارے بھی عموما رنگیناور
معطر نہیں ہوتے پھر بھی وہ اکثر جگہ بحر و آہنگ کی خوشگوار غنائی فضا اور
الفاظ کے صوتی حسن سے شعر میں جمالیاتی رویے کو برقرار رکھتے ہیں۔
شعر کے وسیع مطالعہ کے بعد میں اس
نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نظم کی نسبت غزل کسی شاعر کی پرکھ کا زیادہ ٹھوس اور
جامع وسیلہ ہے کیونکہ نظم کا موضوع شاعر کے اظہاری پیمانوں کو محدود کر
دیتا ہے جبکہ غزل کے موضوعات کا تنوع شاعر کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور
اظہار کا موقع دیتا ہے،نظم کا شاعر اکثر موضوعات کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے
جبکہ غزل کا شاعر نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور غزل کے کینوس پر پورا شاعر
نظر آتا ہے، غزل کا ہر شعر ایک نظم ہوتا ہے۔پوری غزل پڑھنے کے بعد احساس
ہوتا ہے کہ ہم کیف و سرور کے کنِ منطقوں سے گذرے ہیں اور ہم نے بہت سے
موسموں کا رنگ دیکھا ہے۔شمس الغنی کی غزل میں مجھے پورا شاعر نظر آیا ہے۔
نہیں کہ میر سا طرزِ نگارش چاہتے ہیں
بس اک کوشش سخن کی ہے ، ستائش چاہتے
ہیں
|