|
احمد منظور
Ahmed Manzoor, Mumbai, India ahmedmanzooor@gmail.com
گلاب خواہش
فضا میں چاروں طرف دھواں ہی دھواں بھرا تھا سبھی مناظر تھے خواب منظرکہ جن کو دیکھیں تو جی میں آئے کہ ہاتھ اپنے بڑھاکے چھولیں مگر بڑھے جب بھی ہاتھ میرے تو میں نے دیکھا کہ خواب منظر مری پہونچ سے ہیں دور اتنے کہ جتنا دھرتی سے آسماں ہے گمان گذرا یہ خواب پیہم عذاب شاید کبھی نہ ٹوٹے مگر تبھی اس زمیں کے سینے میں نرم خواہش نے سر ابھارا گلاب مہکے اے کاش کوئی گلاب مہکے زمیں کے سینے کی نرم خواہش نے روپ دھارا گلاب مہکا،شباب مہکا، شتاب مہکا فضا کا سارا دھواں، دھویں کی گھٹن، گھٹن کی تمام تر سازشوں کے پردوں کو چاک کرکے وہ نور نکلا کہ جس نے دھرتی سے آسماں تک تمام مہتابیاں کھلادیں گلاب کانٹوں پہ کھل رہا تھا مگر لبوں پر وہ موہنی مسکراھٹوں کی حسین پریاں سجا رہا تھا گلاب مظہر روایتوں کا گلاب گلشن کا پاسباں تھا وہ رہنما تھا، وہ راہبر تھا جو اب بھی دنیا میں چلنے والی ہوا کی سانسوں میں گونجتا ہے جو اب بھی کھیتوں میں اگنے والی ہر ایک بالی سےجھانکتا ہے یہ دیکھتا ہے کہ اب بھی گلشن فضا میں چاروں طرف دھواں ھی دھواں بھراہے میں سوچتا ہوں کہ کاش میری بھی خواہشیں روپ دھار سکتیں تو میں بھی کھتا گلاب مہکے شباب مہکے شتاب مہکے
اے کاش کوئی گلاب مہکے
|