|
احمد ندیم قاسمی کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا ............................. شاعر احمد ندیم قاسمی خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
.............................. احمد ندیم قاسمی بولنے دو بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟ بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے مرے ہونے کی تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی بولی ہی میں بول اٹھوں گا میں تو بولوں گا نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا بولنا ہی تو شرف ہے میرا کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے کہ فرشتے بھی نہیں بولتے میں بولتا ہوں حق سے گفتار کی نعمت فقط انساں کو ملی صرف وہ بولتا ہے صرف میں بولتا ہوں بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مرے جسم کا ایک ایک مسام بول اٹھے گا کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا
|