|
افتخار عارف فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو وہ کیا بہار کہ پیوندخاک ہو کےرہے کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو کہاں ہے اور خزانہ ، بجز خزانہ ِخواب لٹانے والا لٹاتا رہے ، کمی بھی نہ ہو یہی ہوا یہی بے مہر و بے لحاظ ہوا یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو ملے تو مِل لئےبچھڑے تو یاد بھی نہ رہے تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو . |