|
ناصر کاظمی دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا یاد نے کنکر پھینکا ہوگا آج تو میرا دل کہتا ہے تو اس وقت اکیلا ہوگا میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے اوروں کو خط لکھتا ہوگا بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں تو اب تھک کے سویا ہوگا ریل کی گہری سیٹی سن کر رات کا جنگل گونجا ہوگا شہر کے خالی اسٹیشن پر کوئی مسافر اترا ہوگا آنگن میں پھر چڑیاں بولیں تو اب سو کر اٹھا ہوگا یادوں کی جلتی شبنم سے پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا موتی جیسی شکل بنا کر آئینے کو تکتا ہوگا
ناصر کاظمی
آج تو
بے سبب اداس ہے جی جلتا
پھرتا ہوں میں دوپہروں میں وہیں
پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر چھپتا
پھرتا ہے عشق دنیا سے ہم
نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے آج
تووہ بھی کچھ خموش سا تھا ایک
دم اُس کے ہونٹ چوم لیے اک دم
اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا تو جو
اتنا اداس ہے ناصر
|