Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

ناصر کاظمی 

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے

تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے

اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں

تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر

رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر

کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں

تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے

پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر

آئینے کو تکتا ہوگا

ناصر کاظمی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

 

 
 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE