|
پروین شاکر عکس ِخوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی کانپ اٹھتی ہوں یہ سوچ کے تنہائی میں میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی کوئی آہٹ ،کوئی آواز ، کوئی چاپ نہیں دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں ، آئے کوئی پروین شاکر آنکھوں سے میری کون مرے خواب لے گیا چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ کِس دل زدہ کا گریہ ءخونناب لے گیا کچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا ک چھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیاواں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا |