|
ریحانہ روحی
تیری گلی کو چھوڑ کے جانا
تو ہے نہیں
دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ
تو ہے نہیں
جی چاہتا ہے کاش وہ مل جائے راہ
میں
حالانکہ معجزوں کا
زمانہ تو ہے نہیں
اس گھر میں اس کے نام کا کمرہ
ہے آج بھی
جس کو کبھی بھی لوٹ کے آنا تو
ہے نہیں
ساری حدوں کو چھوڑ دوں شہرت کے
واسطے
اب ایسا ویسا میرا گھرانہ تو ہے
نہیں
حیران ہوں میں کیسے وہ بچ کے
نکل گیا
اتنا خراب میرا
نشانہ تو ہے نہیں
شاید وہ رحم کھا کے
تری جان بخش
دے
قاتل ہے کوئی دوست پرانا تو ہے
نہیں
اشکوں کو روحی خرچ کرو دیکھ
بھال کے
آنکھوں کے پاس کوئی خزانہ تو ہے
نہیں
|