|
محمد سلیم طاہر کہاں کب فرق پڑتا ہے کسی کے آنے جانے سے کئی کردار ہوتے ہیں کہانی میں فسانے میں بہت سے رنگ بادل اور پرندے لوٹ جاتے ہیں کئی موسم بہت تاخیر کر دیتے ہیں آنے میں بہت سے دوستوں کا روٹہ جانا راز رہتا ہے انہیں ناراض جانا ہوتا ہے اگلے زمانے میں زمانہ اپنے ہاتھوں اپنا چہرہ ڈھانپ لیتا ہے کئی صد یاں گزر جاتی ہیں یہ پردہ اٹھانے میں سر ِمیداں نہیتا آدمی بے خوف ہوتا ہے مگر اک خوف ہوتا ہے کہیں خفیہ ٹھکانے میں جہاں دریا گزرتا ہے نشانی چھوڑ جاتا ہے بہا کر ساتھ لے لے جاتا کیا کچھ آبیانے میں خزانہ خالی کر دینے میں کتنی دیر لگتی ہے یہاں تو عمر لگ جاتی ہے دو پیسے کمانے میں |