|
شہزاد احمد
دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں
ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے
نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں
اپنی
ویسے تو کسی ٹھور ٹھکانے کے
نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے
کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں
ہم
اک درد کی دولت ہے جسے بانٹے
پھریے
مالک بھی کسی اور خزانے کے نہیں
ہم
تو نے تو ابھی کھیل کا آغاز کیا
ہے
کردار ابھی تیرے فسانے کے نہیں
ہم
اے خالق گل چاہیے کچھ اور بھی
وسعت
معمورہء عالم میں سمانے کے نہیں
ہم
کہتے چلے جاتے ہیں کہانی پہ
کہانی
اس قید سے باہر کبھی جانے کے
نہیں ہم
اس شہر کے اندر ہیں فصیلیں ہی
فصیلیں
اس قید سے باہر کبھی جانے کے
نہیں ہم
شہزاد دل و جاں پہ جو گذری ہے
قیامت
وہ زخم کسی کو بھی دکھانے کے
نہیں ہم
|