|
شوکت جمال
میکدے میں آج میں طوعاً و کرہاً آگیا درد سا دل میں اٹھا تو احتیاطاً آگیا
دل حقیقت میں کہیں آتا یا جاتا ہے نہیں
ہم کہا کرتے ہیں لیکن اصطلاحاً، آگیا
جب سنا کہ حضرتِ ناصح بھی میخانے میں ہیں میں قدم بوسی کو اُن کی احتراماً آگیا
عشق کرنے کے لئے لازم ہے اِس کی مشق بھی
یہ ہنر ایسا نہیں کہ اتفاقاً آگیا اپنے گھر آنے سے اس نے مجھ کو روکا تھا مگر غیر کو دیکھا تو میں بھی احتجاجاً آگیا آپ کی فرقت میں شوکتؔ جان بہ لب ہے ان دنوں
بس یہی میں عرض کرنے اطلاعاً آگیا
|