دبستان
ساھیوال
خواب نگر کا درویش شاعر.....گوہر ھوشیارپوری
تحریر: رضاالحق صدیقی
خواب دیکھنا، امید باندھنا،توقع رکھنا ھر زبان
کے ادب خاص طور پر اردو ادب میں بڑی رغبت سے آیا
ہے. یہ موضوع اس لئےبھی
ادبا میں مرغوب رھا ھے کہ خواب کو نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا گی
ھے.رسول خدا نے ارشاد فرمایا کہ نبوت منقطع ھو گئی اور سوائےمبشرات کے نبوت
کا کوئی حصہ باقی نہیں رھا. صحابہ اکرام نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ
مبشرات کیا ھیں(مبشرات کے معنی ھیں خوشخبری دینے والی چیزیں) جواب میں آپ
نبی اکرم نے فرمایا کہ "سچے خواب".یہ اللہ تعالی کی طرف سے مبشرات ھوتے ھیں
ا ور نبوت کا حصہ ھیں.
یوں تواردو ادب میں خاص طور پر شعرا حضرات نے
ھجرت ا ور خواب کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ھے لیکن گوہر ھوشیارپوری کے ہاں
خواب کا استعارہ اپنے معنوی اعتبار سے بڑی وسعت رکھتا ھے.
اے خواب بہ خواب ملنے والے
خوابوں سے اشارہ یاب کر دے
گوہر ھوشیار پوری کا یہ شعر ارشاد نبوی کی تفسیر
ھے.
گوہر ھوشیار پوری نے خواب کے استعارے کو جابجا
اپنی شاعری میں استعمال کیا ھے اور ہر جگہ خواب ایک نئے معنی کے ساتھ سامنے
آیا ھے.
کیا دیکھ لیا ھے خواب ایسا
دل کھل کے ہوا گلاب ایسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خواب کہ شب خراب کر دے
ایک خواب کہ ماھتاب کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل ھنر کے خواب گوہر
یہ
کام
کیسے
تمام
آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب تعبیر سے خالی نہ حیات
بات کہنے کو فسانہ ھی سہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوابوں میں گجر سنائی دینا
آغاز
نہ
ہو
شب
دگر
کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادوں کے کتابچے تو کھولو
ناخواندہ ھیں خواب کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھپکیں بھی تو کیا کہ آنکھ کب سے
بیگانہ
خواب
ھو گئی
ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب اتنے بہت نہ دیکھ اے دل
کیا عداوت ھے اپنے ساتھ اپنی
گوہر ھوشیار پوری اپنے دھیمے ھیمے لہجے کے ساتھ
دبستان ساھیوال کا اھم ترین شاعر اور مجید امجد کا ھم عصر ھے. گوہر ھوشیار
پوری کی شاعری میں خواب شعروں کی تفہیم انہیں درویشی کی بلندی پر لے جاتی
ھے.
گوہر ھم درویش بھلے
تم اپنی اوقات کہو
انگریزی ادب کے مشہور شاعر اولیورگولڈ اسمتھ نے اپنی کتاب" سیٹیزن آف دی
ورلڈ"مین
لکھا کہ کتابوں کے قاری کتاب خریدنے سے پہلے دیباچہ دیکھتے
ہیں کہ کس نے تحریر کیا ھے انہیں اس بات سے کوئی
غرض نہیں کہ ادیب یا شاعر نے کیسا ادب پیش کیا ھے.کتاب کے
قاری کے بارے میں گولڈ اسمتھ کا یہ طنز ھمارے عہد پر بڑا
پر مغز ھے خاص طور پر چھوٹے شہروں میں پروان چڑھنے
والے بڑے ادب کے بارے میں- لیکن کوئی ادیب یا شاعراپنی
کتاب کی اشاعت کے وقت یہ کہہ کر دیباچہ شامل نہ کرے کہ "
جس نے پڑھنا ھے وہ بغیر دیباچہ کے بھی پڑھ لے گا"
بڑے شہروں یا میڈیا سینٹروں کا کوئی شاعر یا ادیب ایسا
کہے تو کوئی انہونی نہی جیسا کہ عبدالحمید عدم نے کہا
لیکن چھوٹے شہر میں رھتے ھوئے
یہ بات کہنا بڑے
حوصلے کی بات ھے- 1986 میں گوہر ھوشیار پوری کا مجموعہ کلام " بساط
" چھپنے جا رھا تھا تو ھم دوستوں نے گوہر
صاحب سے کہا کہ دیباچہ ضرور شامل ھونا
چاھئے تو وہ یہی جواب دے کر خاموش ھو گئے اور "بساط" بغیر
دیباچے کے چھپ گئی- اور 1998
میں صبیحہ صبا نے اپنی کتاب "لفظ بنے تصویر" یں اپنے اعتماد کی بنا پر
دیباچہ شامل نہی کیا شاید یہ
بھی دبستان ساھیوال کی ایک خصوصیت ھے.-
گوہر ھوشیار پوری کا شمار مجید امجد کے عہد کے
ان معدودے چند شعرا میں ھوتا ھے جنہوں نےزیادہ تر چھوٹی بحر استعمال کیں
اور غزل کے امکانات کو وسیع کیا اور اپنی شاعری کی ندرت سے اسے قبول عام کے
درجے تک پہنچایا.
دھیمے دھیمے جذبے اور شاعری کی ہنرمندی نے ان کی
شاعری میں بے ساختگی پیدا کر دی ھے.
یہ نم ، یہ رنگ ، یہ خوشبو سدا رھے گوہر
مرا وطن ، مرے موسم ، مری غزل کے غزال
غزل کا بنیادی مرکزہ تغزل ھے، الفاظ کی موزوں
بندش، روانی اور لہجے کا ترنم، سننے والے کو محسوس کراتا ھے کہ جیسے جھرنوں
سے پانی بہہ رھا ھو، گوہر ھوشیار پوری کی شاعری کا بھرپور لہجہ پڑھنے والے
کو اسی تغزل کا احساس دلاتا ھے.
گوہر ھوشیار پوری کی چند
غزلیں :
اس روزن سے روشنیوں کی پھوار گرے
دیکھیں کب یہ دوری کی دیوار گرے
دل میں قرب کی خواھش لے کر نکلے تھے
اک کھڑکی سے رات کے مسلے ھار گرے
کون سلامت گذرا پیار کی گھاٹی سے
اس اونچے پربت سے کتنے یار گرے
کندن ھوگئی شام شفق گون چہروں سے
شاخ افق سے صد ہا سرخ انار گرے
گوہر ان کو بھول کے عرصہ ہجر کٹا
آپ گرے لیکن دشمن کو مار گرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت آتا ھے یا تو مرنے کا
یا پھر آتا ہے عشق کرن کا
آدمی لب تو کھول لیتا ھے
دم تو ھو بات کر گذرنے کا
کون آیا ادھر کہ وقت آیا
قسمتیں جاگنے سنورنے کا
حسن مٹی بھی ،حسن سونا بھی
جس کو فن آ گیا نکھرنے کا
پار اتر کر بھی دیکھتے کیا ھیں
خواب دیکھا ھے پار اترنے کا
پھول نے دل کا بوجھ بانٹ لیا
ٹوٹنےَ ٹوٹ کر بکھرنے کا
کس کی خاطر تھر گئے گوہر
کیا
مقام آ گیا ٹھرنے کا
خوشبو سے جو بھاگتے بہت تھے
ہر پھول کو دیکھتے بہت تھے
پتھرائے ھوئے کہیں ملیں گے
کچھ لوگ جو سوچتے بہت تھے
یوں بات پہ زور تھا کہ جیسے
ھم بات کو جانتے بہت تھے
کون اس کے بغیر جی سکے گا
اس جھوت کو مانتے بہت تھے
کیا کیا تھے شکار گمرھی کے
جو دیکھتے بھالتے بہت تھے
چابک سا ھوا کے ھاتھ دیکھو
ھم لوگ بھی ڈولتے بہت تھے
خوابوں سے اماں طلب ھو گوہر
مرنا تھا تو راستے بہت تھے