Urdu Manzil


Forum
Directory

 

Overseas Pakistani
 

داستاں سرائے

شش جہت پھیلتا ہواشہرعجیب شہرتھا۔
صبح ہوتی کہ شام ،دن ہوتا یا کہ رات آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا
ملک ملک سے آئے ہوئے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ہر رنگ، ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ برسوں سے اس شہر میں قیام پذیر تھے۔کام وافر تھا۔کام کے دام مناسب تھے۔جو جتنا کرے،اتنا پائے۔جو جس کا کھائے ،اس کا گائے ۔کھانے ،پینے اور پہننے کی ہر ضروری شے افراط سے دستیاب تھی ۔مہنگی چیز خریدنے والا مہنگی چیز خرید تا تھا۔سستی اشیاء خریدنے والابازار میںسستی اشیاء وافر مقدار میں پاتاتھا۔اک حسنِ ترتیب نے شہر کو چار دانگ میں بے مثال بنا دیا تھا۔
جو کچھ کوئی پینا چاہتا تھا ،پیتا تھا۔
جو کچھ کوئی کھانا چاہتا تھا،کھاتا تھا۔
جو کچھ کوئی پہننا چاہتا تھا ،پہنتا تھا۔
اپنی مرضی کاکھانے ،پینے اورپہننے پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ہرکوئی اپنی مرضی سے ہنس،رو اور سو سکتا تھا۔البتہ دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی سخت ممانعت تھی ۔ڈنڈا تھا اور سب کچھ ٹھنڈا تھا۔امن و آشتی کادَور،دَورہ تھا۔قانون کی بالا دستی تھی۔خلقِ خدا،حد سے زیادہ نہ تو روتی تھی اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ ہنستی تھی۔جرم کر کے جرم کرنے والے کا بچ جانا محال تھا۔بھینس، بھینس والے کی تھی۔دودھ، دودھ والے کا تھا۔دودھ میں پانی نہیں تھا۔بڑا بول نہیں تھا ۔کم تول نہیں تھا۔سونے میں کھوٹ نہیں تھا۔الیکشن اورووٹ نہیں تھا۔اخبارات جرم و سزا ،زور و زیادتی اور اُکسانے والے الفاظ کے عدمِاستعمال کے باوجود بھی خریدے اور پڑھے جاتے تھے۔طروں والے نظریں نیچی کئے ٹوپی والوں کے پاس سے گزر جاتے تھے ۔حسبِ کوشش ہر کسی کے پاس رخت تھا اورہر کوئی اپنے اپنے حال میں مست تھا۔زمین شور اورزیرِ زمین پانی کڑوا تھا،پھر بھی شہر ہرا بھرا تھا۔اہلِ انتظام کا انتظام کھرا تھا۔
ہاں،ایک بات ضرور تھی ۔ہر پل اور ہر سو پھیلتے ہوئے اِس شہر پرکسی وسیع و عریض انتظارگاہ کا گمان ہوتا تھا۔ہر کوئی کسی نہ کسی انتظار کی اک عجیب اور نا محسوس ڈوری میں بندھا تھا۔خواہشیں اور خواب سند باد جہازی کے
’’پیرِ تسمہ پا‘‘کی طرح ہر کسی کے کاندھے پر سوار تھیں۔عجیب بات یہ تھی کہ کوئی بھی ان سے بیزار نہیں تھا بلکہ خوشی خوشی انہیں عام طور پرکندھوں پر اُٹھائے اورحالِ دل سب سے چھپائے پھرتا تھا۔
رات بھرسویرے سویرے کام پر جانے کا انتظار،کام پر جانے کے بعددن کے ختم ہونے کا انتظار، دن بھر کی بھاگم بھاگ کے دوران شام کا انتظار،جمعے کا انتظار،مہینے کا انتظار،سال کے ختم ہونے کا انتظار،سالانہ چھٹی کا انتظار۔ بہتررتوںکاانتظار۔غرضیکہ ہرکوئی انتظار کی کبھی نہ ختم ہونے والی کسی نہ کسی زنجیر میں بندھا ہواتھا۔
کھاؤ ،پےؤاور جےؤ۔
کام کرو،آرام کرو۔پیسہ کماؤاور گھر کو جاؤ
.مگرکون سے گھر ؟ گھرسے لوٹنے والے ہر شخص کی جھولی اپنے ملک کی مہنگائی کی نہ ختم ہونے والی کہانیوں سے بھری ہوتی ۔بار بار سنی ہوئی یہ کہانیاں ایک بار پھرسننے کے لئے واپس آنے والے کے اعزاز میں مہینوںمحفلیں جمتی رہتیں۔ہرکہانی کا آغازعموماً
’’سچ کہوں،اس بار میرا واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور گھر والے بھی یہی چاہتے تھے مگر۔۔۔۔‘‘کے جملے کے ساتھ اختتام ہوتا۔ایک عجیب سا ڈراورایک عجیب سا خو ف ہر کسی کو سچ کا سامنا کرنے سے باز رکھتا تھا۔لوگ نہت سلیقے کے ساتھ سچ بولتے اور جھوٹ سنتے تھے۔ اسی اگر مگر اور سچ جھوٹ میں دن مہینوں اور مہینے سالوں میںبدلتے جا تے تھے۔بڑی سڑکوں اوربڑی سڑکوں کے ساتھ قطار اندر قطار باندھے فلک بوس عمارتوں کے عقب میں بسی ہوئی بستیاں شکل و صورت میں تیسری دنیا کے کسی بھی شہر کی کچی آبادیوں سے مختلف نہیں تھیں۔کچھ سال پہلے کھجور کے پتوں سے بنی جھونپڑیوں کی جگہ پر حکومت نے سرکاری خرچے پر خاصے قبول صورت گھر بنا دئے تھے۔ گھروںکا ڈیزائن(DESIGN) بناتے وقت ،مقامی لوگوں کی بود و باش اور عادات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔مقامی لوگ کھلے آسمان تلے صحراؤں میں رہنے کے عادی تھے۔چنانچہ گھر وں کا تعمیر شدہ رقبہ، غیر تعمیر شدہ رقبے سے کم رکھا گیا تھا۔ڈیزائن بنانے والوں کا خیال تھا کہ ان گھروں میں رہنے والوں کا بیشتر وقت صحنوں میں گزرا کرے گا ۔کافی دنوں تک یہ روایت قائم رہی ۔کمرے میں ائر کنڈیشنرچل رہا ہوتا اور لوگ باہر گرم ریت پر چٹائیاں بچھائے قہوہ پیتے اور اور کجھوریں کھاتے رہتے اور پرانے دنوں کی باتیں کرتے رات کے بھیگنے اور محفل کے ختم ہونے کا انتظار کرتے رہتے ۔ مگرروایات کی ڈوری انہیں بہت دیر تک بدلنے سے روک نہ سکی۔ایک جفا کش معاشرے سے بہت آسودگی کے دنوں کی کایا کلپ نے انہیں بھی بدلناشروع کر دیا ۔پیسہ جہاں سے آتا ہے، اپنے ساتھ وہاں کا کلچر بھی لے آتا ہے۔بدلاؤ کا عمل پیسہ آنے کی رفتار سی کہیں زیاد ہ تیزہوتا ہے ۔بین الاقوامی کلچرپانی کے تیز ریلے کی طرح دنوں میں صدیوں پرانی روایات کے خس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے۔چنانچہ بدلتی ہوئی ضروریات اوربڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے گھروں کی استعمال میں نہ آنے والی کھلی جگہوںمیں ڈربہ نما کمرے بنا کر اورکرائے پر چڑھا کراضافی آمدنی کی صورت نکال لی ۔
رہائشی مکانوں کی قلت کی وجہ سے ان کمروں کاحصول بھی آسان نہیں تھا ۔کمرہ خالی ہونے سے پہلے ہی اُمیدواروں کی قطار لگ جاتی ۔ایک انار اور سو بیماروالا معاملہ تھا۔ بعض اوقات تو ایڈوانس بکنگ(
ADVANCE BOOKINGکی نوبت بھی آ جاتی ۔ ملحقہ غسل خانوں(ATTACHED BATH ROOMS) والے ان کمروں میں،جنہیں عرفِعام میں مکان کہا جاتا تھا،عموماًنصف درجن کنواروںBACHELORS) (کا رہائش پذیرہو جاناایک عام بات تھی۔ انہی کمرہ نما مکانوںمیں کہیں کہیںنئے شادی شدہ جوڑوںکو بھی رہنا پڑجاتا۔ دو سے شروع ہونے والا خاندان چند سالوں ہی میںدن دوگنی رات چوگنی ترقی کر کے دوگنا چوگنا ہو جاتا۔مرد سورج نکلنے سے پہلے کام کے لئے نکل جاتے ۔ اسکول جانے والے بچے صبح سویرے اسکول چلے جاتے ۔مردوں اور بچوں کے چلے جانے کے بعد عورتیںگھر میںکوئی کرنے کا کام نہ ہونے کی بنا پر دوبارہ بستر سنبھال لیتیں اور مردوں کی واپسی سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک سوئی رہتیں۔
Wلاکھوں کی آبادی والے شہرمیں دن بھر ہو کا عالم طاری رہتا۔عصر سے مغرب کے درمیانی وقت میں گلیوں میں زندگی کے آثار نظر آنے لگتے ۔رات کا کھانا کھانے کے بعدبازار کا رخ کیا جاتا۔چھوٹی بڑی سبھی دوکانیں گاہکوں سے بھر جاتیں ۔پرانے مال سے نجات حاصل کرنے کے لئے دوکان دار تخفیفات یعنی سیل SALEکا ہتھکنڈہ اپناتے ۔ہر موسم میں کسی نہ کسی دوکان میں سیل SALEلگی رہتی ۔سیل والی دوکانوں میں رات کوتوخاص طور پر تل رکھنے کی جگہ بھی نہ بچتی۔پرانی چیزیں گرم پکوانوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔ سینماؤں میں آخری شو کا وقت ہونے تک دوکانیںاور بازار لوگوںسے کھچاکھچ بھرے رہتے ۔
آخری شو کے شروع ہوتے ہی بازاروں کی چہل پہل ماند پڑنے لگتی ۔شو کے ختم ہوتے ہی گلی کوچے بھی سوجاتے۔روز یہی تماشا ہوتاالبتہ جمعے کی بات الگ تھی۔ اہم کام جمعے کی چھٹی کے دن تک رکے رہتے ۔جمعہ مردوں کے ڈٹ کر سونے کا دن بھی ہوتا ۔ ڈٹ کر سونے کے اس مقابلے کے دوران جب جب عورتوں کی آنکھ کھلتی ، وہ مردوں کو سرگوشیوں میںضروری کاموں کی یاد دلا تی رہتیں اورمردخراٹوں کے دوران ُ
مجھے یاد ہے ،مجھے سب یاد ہے ‘‘گردان دہراتے رہتے ۔
جمعے کی نماز سے ذرا پہلے جاگنے کا عمل شروع ہو جاتا۔کوئی غسل کر لیتااورکوئی وقت کی تنگی کی وجہ سے صرف وضوکر کے اور کوئی کوئی پانی کی تنگی کی وجہ سے محض تیمم کر کے مصلیٰ اٹھائے مسجد کی طرف بھاگتا ۔
’’ جہاں ہے اور جیسے ہے‘‘کی بنیاد پر نماز ادا کرتا اور ’’اللہ کا شکر ہے کہ نماز مل گئی‘‘
کا ورد کرتا ہوا واپس لوٹ آتا۔
جمعے کی نماز کے بعد ڈٹ کر کھانا کھایا جاتا اور پھر قیلولے کے بعد توجہ ضروری کاموں کی طرف مبذول ہو جاتی۔وقت کی کمی کی وجہ سے کام کم ہی نپٹ پاتے۔ہونے والے کام ہو جاتے ۔بچ جانے والے کام اگلے جمعے تک کے لئے ملتوی کر دئے جاتے۔
شب و روز جمعے اور جمعے اگلے جمعوں کی زنجیر میں اس طرح جڑے ہوئے تھے کہ سال، سالوں میںڈھل جاتے مگر اُن کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔عمریں گزر جاتیں مگرعمریں گزر جانے کابھی احساس تک نہ ہوتا۔کام اور آرام کی راحت کے بعدڈٹ کر کی ہوئی پیٹ پوجا کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیتی تھی ۔شام کے بعدکچھ فرصت ملتی بھی تو واقف کاروں سے میل ملاقاتوںکی نذر ہو جاتی ۔
چھڑے چھانٹوں کا احوال البتہ کچھ الگ تھا۔ان کے لئے جمعے کا دن اپنے اپنے پوسٹ بکس کھنگالنے اور اپنے اپنے خطوط نکالنے کا دن تھا۔ہر روزسینما کا آخری شو دیکھنے کے بعد کچھ اور سوچن
ے کا وقت ہی کہاں بچتا تھا؟میں توخیر تھا ہی کنوارہ ،بیوی کے بغیر رہنے والے بڈھے کھوسٹوں کا بھی یہی احوال تھا۔کچھ فرق تھا تو یہ کہ وہ مہینے دو مہینے کی بجائے ہر ہفتہ گھر پرٹیلی فون کیا کرتے تھے۔ابو ظہبی سے باہرٹیلی فون کرنا ،ان دنوںجوئے شیر لانے سے بھی مشکل کام تھا۔صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے ٹیلی فون کے دفتر جا کر رات کے لئے وقت پیشگی بک کرانا پڑتا تھا۔ بعض اوقات پیشگی بکنگ میں
بھی کئی دن لگ جاتے تھے۔الاٹ کردہ ،وقت پر جانے کے بعد بھی گھنٹہ دو گھنٹوں کا انتظار معمول کی بات تھی ۔چنانچہ وقت گزاری کے لئے کوئی ایک بندہ ساتھ رکھنا بھی ایک ضروت بن چکا تھا۔میرے دفتر کے ایک ساتھی وقفہ ء انتظارکے دوران گپ شپ کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے لیا کرتے تھے۔ ایک روزوہ صاحب اپنی بیوی سے ٹیلی فون پر باتیں کرتے کرتے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آگئے اور والہانہ اظہارِ محبت میں یہ بھول ہی گئے کہ وہ پبلک ٹیلی فون بوتھ میں کھڑے ہیں ۔ان کی اندر کی باتیں، درجنوں کان سن رہے تھے مگر وہ باتوں میں اتنے منہمک تھے جیسے کہ یہ باتیں اگر وہ آج ،نہ کہہ پائے تو پھرکبھی نہ کہہ پائیں گے ۔ دور کی لائنوں پر بلند لہجے میں بات کرنے کی مجبوری اور ان کا جذباتی پن ،بات چیت کا ایک ایک لفظ براڈ کاسٹ ) BROAD CAST (کررہا تھا ۔چھ منٹ پورے ہونے کے بعدوہ اپنی بات چیت ادھوری چھوڑکر بوتھ سے باہر آئے تووہاں پر موجود پوری خلقت کی نظریں ان کے
بوتھے (چہرے) پر جمی ہوئی تھیں۔ زمانہ شناس تھے ،لوگوں کا اس طرح مشکوک نظروں سے گھورنا کھٹکا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ ماجر ا کیا ہے؟ جب یہ معلوم پڑا کہ ان کے اظہارِ محبت کا حرف حرف عوام الناس تک پہنچ رہا تھا تو گھبرا کر بولے ۔


’’یار، یہ تو بہت برا ہوا۔باتیں بہت پرائیویٹ تھیں۔مجھے اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘
’’ یہ بات ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ آپ کے پرجوش لہجے سے توایسا لگ رہاتھا کہ آپ اپنی بیوی سے نہیں کسی اورسے بات کر رہے تھے؟ ‘‘ اس کے بعدوہ ،احتیاطاً، اپنی بیوی کے ساتھ اتنی آہستہ آواز میں گفتگو فرمانے لگے کہ دیکھنے اور سننے والوں کو ان کے چال چلن پر شک رہنے لگا۔حالانکہ پیرانہ سالی کے باعث ان کی چال میں کچھ کچھ لڑکھڑاہٹ تو تھی مگر چلن اس مقام پر تھا کہ حرام تو حرام ،حلال چیزیں بھی از خود حرام کے زمرے میں آنے لگی تھیں ۔ باتیں کرنے والوں کو باتیں کرنے سے کون روک سکا ہے؟جو وہ روک پاتے ۔انہوں نے اس شہرتِ بدکو مددِغیبی سمجھ کرکبھی تردید کا جھنجھٹ نہ پالا۔ان کا کہنا تھا کہ مفت کی شراب اگر قاضی کو حلال ہو سکتی ہے تومفت کی شہرت کیوںان کا حق نہیں ٹھہرتی ؟
ابو ظہبی سے العین جانے والی سڑک پر نئے روڈ پراجیکٹ پر اپنی تعیناتی سے پہلے مجھے مجھے اپنے پردیس میں ہونے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ابو ظہبی کے پر رونق بازاروں کے بر عکس یہاں
پرسڑک کے دونوں طرف چند عمارتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ضرورت کی کوئی چیز خریدنے کے لئے ابو ظہبی جانا پڑتا۔ تعمیراتی کمپنی کے کارکنوں کے علاوہ، وہاں پرنہ تو کوئی اوربندہ تھا اور نہ ہی بندے کی ذات تھی ۔ کئی ہفتوں تک میں اپنے کاروان میں پڑا پڑا، بستر توڑتا اور وقت گزارتا رہا ۔ ایک روز میں نے ان مشکلات کا ذکر ایک دوست سے کیا تو وہ ہنس دیا۔
’’ارے بھائی ،تمہارے قریب ہی ذرا سے پیدل فاصلے پرایک بڑی آبادی ہے،تم ضرورت کی ہر چیز وہاں سے خرید سکتے ہو اور رات کو سیر کرنے اور وقت گزارنے کے لئے وہاں جا سکتے ہو۔ شرط ہے تو کہ تم جرن یافور میں جا کر دیکھو۔‘‘
جرن یا فور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے تک مجھے اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ریت کے ٹیلوں
کے بیچوں بیچ ایک بڑے نشیبی میدان میںاتنی بڑی آبادی ،جنگل میں منگل کی جیتی جاگتی مثال تھی۔ ہزاروں نفوس پر مشتمل یہ آبادی ابو ظہبی سے العین جانیوالی بڑی سڑک سے محض دو ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر تھی مگر ریت کے ٹیلوں کی اُوٹ اور قدرے نشیب میں واقع ہونے کی وجہ سے آنکھوں سے اوجھل رہتی تھی۔ آبادی کے نوے فی صد سے زیادہ مکانات پلائی وڈ کے بنے ہوئے تھے۔سڑکیں کچی تھیں مگر بجلی ،پانی اور ٹیلی فون کی بنیادی سہولتیں باآسانی میسر تھیں۔ مرکزی سڑک کے دونوں طرف درجنوںدوکانیں تھیں۔دوکانوں سے ضرورت کی ہر شے دستیاب تھی۔واقفانِماضی و حال کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ جرن یا فور میں ڈھونڈنے پر
’’نایاب ‘‘اشیاء کا ملنا بھی نا ممکہاں! ایک قباحت ضرور تھی ۔ایک گھر آگ پکڑتا تو ارد گرد کے کئی گھر آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ۔گھروں کاسارے کا سارا سامان جل کر راکھ ہوجاتا۔ مگر مکانوں کا کم کرایہ ہونے والے ممکنہ نقصان کو قابلِ برداشت بنا دیتا۔ آتش زدگی کے بعد مکان کی دوبارہ تعمیربہت مہنگا سودا نہیں تھا۔تاہم گھروں میں ضرورت کا سامان ہی رکھا جاتا۔اپنی قیمتی اشیاء اور اہم کاغذات بشمول پاسپورٹ ابو ظہبی میں جان پہچان والے کسی شخص کے ہاںرکھوا دےئے جاتے۔
جرن یا فور کی ایک اور خصوصیت یہاں پر پائے جانے والے ایسے گھرانے تھے،جن کے سربراہ کوکسی وجہ سے جلدی میں
ملک بدر کر دیا گیاتھا۔بعض اوقات نادانستہ طور پر ان کے اہل و عیال پ یچھے رہ جاتے اوربعض اوقات وہ اپنے لواحقین کوبوجوہ پیچھے چھوڑ جاتے تھے ۔بے مرد کے ایسے خاندانوں کے کئی افراد کے پاس پاسپورٹ یا دوسرے قانونی کاغذات بھی نہیں ہوتے تھے ۔ ایسے بے سہارا خاندانوں کو مجبوراً کم کرائے والی بستیوں میں پناہ لینا پڑتی۔بے سہارا لوگ اچھے دنوں کی اُمید میں بُرے دن ہنس ہنس کر گزارتے رہتے ۔جرن یا فور میںایسے بے سہارا خاندان بہت تھے۔اَڑُوس پڑوس والے ،اس وقت تک، اُن کی کچھ نہ کچھ مالی اعانت کرتے رہتے ،جب تک متاثرہ خاندان کاکوئی بچہ جوان ہو کر کمانے کے قابل نہ ہو جاتا۔لوگوں کی اکثریت ایسے ضرورت مندوں کی مدد اپنا قومی اور اخلا قی فرض سمجھ کر کرتی مگر ایسے افراد کی بھی کمی نہیں تھی، جو ایسی بے سہارا عورتوں کے بارے میں چسکے دار با تیں گھڑنے اور پھیلانے کو معاشرے سے گندگی دور کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے رہتے۔کوئی اُن سے اِن باتوںکے درست ہونے کا ثبوت مانگ لیتا تو بات قہقہے میں اڑا دی جاتی ۔
’’ارے بھائیو!دیکھو،میرا یہ بھولا بھالا دوست !ثبوت مانگ رہا ہے ۔آپ ہی بتاؤ،ایسے کام کوئی گواہ ساتھ رکھ کر کرتا ہے۔ بات میں کچھ جھوٹ ہو بھی سکتا ہے مگر صاحبو! آگ کے بغیر بھی کبھی دھوٗاں اٹھا ہے؟ ‘‘
 ایسی ناگفتنی باتیں عموماً
’’ اللہ معاف کرے ‘‘ کہہ کر شروع اور ختم کی جاتیں ۔بات ’’بات کہنے کی نہیں ہے ‘‘ کہہ کر شروع کی جاتی اور نیند اُڑا دینے والی خیالی داستاں سنانے کے بعد ’’ویسے بات ابھی ختم نہیں ہوئی ‘‘ یا ’’میں صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہوں‘‘کہہ کر ختم کر دی جاتی۔بات تاش کی محفلوںمیں’’اللہ معاف کرے‘‘ کی قسم کے کردار باافراط پائے جاتے تھے۔ایسے افراد محفلوں کی زینت ہی نہیں، ضرورت بھی تھے۔ان کی یہ ’’منہ زبانی‘‘ دست درازیاںاور فسانہ طرازیاں’’خیالی ‘‘ جرائم کی فہرست میں آتی تھیں اورخیالی جرائم نا قابلِ دست اندازیء پولیس تھے۔روکھے سوکھے ماحول میں،وقت گزاری کے لئے کسی رنگین کردار کاہونا ضروری تھا۔اصلی تو تھے نہیں مجبوراً فرضی کردار ایجاد کر لئے جاتے تھے تا کہ بوقتِ ضرورت ان کا تذکرہ کر کے ’’لا حول‘‘پڑھی جا سکے اورمحفل جواں رکھی جا سکے ۔
] کہانی کارہونے کے ناطے سے مجھے ،جرن یا فور والوںسے ،متعارف ہو نے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔ پردیس میں
’’کام چلاؤ‘‘
قسم کی دوستیاں تیزی سے پروان چڑھتی اور ختم ہو جاتی ہیں ۔جب تک کام رہتا ہے، محفلیں رہتی ہیں۔جب تک محفلیں رہتی ہیں ،ساتھ رہتا ہے۔جب تک ساتھ رہتا ہے ،دوستی رہتی ہے۔کھیتوں اور کھلیانوںمیں فصلوں کی کٹائی کے دنوں میںنئی نئی دوستیاں بننابہت پرانی روایت ہے ۔آتے جاتے موسموں کی طرح یہ دوستیاں بھی فصلی ہوتی ہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بہت سے عملی محاورے بھی تعلق اورقطعِ تعلق کے باب میںاہلِ جفا کے ساتھ ہیں۔مثلاًچنوں کی کٹائی ختم ،دوستی ختم ۔کھیل ختم ،پیسہ ہضم۔رات گئی ،بات گئی۔اہلِہنر ضرورت پڑنے پر کیا کیا گنجا ئش پیدا کر لیتے ہیں۔
رات کاکھاناکھانے کے بعد میں ،چہل قدمی کرتا ہوا،جرن یا فور کے کسی ایک ڈیرے پر چلا جاتا ۔تاش کی بازی لگتی ،گپ شپ ہوتی ،شہر سے آئی ہوئی تازہ خبروں کا تبادلہ ہوتااور ابو ظہبی میں کوئی اچھی فلم لگی ہوتی تو اگلے روز اِسے دیکھنے کا پروگرام بنانے کے بعدمیری واپسی ہو جاتی۔ جمعرات کی رات تاش کے کھیل کے لئے مخصوص ہوتی ۔ عشاء کے بعدتاش کی محفل جمتی اور جمعے کی صبح تک جمی رہتی ۔ کھیل ختم ہونے کے بعد کبھی کبھارمیں وہیں لیٹ جاتا۔
 جرن یا فور میں رہائش پذیر،پاکستانی خاندانوں میں ایسے خاندان بھی کافی تعداد میں تھے،جن خاندانوں کے بچوں کی اکثریت نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔یہیں جمے ،پلے اور بڑھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ متحدہ عرب امارات کے قیام سے سالوں پہلے اس وقت یہاں آئے تھے،جب مہم جو لوگ پاسپورٹ اور دوسرے قانونی کاغذات کے بغیر ملکوں ملکوں گھوم لیا کرتے تھے اور یہ کوئی بہت پرانی بات نہی
ں تھی
 

 اس دور کی خاص بات یہ تھی کی ہر کوئی ہر کسی کو جانتا تھااور ہر کوئی ہر کسی کی مانتا تھا۔ایک ملک کے لوگ ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ۔ان لوگوں کے درمیان میری حیثیت ایک اجنبی کی تھی ۔ایک لحاظ سے ان کی بات ٹھیک بھی تھی۔ان کے مقابلے میں مجھے یہاں آئے ہوئے ،جمعہ جمعہ، آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے۔نو واروں کو کوئی انوکھی بات کر کے چونکانا ایک بے ضرر مذاق کے زمرے میں آتا تھا۔ ’’کل تم نے بازار جانا ہے ناں۔تو ایسا کرنا،چار من بطیخ ہندی لیتے آنا۔ہم چھ آدمیوں کے لئے کافی رہے گا ناں۔‘‘ ایک دوسرے کو بلند آواز میں کہتا ۔نیا آنے والا کان کھڑے کرتا ۔
’’آدمی چھ اور بطیخ ہندی چار من یعنی ایک سو ساٹھ سیر۔‘‘
اُس کے چہرے پر اُبھرنے والی حیرانی کا مزا لیتے ہوئے بات شروع کرنے والوں میں سے کوئی ہنس کر اُسے بتانے لگتا
’’ارے بھائی،یہ ہمارے والا من نہیں ہے۔اِدھر کا من چار سیر کا ہوتا ہے‘‘وہ ایک قہقہہ لگا کرنئے پکھیرو کی معلومات میں اضافہ کرجاتا۔
’’معلوم ہے ،بطیخ ہندی کیا ہوتا ہے؟‘‘وہ پوچھتا۔
’’کوئی انڈین پھل ہو گا‘‘
’’نہیں یار۔اپنا تربوز ہوتا ہے ناں،اِسے عربی لوگ بطیخ ہندی کہتے ہیں‘‘
ہر کوئی مجھے پرانے وقتوں کے رہن سہن ،پرانے لوگوںاور روگوں سے آگاہ رکھنااپنے فرض سمجھتا تھا۔
’’وہ دن بھی کیا دن تھے! ‘‘ایک مشترکہ تکیہ کلام تھا۔گزرے ہوئے دنوں کاطلسم پیچھا نہیں چھوڑتا تھا ۔اُن سنہری دنوں کی سنہری یادیں بس یادیں ہی تھیں۔اُن سنہری سالوں نے بھی کسی کے حالات کو بہتر نہیں کیا تھا۔اپنے حالات سے کوئی بھی مطمئن نہیں تھااور کسی کا بھی کوئی خواب پورا نہیں ہوا تھا۔کتابوں میں لکھا تھا کہ افریقہ کے سارا سال بارش والے علاقوں کے جنگلوں میں ایسی دلدلیں ہوتی ہیں ،جن میں پھنس جاتے کے بعد نکلنا محال ہوتا ہے ۔اسی طرح صحراؤں میںہ لکی ریت(QUAND کے پھندے ہوتے ہیں۔جو پھنس گیا ۔وہ دھنس گیا۔ہلکی ریت کے جال میں پھنس جانے والا ایک جگہ پر رقص کرتا کرتارہ جاتا ہے ۔صحراؤں میں سرابوں کے عذاب اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔
خوابوں کی تعبیریں دھونڈنے والے مسافروں کے لئے جنگلوں میں دلدلیں،صحراؤں میںہلکی ریت اور فضاؤں میں(
AIR POCKETS)کی طرح کی طرح کے کیا کیا پھندے ہیں۔قدیم و جدید ،یہاںپر آئے ہوؤں کے مسائل یکساںاورطرزِ زندگی ایک سا تھا ۔
]پرانے آئے ہوئے
’’میں تو اگلے سال چلا جاؤں گا‘‘ اور نئے آنے والے’’ایک بات طے ہے کہ میں نے زندگی یہاں تباہ نہیں کرنی‘‘ کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ہر کوئی اپنی ذات میں’’لا جروری ‘‘ باتوں کاایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھا۔کس نے کہاں سے زندگی کا آغاز کیا تھا؟کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔کس نے کتنا کمایا اور کس طرح اجاڑا تھا؟سبھی کے علم میں تھا۔ماضی کے بارے میں گفتگو کرنا اور کرتے رہناسب کا مرغوب تریں مشغلہ تھا۔
]ان دنوں کی باتیں،جب یہ شہرکھجور کے پتوں کی جھونپڑیوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔جب کپڑے کے تاجرچٹائیوں پر رکھ کرکپڑے کے تھان بیچا کرتے تھے ۔جب فلاں بینک کے مالک کا منی ایکسچینج
MONEY EXCHANGE) (لکڑی کی ایک ٹرے پرمشتمل ہوا کرتا تھا۔ جب فلاںبڑا آدمی آئس کریم کی ریڑی لگایاکرتا تھا ۔ جب فلاں شہر میں عورتوں کا بازار لگاکرتا تھا۔ہر شخص کے پاس لاتعداد کہانیاں تھیں ۔ہر شخص ہر کہانی کا شاہد بھی تھا۔لوگ بندر عباس سے راس الخیمہ،راس الخیمہ سے دوبئی اور دوبئی سے ہوتے ہوئے ابو ظہبی آیا کرتے تھے۔ سڑکیں نہیں ہوا کرتی تھیںاور بدو جی۔ ایم۔ سی۔G.M.C) ( گاڑیوںمیں صحرائی راستوں سے پینتیس روپوں میں دوبئی سے ابو ظہبی لایا کرتے تھے۔کبھی کبھی کوئی بد قسمت گاڑی راستہ بھول جاتی تو بد قسمت مسافر بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر اورایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا جایا کرتے ۔:0]جدید ترین تین رویہ شاہراہوں پر ایک سو چالیس اور ایک سو پچاس کلو میٹر پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے کبھی کبھاراس پرانے سفر کی یاد آ جاتی تو ایک انجانا ساخوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا۔سفر پر نکلے ہوئے کتنے ہی لوگ کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔کتنی ہی آنکھیں منزل کو دیکھے بغیر بند ہو جاتی ہیں۔راستہ تلا شتے ہوئے کتنے ہی لوگ راستوںمیں خاک ہو جاتے ہیں۔ تہذیبیں کتنی ہی انسانی جانوں کا نذرانہ لے کر پروان چڑھتی ہیں ۔کتنے ہی لوگ بھوک کاٹتے ہیں تو کھیتوں میں خوشے لہلاتے ہیں۔کتنے ستاروں کا خوں ہوتا ہے تو نویدِصبح ملتی ہے۔
ماضی کی باتیں کرتے ہوئے باتیںکرنے والوں کے چہرے تمتمانے لگتے ۔وہ بھی کیا اچھے دن تھے کہ کام نہ ہونے کی صورت میںہو ٹل والوں کے پاس پاسپورٹ رکھ کر مہینوں کھانا کھایا جا سکتا تھا۔ہوٹلوں میں پینے کا پانی الگ سے خریدنا پڑتا تھا۔مٹی کے تیل والی شیشے کی بوتل میںپانی بھر کر بیچا جاتا تھا ۔پانی کی بوتل مہنگی اور سالن کی پلیٹ سستی ہوتی تھی۔کورنش پر صبح کے وقت عورتیں اور مرد پاس پاس بیٹھے حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہو لیتے تھے۔یہ بتاتے ہوئے زور
’’ پاس پاس‘‘ پر رہتا تھا۔لوگ سمندر میں نہاتے تھے اور دل کھول کر نہا لینے کے بعدچار آنے میں خریدے ہوئے پیپے کے پانی کو بدن پر سے بہا کرسمندر کے نمک والے پانی کے اثرات ختم کرلیتے تھے۔
]کہانیاں بہت تھیں اور سامعین نسبتاًبہت کم تھے۔کہانیاں، داستاں گوئی کی چھلنی سے سینکڑوں بارچھلنے کے بعداور پر لطف ہوجاتیں۔ کسی بھی سچی داستان میں دو چار نئے
’’ٹوٹے‘‘شامل ہوتے رہتے۔ نئے نئے ’’ٹوٹوں‘‘ کے تڑکوں کی بدولت بار بار سنی جانے والی کہانی بھی سماعت پر گراں نہ گزرتی ۔یہ کہانیاںایک طرح سے خواب و سراب کی وادیوں میں در بدر لوگوں کی ان لکھی تاریخ تھیں ۔وہ کہانیاں جنہیں کوئی لکھنے والا نہیں ملنا تھا۔وہ زخم جنہیں کوئی مرہم نہیں ملنا تھا۔کوئی سامع میسر آ جاتاتو گویا انہیںاپنے اپنے دل کا غبارنکالنے کاموقع مل جاتا ۔گھروں اور گھر والوں کو یاد کرتے رہنا فیشن بن چکا تھامگر سچی بات یہ تھی کہ ان کی جھولیوں میں فقط باتیں تھیں اور کچھ نہیںتھا۔
] قصہ گوئی کی ان محفلوں میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی یوں لگتا کہ میں الف لیلوی دور کی کسی داستاں سرائے میں بیٹھا ہوں۔رات بھیگنے لگی ہے ۔دف بجانے والے کا ہاتھ دف پر تھاپ لگاتے لگاتے شل ہو چکا ہے ۔رقاصہ رقص کرتے کرتے تھک کر فرش پرڈھیرہو چکی ہے۔قہوہ میرے سامنے ،دھرا دھرا ٹھنڈا ہو چکا ہے ۔جن کی جان والے طوطے کے پر اور اعضاء ایک ایک کر کے نوچے جا چکے ہیں۔ طوطے کی گردن مروڑتے ہی جن اپنے انجام کو پہنچ چکاہے ۔شہزادہ، شہزادی کوحاصل کر چکا ہے ۔قصہ گو ،قصہ بیان کرتے کرتے خود اونگھنے لگا ہے کہ اچانک ڈاکوآ گئے،ڈاکو آ گئے ،کا شور اٹھتا ہے ۔کوئی پکارتا ہے۔بھاگو! بھاگو! اپنی جان بچانے کے لئے جس طرف بھی بھاگ سکتے ہو، بھاگو!ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتا ہے۔ ڈاکو سر پر آ جاتے ہیں۔میں بھاگنا چاہتا ہوں مگر بھاگ نہیں پاتا۔ایک تلوار لہراتی ہے اورمیرا سر تن سے جدا ہو جاتا ہے ۔میں دونوں ہاتھوں سے اپنے گرتے ہوئے سر کو تھامنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوشش کے باوجود میں اپنے سر کو فرش پر گرنے سے نہیں روک پاتا اور فرش پر ڈھیر ہو جاتا ہوں۔
’’ ریاض صاحب!لگتا ہے آج آپ نے دو پہر میں نیند نہیں کی؟ ‘‘ مجھے فرش پر گرتے ہوئے دیکھ کر کوئی پکارتا ۔
c[L:4 R:0][L:0]
’’ تم آج کی بات کرتے ہو،میں نے توصدیوں سے پلک تک نہیں جھپکی۔اپنی آنکھوںمیںخواب سجائے جنگلوں ،صحراؤں ،کھیتوں ،کھلیانوں،ویرانوں میں دیوانوں کی طرح کہاں کہاں بھاگتا رہا ہوں ۔خواب پورا ہونے کے قریب آتا ہے تو میری نیند ٹوٹ جاتی ہے ،آنکھ کھل جاتی ہے۔مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں۔تپتی ہوئی ریت پر میں اکیلا پڑا ہوں۔قافلہ منزل کی تلاش میں اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ چکا ہوتا ہے۔قافلے والو!قافلے والو! مجھے بھی ساتھ لے لو۔میں پکارتا ہوں مگر وہاں کوئی ہو تو میری پکار سنے۔صحرا میںکوئی کسی کی پکار نہیں سنتا تھابلکہ سن ہی نہیں سکتا تھا۔یہاںپرپہچان نام سے نہیںکام سے ہوتی تھی ۔
] چھوٹا حاجی، انہی چرب زبان ،داستاں گوؤں میں سے ایک تھا۔حاجی کے ساتھ چھوٹے کے لا حقے کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس کا چھوٹا بھائی اس سے بہت بعد میںیہاں آکر بہت بڑا آدمی بن گیا تھااور اس نے حج کی سعادت بھی بڑے بھائی سے بہت پہلے حاصل کر لی تھی۔ اور یوںچھوٹا بھائی ،بڑا حاجی اور بڑا بھائی،چھوٹا حاجی بن گیا تھا ۔لال پری کا ساتھ مل جاتا توان کا اندازِ بیاں دو آ تشہ ہو جاتا۔یارو! عجیب شہر ہے یہ،بلیاں چوہوں سے ڈرتی ہیں،کتے بلیوں سے ڈرتے ہیں،پانی سے پٹرول سستا ہے،سبزیاں پھلوں سے سستی ہیں،شکر نمک سے سستی ہے،مرد سر ڈھانپتے ہیں مگر۰۰۰۰۰
]عام سی بات سے نئی بات نکالنے اورنئے ڈھنگ سے اچھالنے کے فن نے اسے محفلوں کی ضرورت بنا دیا تھا۔چھوٹا حاجی یہاں آنے والے قدیم ترین لوگوں میں سے تھااور ان لوگوں میں اب شاذ ہی کوئی یہاں رہ گیا تھا ۔لگ بھگ ساری کی ساری عمر یہاں گزار دینے کی وجہ سے چھوٹا حاجی ہر کس و نا کس کے حالاتِ زندگی سے واقف تھا۔ لوگ اس کی بیحد عزت کرتے تھے جب کہ اس کا اپنا خیال یہ تھا کہ عزت وزت کچھ نہیں کرتے،ڈرپوک ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔اڑتی چڑیا کے پر گن لینا ،چھوٹے حاجی کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا۔کسی بھی راہ چلنے والی کی چال سے اس کے چلن کا اندازہ لگا لینا اس کاکمالِفن تھا۔
ہاں !جرن یافور میں، رضوانہ نام کی کوئی عورت تھی جس کا تذکرہ ، چھوٹا حاجی کبھی بھول کر بھی نہیں کرتا تھا۔ با خبر ذرائع کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ چھوٹا حاجی اسے دور سے دیکھ لیتا تو راستہ ہی بدل لیتا ہے ۔کیوں بدل لیتا ہے؟یہ ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب اگرکسی کے پاس تھا تو وہ چھوٹا حاجی تھا ۔مگر چھوٹے حاجی سے یہ سوال پوچھنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا تھا۔بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی جرات تو مجھ میں بھی نہیں تھی۔تاش مافیا کے دوستوں نے ایک سوچی سمجھی شرارت کے تحت مجھے یہ سوال پوچھنے پر اکسایا تھااور اب چھوٹے حاجی کے جواب یا عتاب کے منتظر تھے۔چھوٹے حاجی نے بڑے تحمل کے ساتھ میرے سوال کو سنا تھااور انگارہ آنکھوں سے مجھے گھورے چلا جا رہا تھا۔
]
’’ بابو جی! پرانے زخموں اور دبی ہوئی راکھ کو نہیں کریدتے،کیا خبر مردہ راکھ سے کوئی زندہ چنگاری نکل آئے۔ آگ پھر بھڑک اٹھے اورسب کچھ جلا دے ۔یہ لوگ بہت نا سمجھ ہیں ،سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے گلے پڑ جاؤں گا مگر آپ نے توان کے اکسانے پر یہ سوال پوچھا ہے ناں؟ از خود تو یہ سوال نہیں پوچھا؟ آپ نے سوال نہیں پوچھابلکہ میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا ہے۔طمانچے کا جواب طمانچہ ہوتا ہے مگرمیں نے آپ کومعاف کیا ۔دعا کریں کہ سوہنارب مجھے معاف کر دے ۔معاف کر دے۔معاف کر دے‘‘کسی کو چھوٹے حاجی سے ایسے ٹھنڈے جواب کی امید نہیں تھی۔محفل کو اک چپ لگ گئی تھی۔چھوٹا حاجی کچھ کہے بغیر،بھری محفل کوچھوڑ کر اٹھ گیااوراس کے  بعد
کسی نے اسے جرن یا فور میں نہیں دیکھا

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE