:اِسی
آنکھ میں کئی خواب تھے
اُس کی عمر پچاس سالوں سے زیادہ بھی
ہو سکتی تھی مگروہ پچاس سالوں سے زیادہ کی لگتی نہیں تھی ۔ماہ و سال کی گردش
کی سوئی اس کے معا ملے میں شایدپچاس کے ہندسے کے آس پاس آ کر جیسے اٹک گئی
تھی ۔اس کی وجہ اس کااکہرا بدن اور درمیانہ قدبھی ہو سکتا تھا اورآف وائٹ) (OFF
WHITE رنگ کی طرح کی رنگت کا بھی کہ
زردی ملا سپید رنگ، نیا ہو تو نیا نہیں لگتا ،پرانا ہو جائے تو پرانا نہیں
لگتا۔وجہ اس کاجرن یا فور میں رہنا بھی ہو سکتا تھا کہ گلی سڑی پلائی وڈ
اورلوہے کی پھٹی پرانی چادروں سے بنائے ہوئے گھروں میںپرانی چیزیں بھی نئی
لگنے لگتی ہیں۔
مریل سے،ایف ۔اے۔پاس
رضا کو کنٹریکٹر ( CONTRACTOR)کے ایک
پاکستانی فورمین نے لیبارٹری میں کام دینے کی سفارش کی تھی ۔اپنی جسمانی ساخت
کی بنا پر وہ لیبارٹری کے نسبتاً سخت کام کے لئے قطعاًغیر موزوںتھا۔اس کے
دھان پان سے جسم کو دیکھ کر ایسے ہی ایک شخص کی کہانی یاد آ جاتی تھی جو کچھ
یوں تھی ۔ا یک خوبرواور جوان
دوشیزہ ایک دھان پان سے نوجوان کو یہ بتاتی ہے کہ اس بھرے شہر میں بس وہی ایک
ایسا نوجوان ہے جو اس کی ایک دیرینہ خواہش پوری کر سکتا ہے۔اس خدمت کے عوض
اگر وہ چاہے تو نقد معاوضہ حاصل کر سکتا ہے۔نوجوان وہ خدمت بلا معاوضہ سر
انجام دینے پر تیا رہو جاتاہے۔گھر لے جا کرجوان خاتون نوجوان کو اپنے خوبصورت
ڈرائنگ روم میںبٹھاتی ہے اور کھلاتی پلاتی ہے ۔اصرار کر کے نوجوان کے غیر
ضروری کپڑے اتروا دیتی ہے۔
’’
تھوڑا سااورانتظار ، میں ابھی گئی اور ابھی آئی
‘‘
کہہ کرخاتون اپنے بیڈ روم میںچلی جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعدنوجوان کے انتظار کی
انتظار کی گھڑیاں ہوتی ہیں ۔خاتون اُس کے سامنے، اُس سے بھی’’گئی
گزری‘‘
صحت والے بچے کا بازو تھامے آکھڑی ہوتی ہے اور بچے کو خبردار کر تی ہے۔
’’دیکھو
منے ! اگر تم ڈھنگ سے نہیں کھاؤ گے تو اس نوجوان کی طرح ہو جاؤ گے‘‘
رضا
کے لئے کسی کے پاس ایسا کوئی کام نہیں تھا۔تا ہم پڑھا لکھا ہونے کی بنا پر
اسے نتائج کی صاف شدہنقول بنانے کے کام پر لگایا جا سکتا تھا۔میں نے ہاں کر
دی مگر کچھ ہی دنوں کے بعد اس کے انچارج نے شکایت کی کہ یہ کام بھی اس کے بس
کا نہیں ۔پوچھ گچھ پر پتہ چلا کہ وہ ایف ۔اے۔پاس تو کجا میٹرک پاس بھی نہیں
ہے۔وہ گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پایا تھااور دو سال پہلے
ویزوںکا کاروبار کرنے والی کسی کمپنی سے ویزہ خرید کر یہاں آیا تھا۔ اسے ویزہ
دیتے وقت کمپنی نے واضح کر دیا تھا کہ اپنے لئے کام کا بندوبست اسے خود کرنا
ہو گا۔پچھلے دو سالوں میں اسے صرف چند ماہ ہی کام ملا تھا۔مشکل دنوں میں اسے
اس کی بہت دور کی ایک انٹی (AUNTY) نے
سہارادیا تھا اور اب وہ اپنی انٹی کے پاس رہ رہا تھا۔
اس کی خراب صحت اور گھریلو پس منظر کی بنا پر اسے کام سے ہٹانا، نا مناسب
بات تھی۔ٹھیکیدار کے فور مین نے اس کی سفارش کی تھی۔لیباریٹوری ٹھیکیدار کی
تھی اوروہی اس کی تنخواہ دیتا تھا ۔مجھ سے پوچھا جانا تو محض ضابطے کی
کاروائی تھا۔اگر اس کے کام نہ کرنے سے بھی کام چل سکتا تھا تو اس کے
لیباریٹوری میں ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کیا فرق پڑتا تھا؟ مجھے کام چاہیے
تھا۔0]اس کا انچارج یعنی کنٹریکٹر کا
میٹیریلانجنےئر) MATERIALS ENGINEER (
اور اس کے ساتھی کارکن اسے برداشت کرنے پر آمادہ تھے،سو بات آئی گئی ہو گئی۔
وہ آتا ، پورا دن لیباریٹوری میں گزارتا اور چلا جاتا،البتہ جمعرات کو
دوپہر کے بعد چھٹی کر لیتا ۔دو تین ہفتے گزر گئے۔پھر اس نے جمعے کی چھٹی کے
ساتھ ہفتے کی چھٹی بھی کرنا شروع کر دی ۔کام پھر بھی چلتا رہا۔ہفتہ وار دو
چھٹیوں کے بعداس نے ہفتے کے بیچ میں بھی چھٹیاں کرنا شروع کر دیں۔کام پھر بھی
چلتا رہا ۔ایک بار وہ ہفتہ بھر غائب رہا تو ایک دن میں نے ایسے ہی اس کے بارے
میں پوچھ لیا تو پتہ چلا کہ وہ تو بس تنخواہ لینے کے لئے آتا ہے اور چلا جاتا
ہے۔
’’کوئی پوچھتا نہیں؟‘‘میں
نے پوچھا
]’’کون
پوچھے گا؟ پوچھنے والوں نے تو اسے رکھوایا ہے
‘‘ اس کے انچارج نے وضاحت کی ۔سائٹ کیمپ (SITE
CAMP)
میں چار سو کے قریب لوگ رہ رہے تھے اور ان میں سے صرف اور صرف چار آدمی شراب
نہیں پیتے تھے۔ رضااور اس کو کام پر رکھوانے والافور مین دونوںشراب بیچنے
والوںاور شراب پینے والوں کے درمیان میں رابطے کا کام کرتے تھے۔بہت زیادہ
مذہبی شخص نہ ہونے کے باوجود،یہ بات بتاتے ہوئے اُس کے لہجے میں اک عجیب سا
دکھ تھا۔سخت مقامی قوانین کے ہوتے ہوئے بنتِ انگور کی دستیابی کی بات ناقابلِ
یقین لگتی تھی۔’’ایسا
کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘میرا
سوال تھا
’’ایسا
ہونا تو نہیں چاہیے مگر ایسا ہے
‘‘
اس کا جواب تھا۔
]ایشائی ملکوں سے لوگ ،اپنی جائیدادیں بیچ بیچ کراوراپنے گھر بار چھوڑ کر
یہاں پیسہ بنانے کے لئے آتے تھے ۔یہاں آنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ پیسہ توکام
کرنے پر ملتا ہے ۔زیادہ کام کرو گے تو زیادہ پیسہ ملے گا ۔اصول سیدھا سادھا
تھا اورسمجھ میں آتا تھا۔چنانچہ ہر کوئی، ہر وقت،ہر طرح کا اضافی کام کرنے کر
لئے آمادہ رہتا تھا۔ لمبے اوقاتِ کار کے نتیجے میںملنے والی اضافی رقوم شروع
شروع میں بہت مزہ دیتیں۔جیب بھری بھری لگنے لگتی اور اچھے اچھے خواب دکھائی
دینے لگتے مگرکچھ ہی سالوں میں حقائق سر اٹھانے لگتے ۔لمبے اوقاتِکار صحت پر
اثر انداز ہونے لگتے ۔ خواب سراب بن جاتے اور ادراک ہوتا کہ بھری بھری لگنے
والی جیب میں بہت سارے ایسے سوراخ بن چکے ہیں ،جن کی وجہ سے جیب بھرنے کا نام
ہی نہیں لیتی تیزی سے گزرنے والے مہ و سال ،آدمی کو اندر ہی اندر توڑ نے لگتے
۔تھکاوٹ نیند کا سبب بننے کی بجائے جگراتوں کو جنم دینے لگتی ۔زندگی مصنوعی
سہاروںکی طلب کرنے لگتی ۔ ایسے ہی کسی کمزور لمحے میں عارضی خوشیوں کے سوداگر
دکھوں کی دوالے کر آجاتے ۔ ہر معاشرت اپنے قاعدے اور قوانین خود ،وضع کرلیتی
ہے ۔ضرورتیں خود اپنا راستہ نکال لیتی ہیں۔
ہر ایجاد کسی نہ کسی ضرورت کی بیٹی ہے ۔کمانے کی خواہش میں گھر سے نکلنے والے
یہ بھول جاتے ہیںکہ میلہ سجانے والے،میلہ کمانے والے ،میلہ لوٹنے والے
اورمیلہ گھومنے والے سبھی جلد سے جلد پا لینے کی خواہش کے اسیر ہوتے ہیں۔
فقیری اور امیری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔داؤ لگانے والا کبھی ہارتا ہے اور
کبھی کبھی جیت بھی جاتا ہے ۔داؤ کا سکہ رکھنے والے کو کسی کی ہار جیت سے کوئی
غرض نہیں ہوتی ،اس کے لئے کھیل کا جاری رہنا ،اہمیت رکھتا ہے۔اپنے کارندے کے
طور پر، ان سوداگروں کاپہلا انتخاب کوئی فور مین بنتا کہ وہ ہوتا ہی مڈل مین
ہے۔مڈل مین ،اوپر سے بہت نیچے اور نیچے سے ذرا اوپر ہونے کی وجہ سے تھوڑے سے
اور پیسے بنانے کے لا لچ میں آ جاتا۔ رضا کی طرح کے کارندوں کی البتہ کوئی
کمی نہیں تھی۔ ایک کو ڈھونڈنے پر ہزار مل جاتے تھے۔کم محنت میں زیادہ پیسے مل
جائیں تو کام کے اچھے برے ہونے کے بارے میں کون سوچتا ہے ؟سمندر میں ڈوبنے
والے کے پاس بچانے والے کا شجرۂ نسب پوچھنے کا وقت کہاں ہوتا ہے ۔وہ تو ،جو
اسے بچا لے ،اسی کا ہو جاتا ہے۔
ر ضا جب کبھی لیبا ریٹوری آتا توسلام کرنے کے لئے میرے کمرے میں ضرور آتا
۔مجھ سے اپنے لائق کسی خدمت کا پوچھتا۔جواباً مجھے بھی اس کا حال احوال اور
اس کی صحت کا پوچھنا پڑتا۔اس بار وہ مجھے ملنے کے لئے آیا تو میں نے اسے بٹھا
لیا اور اس کی لگاتار غیر حاضریوں کی وجہ پوچھنا شروع کر دی۔میرے غیر متوقع
سوالوں سے وہ کچھ پریشان سا ہو گیا ۔ مگر آدمی گھاگ تھا ،سمجھ گیا کہ کسی نے
اس کے بارے میں میرے کان خوب بھرے ہیں۔ سچی باتوں کو وہ، ایک خاص حد سے
زیادہ، جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا اور مان بھی نہیں سکتا تھا۔برائی کا رواج تو
تھا مگر برائی کوبرائی کے خانے میں ہی رکھاجاتا تھا۔ ایسے وقت میں مجبوری کا
بہانہ بنا لینا معمول کی بات تھی ۔اس بھی نے اپنی مجبوریاں گنوائیں ۔بہت
مشکلوں سے اسے یہ کام ملا تھا اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔اس کی بات
اتنی غلط بھی نہیں تھی۔پردیس میںکام کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جا
سکتا تھا۔موقع مل جائے تو تھوڑابہت ثواب کما نے میں کیا ہرج تھا؟
’’تم
اپنی انٹی کے پاس رہتے ہو ناں؟‘‘
’’تمہاری
انٹی کو معلوم ہے کہ تم بہت چھٹیاں کرتے ہو؟‘‘میں نے براہِ راست سوال کرنے کی بجائے ساول
کو تھوڑا گھما دیا
’’
جی، ہاں‘‘
۔’’یعنی
تمہاری انٹی کو تمہاری ساری باتوں کا علم ہے؟‘‘
’’جی،
ہاں‘‘
]’’یعنی
تمہارے انکل
UNCLE
)کوبھی معلوم ہے کہ تم کیا کرتے ہو ؟‘‘سوال
کچھ اتنا ٹیڑھا نہیں تھامگرمیرے اس سوال پر اسے چپ سی لگ گئی۔خاصی دیر خاموش
بیٹھے رہنے کے بعد وہ جواب دئے بغیر اٹھ گیا۔اس بات کا ذکر میں نے اس کے
انچارج سے کیا تو وہ مسکرا دیا ۔
’’اس
کا کوئی انکل ہوتا تو وہ انکل کی بات کرتا ۔‘
’’
کسی انٹی کا ذکر تو اس نے خود کیا تھا۔انٹی ہے تو انکل بھی ہونا چاہیے؟
‘‘
]’’
اصولاً توہونا چاہیے مگر نہیں ہے اور اندر کی بات یہ ہے کہ جسے وہ انٹی کہتا
ہے وہ اس کی انٹی بھی نہیں ہے ۔رضا کراچی کا رہنے والا ہے اور اس کی انٹی
لاہور کی رہنے والی ہے
‘‘
رضا کے انچارج نے بات کو اور اُلجھا دیا تھا۔میں نے ان دونوں کے باہمی تعلق
کو کوئی شکل دینے کی کوشش کی مگر بات اُلجھتی چلی گئی۔چھٹی کا وقت ہونے والا
تھااور جمعرات کا دن تھا۔ مجھے کچھ ضروری کاغذات نپٹانے تھے ۔ میں کاغذات میں
مصروف ہو گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ویسے بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں
تھی ۔
پردیس بہت سے ایسے رشتے ایجاد کرنے پر
مجبور کر دیتا ہے ،جو عام حالات میں ضروری نہیںہوتے۔نئی مائیں بنتی ہیں،نئی
بہنیں بنتی ہیںاور بعض افراد تو بہنیں بنانے کے کام میں اتنے مشہور ہو جاتے
ہیں کہ لوگ انہیں بہنوں والا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ماسی کا لفظ خالہ کی
چھلنی سے گزر کر انٹی بنتا بنتا خاصاخوشبودار ہو جاتاہے۔کام کے سیٹ اپ میں
رضا کا ہونا یا نہ ہوناکچھ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔تا ہم انٹی کے حوالے سے کچھ
دیر تک رضا کا نام ذہن میںگردش کرتا رہا۔ جلدی کے ایک دو کام نکلے تو سب کچھ
بھول گیا ۔جمعرات کی رات تھی، تاش کی محفل جمی تو ذہن کی رہی سہی صفائی بھی
ہو گئی۔
:اس ماہ کے بعد
کئی ماہ گزر گئے ۔جمعرات کی پوری رات تاش کھیلنے میں گزری تھی۔ رات بھر جاگنے
والے گھوڑے بیچے بغیر گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔مجھے کیمپ میں کوئی ضروری کام
تھا اورمیں نے ڈیرے والوں کو بتا دیا تھا کہ میں سویرے سویرے نکل جاؤں
گا۔جاگنے پر میںنہ ملوں تو اسے باعثِ تشویش نہ سمجھا جائے۔سورج نکلنے سے ذرا
پہلے جاگ کر میں سونے والوں کے اوپر سے پھلانگتا پھلانگتا کمرے باہرنکل آیا
۔بستی ابھی جاگی نہیں تھی اورلوگ لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے ۔گلیاں سنسان
تھیں۔دل میں بے وجہ ہی نئے راستے کی خواہش جاگی اور میں معمول کے راستے کو
چھوڑکر میں گلیوں گلیوں بھٹکنے لگا ۔کوئی گلی کیچڑ والی نکل آتی تو کسی گلی
میں کچرے کی بو داخل نہ ہونے دیتی ۔دائیں بائیں مڑتے مڑتے میں نے راستہ کھو
دیا کہ معاً ایک دروازہ کھلا اور رضامیر ے سامنے آگیا۔’’
صاحب جی !آپ؟
‘‘میرے
اچانک سامنے آ جانے کی وجہ سے اس کی آوازغیر ارادی طور پر بلندہو گئی تھی
۔جواب میں میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اندر سے ایک اورآواز ابھری
’’کون
ہے رضا؟
‘‘
’’
میرے لیباریٹوری والے صاحب ہیں۔‘‘رضا
نے جواب دیامگر وہ رضا کے جواب کا انتظار کئے بغیردروازے میں آ گئی ۔
’’کون
ہے رضا؟
‘‘مجھے
دیکھے بغیر اس نے اپنا سوال پھر دہرا دیا تھا۔مجھے دیکھا تو جھجھک گئی
اس کی عمرپچاس سالوں سے زیادہ
بھی ہو سکتی تھی مگروہ پچاس سالوں سے زیادہ کی لگتی نہیں تھی ۔ماہ و سال کی
گردش کی سوئی اس کے معاملے میں شایدپچاس کے ہندسے کے آس پاس آ کر جیسے اٹک
گئی تھی ۔اس کی وجہ اس کااکہرا بدن اور درمیانہ قدبھی ہو سکتا تھا اورآف وائٹ
(OFF WHITE ) رنگ کی طرح کا، اس کا زردی
ملا سپید رنگ بھی کہ یہ نیا ہو تو نیا نہیں لگتا ،پرانا ہو جائے تو پرانا
نہیں لگتا۔وجہ اس کاجرن یا فور میں ہونا بھی ہو سکتا تھا کہ گلی سڑی پلائی
وڈاورلوہے کی پھٹی پرانی چادروں سے بنائے ہوئے گھروں میںپرانا فرنیچربھی نیا
لگنے لگتا تھا۔ میں چلتے چلتے رک گیا ۔رضا دروازے سے باہر آگیا تھا اور اس کی
انٹی کھلے دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی ۔صبح کا وقت تھااور بستی ابھی جاگی
نہیں تھی۔اک بے نام عورت ،عورت کے بیٹے کی عمر کا ایک بد نام لڑکا اور اک
اجنبی مرد آمنے سامنے کھڑے تھے۔ہر کوئی دوسرے سے خائف ،سہما اور ڈرا ہواتھا۔’’
رضا ،انہیںاندرلے آؤ
‘‘
’’نہیں
مجھے جانا ہے،پھر کبھی آؤں گا‘‘
’’
ایک بار دروازے سے لوٹ جائے توپھر کون آتا ہے ۔آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں آپ
کو جانتی ہوں۔آپ کے ایک سوال کا جواب مجھ پرقرض ہے
‘‘
’’میرے
سوال کا قرض؟ میں سمجھا نہیں؟‘‘
’’اسی
لئے تو کہہ رہی ہوں کہ اندر آجائیں۔ناشتہ بھی ہو جائے گا اورآپ کو ایک پرانے
سوال کا جواب بھی مل جائے گا‘‘
عورت بے نام تھی ،لڑکا بد نام اور میں ایک اجنبی ۔پھربھی کسی کے دروازے پرآ
کر لوٹ جانا مجھے اچھا نہیں لگا۔کچھ توقف کے بعد میں گھر کے اندر چلا گیا۔دو
کمروں کے مکان میں ایک کمرہ سونے کے کمرے اور دوسراڈرائنگ روم کے طور پر
استعمال ہوتا تھا۔ میں اور رضا ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے تو وہ ناشتہ لے آئی۔
انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ گھر کے بنائے ہوئے پراٹھے تھے۔
’’رضا
نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کہانیاں بھی لکھتے ہیں
‘‘
’
’
لکھا کرتا تھا مگر اب بہت دنوں سے کوئی کہانی نہیں لکھی ۔آپ کہانیاں پڑھتی
ہیں؟‘‘
’’نہیں،
میں کہانیوںکو جنم دیتی ہوں
‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنس دی
’’
میںعورت ہوں ناں۔ اس لئے ایسا کہہ رہی ہوں۔اس دنیا کی پہلی کہانی کو بھی ایک
عورت ہی نے جنم دیا تھا۔کچھ لوگ عورت کے بغیر بھی کہانی بنانے کی کوشش کرتے
ہیں ۔اول تو کہانی بنتی نہیں ،بن بھی جائے تو دلچسپ کہانی نہیں بنتی۔
ہاں تو آپکا سوال کیا
تھا؟مگرٹھہرئیے۔
اس سے پہلے میں
ایک وضاحت کر دوں ۔یہ لڑکا،رضامیرا بیٹانہیں ہے مگر یہ مجھے ماں اورمیںاسے
اپنا بیٹا مانتی ہوں۔ٹریولنگ ایجنسی پر بہت سے لوگ آتے ہیں ۔ان میں سے کسی کو
کہہ کر اسے کام پر رکھوایا تھا۔مگر جو کام اسے ملا اس کے بارے میں آپ مجھ سے
بہتر جانتے ہیں۔]میں تو ، خیر، اتنی
اچھی عورت نہیں ہوں ۔مگر اَچھے مردوں کی یہ کیا مجبوری ہے کہ وہ اَچھی عورت
کوبھی برے روپ ہی میں دیکھناچاہتے ہیں۔وہ شخص رضا کے ذریعے میرے قریب ہونا
چاہتا تھا۔قریب ہونے کا مطلب تو آپ بھی جانتے ہوں گے؟اب میں اتنی گئی گزری
بھی نہیں کہ مرد کی آنکھ میں چھپی کہانی کو نہ پڑھ سکوںاور ان کے دل کی بات
کو نہ سمجھ سکوں۔ اب یہ ایک ٹریولنگ ایجنسی میں ٹی۔ بوائے (TEA BOY
)کا کام کر رہا ہے۔اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو بتا دیں
‘‘
وہ اس تیزی کے ساتھ وہ اپنے موضوعات بدل رہی تھی کہ اس کی باتوں کو سمجھ
پانامشکل سے مشکل ہو تاچلاجا رہا تھا’’محترمہ!
میں آپ کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ان باتوں کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘
’’تعلق
ہے تو بات کر رہی ہوں ناں۔ویسے میرا نام محترمہ نہیں، رضوانہ ہے
‘‘
’’رضوانہ؟
‘‘
رضوانہ کا نام سنتے ہی میں،حیرت کے مارے، اچھل پڑا۔رضوانہ ،تاش کی محفلوں میں
درجنوں بار سنا ہوا نام تھا۔اسی کے بارے میں سوال کرنے کی وجہ سے چھوٹے حاجی
نے جرن یا فور چھوڑ دیا تھا۔انٹی کا نام میں نے دفتر میں سنا تھا۔ایک ہی وقت
میں ،رضوانہ اورانٹی ،دونوں میرے سامنے آن کھڑی ہوئی تھیں۔
’’
آپ میرا نام سن کر اتنا چونکے کیوں ہیں؟‘‘
اب میری بجائے رضوانہ عرف انٹی کے چونکنے کی باری تھی
’’لگتا
ہے کہ آپ نے میرا نام سنا ہوا ہے۔‘‘وہ
کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئی پھر ایک لمبی ا ور گہری سانس لے کر بولی
’’
ضرور سنا ہو گا۔اتنا چھوٹاسا توشہر ہے ۔ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے مگر آپ
جیسا شخص بھی میرا نام جانتا ہو گا، یہ میں نے نہیں سوچاتھا۔واہ !کیا بات
ہے۔واہ۔ مولا! واہ ؟‘‘
پل بھر میںرضوانہ کے لہجے پر،لے کا نہیں چیخ کا گمان ہو نے لگا تھا۔کہانی
شروع ہونے سے پہلے ہی الجھ گئی تھی ۔جان پہچان کی خواہش کسے نہیں ہوتی مگرجان
پہچان مروجہ قاعدے قانون کے اندرہی رہنی چاہیے ۔رضوانہ کا لہجہ بتا رہا تھا
کہ دنیا نے اسے گہرے گھاؤ لگائے ہیں۔میں نے چھوٹے حاجی کی طرح اس کی بھی کسی
دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔چھوٹے حاجی کی طرح وہ بھی بے طرح تڑپ اٹھی
تھی۔زخم کو مرہم کی ضرورت تھی ۔دکھوں کی کرید کوئی
اچھی بات نہیں تھی مگر اب بات چل نکلی تھی تو اسے اس کے منطقی انجام تک
پہنچاناضروری ہو گیا تھا۔بات چھوٹے حاجی نے بھی ٹال دی تھی،چپ رضوانہ بھی
توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ان کی عمروں کے درمیان خاصی بڑی تفاوت کے باوجودان کا
کوئی دکھ مشترک لگتا تھا۔کوئی نہ کوئی کڑی کہیں نہ کہیں جڑی ہوئی تھی۔
’’رضوانہ
جی، میں نے آپ کو محترمہ کہہ کر اس لئے پکارا تھا کہ آپ عمر میں مجھ سے
بہرحال بڑی ہیں۔تخاطب کے لئے کچھ تو کہنا ضروری تھا ۔آپ نے ،شاید بات سے بات
نکالنے کے لئے ،اپنا نام بتا دیاجو میں نے سنا ہوا تھا۔ میں
’’رضوانہ‘‘
کے بارے میں فقط اتنا جانتا ہوںکہ اس نام کی کوئی عورت ہے اور کوئی داستان اس
سے منسوب ہے۔داستان کیا ہے ؟اس شہر میں نیاہونے کی وجہ سے نہیں جانتا ہوں۔آپ
نے اپنا نام بتایا۔میں نے وہ نام دہرا دیا۔ یہ بے نام لوگوں کی بستی ہے۔
یہاںوقت گزاری کے لئے کوئی داستان چاہیے۔داستان کے لئے کوئی نام چاہیے۔داستان
گوئی کے لئے کوئی خوبصورت اور بد نام، نام چاہیے کیونکہ کہانی ہمیشہ شر سے
جنم لیتی ہے ۔خیر سے تو اسے سمیٹا جاتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر کیا جاتا
ہے۔سچ کہا، ناں میں نے‘‘
اس کے چہرے سے ناگواری کے
اثرات کم ہونے لگے تھے ۔میری باتوں کا وار کارگرہورہا تھا۔کچھ دیر خاموش رہنے
اور اپنی سوچوں کو مجتمع کرنے کے بعد میں نے اپنا سوال داغ دیا
’’
آپ چھوٹے حاجی کو جانتی ہیں ؟
‘‘
’’آپ
چھوٹے حاجی کو جانتے ہیں؟‘‘
’’ہاںاورآپ
کو نہ جاننے کے باوجود یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ بھی اُسے ضرور جانتی ہیں‘‘
’’
آپ سے یہ کس نے کہا ؟‘‘
’’کسی
نے بھی نہیں۔کچھ تحریریں وقت ماتھے پریوں لکھ دیتا ہے کہ اندھا بھی انہیں پڑھ
سکتا ہے اور میںتو آنکھوں والا ہوں
‘‘
’’کہتا
تو ہر کوئی یہی ہے مگر سمجھتا کوئی کوئی ہے ۔بات بہت پرانی ہے ۔سن کر آپ
کوکیا ملے گا؟‘‘بات
شروع کر کے اس نے خود ہی چپ سادھ لی
’’میں
سن رہا ہوں‘‘
’’میں
بھولی بسری باتیں کیوں یاد کروں؟‘‘
’’
اس لئے کہ آپ نہیں بتائیں گی تو مجھے خود داستان گھڑنی پڑے گی۔میںکہانیاں
لکھتا ہوں۔ میں نے کہانی شروع کر لی ہے توکہانی کو اس کے منطقی انجام تک
پہنچانا، میرے فرضِ منصبی میں شامل ہو گیا ہے ۔اس کہانی کا لکھا جانااب اس کا
مقدر ہو چکا ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ اسے کون سنائے گا؟آپ یا میں؟یہ ہڈ بیتی ہو
گی یا جگ بیتی؟‘‘
’’جگ
بیتی بھی کسی کی ہڈبیتی ہوتی ہے‘‘
’’
تو پھر بسم اللہ کیجئے
‘‘
’’
کسی اور دن سہی‘‘
’’کسی
اور دن کیوں ؟ آج کیوں نہیں؟‘‘
’’
میں بھی نواز سے ایسے ہی کہا کرتی تھی‘‘
’’
نواز کون؟چھوٹا حاجی؟
‘‘
’’نہیں۔یہ
تب کی بات ہے جب چھوٹے حاجی کے گھر والے میرے رشتے کے لئے میری بہن اور میرے
باپ کو مجبور کر رہے تھے‘‘روانی
میںبات کہہ دینے کے بعد رضوانہ کو اچانک احساس ہوا کہ وہ تو کوئی اورباتیں
کرنے لگ گئی ہے۔گاڑی رفتار پکڑنے سے پہلے ہی رک گئی تھی۔
’’
رکیے نہیں، بات کہہ دیں ۔چپ کے تو سینکڑوں پہلو نکلیں گے‘‘
’’کیا
کیا کہوں ؟باتیں تو بہت ہیں مگرقصہ کوتاہ یوں کہ بالآخر میری بڑی بہن کے چار
بچوں کے باپ رنڈوے جیٹھ چھوٹے حاجی سے میری شادی ہو ہی گئی۔میری اور چھوٹے
حاجی کی عمر وں کی تفاوت اوراس کے چار بچوں کے باپ ہونے کے باوجود میں نے اسے
قبول کر لیا تھا ۔چھوٹے حاجی کی نوکری بھی واجبی سی تھی اور گھر کا خرچ مشکل
سے ہی پورا ہوتا تھا۔ان دنوں خلیج سے آنے والوں کی دولت کے بڑے چرچے ہوا کرتے
تھے ۔چھوٹے حاجی کا ایک لنگوٹیا دوست بھی وہیں ہوا کرتا تھا ۔ہماری شادی کے
دو سال کے بعد وہ آیا تو چھوٹے حاجی کو بھی ساتھ لے گیا ۔ان دنوں میں ہوائی
جہاز سے تو کوئی کوئی سفر کرتا تھا ۔لانچوں سے زندگی اور موت کی بازی لگا کر
لوگ سفر کرتے تھے اور پھربرسوں کے بعد ان کی خیر خیریت کی خبر ملتی تھی۔چھوٹا
حاجی چھ سالوں کے بعد واپس لوٹا توزنانہ اور مردانہ کپڑوں کے دو اٹیچی ساتھ
لایا تھا۔چھوٹا حاجی چھ ماہ ٹھہرا، اور مجھے وہاں جلد بلا لینے کا وعدہ کر کے
واپس چلا گیا۔ایک سال کے بعد اس نے پیغام بھیجا کہ میںرضوانہ کے نام کا
پاسپورٹ بنوا لوں۔
رضوانہ
کے نام کا کیوں؟ جواب ملا،کوئی قانونی مجبوری ہے ۔ویزہ آیا مگر اس پر شوہر کے
خانے میںچھوٹے حاجی کی بجائے کوئی اور نام لکھا ہوا تھا ۔ٹیلیفون پر میں نے
پوچھا کہ ایسا کیوں ؟ تو جواب ملا کہ کسی قانونی مجبوری کے تحت ایسا کرنا پڑا
ہے اوراس میں فکر کی کوئی بات نہیں ۔میں نے کوئی فکر نہیں کیا ۔مگرمیرے یہاں
پہنچنے سے پہلے ہی اس چھوٹے سے شہر میں خبر پھیل چکی تھی کہ چھوٹے حاجی نے
اپنی بیوی اپنے دوست کی بیوی بنا کر یہاں بلائی ہے ۔رضوانہ چھوٹے حاجی کے
دوست کی بیوی کا نام تھا۔اس سے پہلے بھتیجوں
،بھانجوںکو بیٹا اور بھتیجیوں،بھانجیوں کو بیٹی بنا کر بلانے کا رواج تو
تھامگر اپنی بیوی کو کسی دوسرے کی بیوی بنا کر پردیس میںبلانے کاشاید پہلا
واقعہ تھا ۔چھوٹے حاجی اور اس کے دوست کے بارے میں اس سے پہلے بھی کئی نا
گفتنی باتیں مشہور تھیں۔میں آئی تو باتیں بننے کا عمل تیز سے تیز تر ہو گیا
۔ان لوگوں کو ،جن کے بارے میں چھوٹے حاجی کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی،
باتیں گھڑنے کا سنہری موقع مل گیا۔ لوگ بھی کیا لوگ ہیں؟اپنے انتقام کی آگ
بجھانے کے لئے کوئی بھی اور کسی پر بھی وار کر گزرتے ہیں۔کسی کی ماں ،بہن اور
بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی بھی کوئی ماں ،بہن
اور بیٹی ہے۔عورت مرد کے لئے محض ایک جسم ہے اور بس۔باتونی چھوٹا حاجی دوسروں
کی باتوں کی تاب نہ لا سکا۔میری بہن اور میرے باپ کے سامنے شیر نظر آنے والا
مرد بھیگی بلی سے بھی کمزور ثابت ہوا۔نتیجتاً ہمیںاپنا اپنا راستہ الگ الگ
کرنا پڑا ۔ اپنے پڑھے ہونے کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ تھوڑی تگ و دوکے بعدمجھے
ایک ٹریولنگ ایجنسی میں کام مل گیا ۔پرائے دیس میں پرائے مردوں کے درمیان
بیٹھ کر نوکری کرتے کرتے میری عمر بیت چلی ہے اور بس۔ نوکری کرتی ہوں،باتیں
سنتی ہوں اور زندگی گزار تی ہوں۔لوگ پیٹھ پیچھے ضرور باتیں کرتے ہوں گے مگر
منہ پر بات کرنے کی کبھی کسی نے ہمت نہیں کی۔ بہت باتیں بنانے والے اکثر
چھوٹے حاجی کی طرح بے ہمت ہوتے ہیں
‘‘
الگ
ہونے کے بعد چھوٹے حاجی سے کبھی ملاقات یا بات ہوئی ؟‘‘
’’نہیں
ہوئی اور ہو بھی نہیں سکتی کہ پہلی بیوی سے اس کے دونوں بیٹے اب یہیں ہوتے
ہیں اور باپ کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔بندہ بشر ہے ،کبھی بھی بھٹک سکتا
ہے‘‘
بات
مکمل ہو چکی تھی ،موذن نے جمعے کی پہلی اذان دینا شروع کر تھی اور اٹھنے کی
اجازت طلب کرنے کا بہانہ بھی مل چکا تھا۔مگررضوانہ کے منہ سے نواز اور چار
بچوں والے رنڈوے جیٹھ کا غیر شعوری ذکر مجھے نواز، حمیدہ اور فریدہ کی المیہ
کہانی تک لے گیا۔ نواز اچانک میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
سوال نا مناسب تھا مگر غیر ضروری نہیں تھا۔تجسس بیدار ہو گیا تھا اور اپنے
سوال کے جواب کا تقاضا کرنے لگا تھا ۔بات لبوں پر آہی گئی تھی تو اِسے اب کیا
ٹالنا تھا؟ اُٹھنے سے پہلے میں نے ایک آخری سوال کی اجازت مانگ ہی لی۔ ’’ایک
آخری سوال جس کا تعلق شاید کسی سے بھی نہیں، پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’بات
تو ختم ہو چکی ہے مگرسوال کوئی خاص لگتا ہے ؟ اس لئے اجازت مرحمت کی جاتی ہے‘‘
اس کے لبوں پر پہلی بار مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
’’آپ
کا اصلی نام فریدہ اور بڑی بہن کا نام حمیدہ تھاناں ؟‘‘میں جانتا تھا کہ میرا سوال نا مناسب ہے مگر
اس کے نہ پوچھنے سے ایک چبھن ہمیشہ کے لئے میرے دل میں رہ جانی تھی۔وہ مجھ سے
اس سوال کی کسی طرح بھی توقع نہیں کر رہی تھی ۔میرے سوال نے اس پرجیسے سکتہ
طاری کر دیا۔مجھے اپنے سوال کی سنگینی کا پہلی بار احساس ہوامگر تیر تو کمان
سے نکل چکا تھا۔
]معلوم
نہیں اس کی آنکھوں میں آنسو پہلے آئے یا لبوں پر ہنسی پہلے آئی مگر روئے
یاہنسے بغیر ،میری طرف دیکھے بغیر،ہاتھ سے گر کر ٹوٹے ہوئے گلاس کی کرچیوں پر
سے اپنے پاؤں ہٹائے بغیر اس نے جیسے سرگوشی کی۔’’
میرا نام اب رضوانہ ہے اور بس ۔جوآگے تھے وہ آگے نکل چکے اور جو پیچھے تھے وہ
پیچھے رہ گئے۔ کچھ کہوں بھی تو سننے والاکون ہے؟‘‘
]کہانی
اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی۔ کہنے اور سننے کو کچھ بھی تونہیں رہ گیا
تھا۔میں نے دروازہ کھولا اورخدا حافظ کہہ کر گھرسے باہر نکل آیا ۔
|