پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ
کچھ ہی دیر بعد ہم’’پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ‘‘ کی اکلوتی میز کے ارد گرد
رکھی ہوئی چار کرسیوں سے دو پر براجمان تھے۔ایک عام سی دوکان کے دروازے کے
ساتھ مٹی کا ایک چبو ترہ بنا ہوا تھا۔چبوترے پرایک تندور نصب تھا۔تندور کے
ساتھ فرشی نشست تھی اور بائیں طر ف تندور سے منسلک چولہے پر ایک دیگچہ
پڑاتھا۔دیگچے کے قریب پانی کا مٹکا اور مٹکے کے پاس چند
بر تن پڑے تھے ۔تندور
پر کام کرنے والے کی فرشی نشست کے دائیں طرف لکڑی کی چوکی تھی ۔چوکی پرگندھا
ہوا آٹا اور آٹے کے پیڑے گیلے کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے۔
دروازے کے دونوںکواڑوں پر کالے خان کے کمرے کی طرح فلم ایکٹرسوں کی تصویریں
چسپاں تھیں البتہ ان تصویروں میں مدھو بالا کی تصویریں بہت نمایاں تھیں۔
دروازے کی دہلیز اور چھت کے درمیانی حصے میں ہاتھ سے لکھا ہوا ’پردیسی ہوٹل
اینڈ ریسٹورنٹ‘ کا بورڈلٹک رہا تھااور بورڈ سے کچھ اوپر کجھور کے پتوںسے بنا
ہوا چھپر تندور کے اوپر سے ہوتا ہواکرسیوں تک پہنچ گیا تھا ۔چھپر کولکڑی کے
دو تنے سہارا دئیے ہوئے تھے۔ہوٹل اور اس کے گرد و پیش کا سر سری جائزہ لیتے
ہوئے ،میں دستور سے پوچھے بغیر نہ رہ سکاکہ اس تندورنماہوٹل کے ساتھ’’ اینڈ
ریسٹورنٹ‘‘ لکھنے کی کیا تک ہے؟
دستور نے دوکان کے اندر لٹکے ہوئے اور دوکان کو دو
حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔’’ ہوٹل تو
تم دیکھ رہے ہو ۔باقی رہی ریسٹورنٹ کی بات تووہ رہا ’’اینڈ ریسٹورنٹ‘‘۔پردے
کے آگے ہوٹل اور پردے سے پیچھے ریسٹورنٹ ‘‘۔ہماری باتیں سن کر ’اینڈ ریسٹورنٹ‘
سے تیس ،بتیس سال کا سانولے رنگ کاایک آدمی برآمد ہوا اور میری طرف دیکھے
بغیر بولتا چلا گیا’’ سائیں! آج آنے میںبڑی دیرلگا دی ۔خیریت تو تھی ناں ؟
میں تومایوس ہو چلا تھا ‘‘
’’ مایوسی گناہ ہے، میرے بچے! ‘‘ دستور کا طرزِکلام یکا
یک بازاری ہو گیا۔اس نے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے اور
آنکھیں بند کرتے ہوئے بات جاری رکھی ’’بالکے !ہم جیسے پہنچے ہوئے بزرگوں کے
ہوتے ہوئے مایوسی گناہ ہے ‘‘ کچھ دیر اسی پوز(POSE) میں رہنے کے بعددستور نے
اپنی انگلی گما کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوٹا ہوا سلسلۂ کلام پھر جوڑ دیا
’’ ان سے ملویہ ہیں مسٹر ریاض‘ ‘ تنور والا اس وقت تک میرے قریب پہنچ کر میری
طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا۔میرا تعارف کرانے کے بعد دستور نے انگلی کا رخ
میری طرف سے ہٹاکر تنور والے کی طرف موڑ دیا ’’ اور یہ ہیں مسٹر نواز
پردیسی۔پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے بیک وقت۔ مالک،منیجر،خانساماںاوربیرے ‘‘
’’ ریاض صاحب! گاؤں سے آئے ہیں؟ ‘‘نواز نے میرے ساتھ
ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا
’ ’ نہیںسائیں!سیالکوٹ سے آئے ہیں۔بطورِ خاص ‘‘
’’سیالکوٹ سے؟یعنی سیالکوٹ سے‘‘ نواز بجلی کی سی پھرتی
سے آگے بڑھ کر مجھ سے بغل گیر ہو گیا’’ اوئے ظالما،سیالکوٹ توں آیاں ایں؟‘‘
مجھے ،نواز کی اس غیر متوقع گرم جوشی سے کچھ پریشان پا
کر دستور نے نواز کی گرم جوشی کا بھانڈہ پھوڑ دیا’’ریاض صاحب !پریشان نہیں
ہونا۔بات در اصل یہ ہے کہ پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے مالک،منیجر،خانساماں
اوربیرہ سبھی کبھی سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے’’رکھتے تھے سے مطلب؟‘‘
’’رکھتے تھے ۔یعنی۔ماضی بعید میں تعلق رکھتے تھے ‘‘
’’اور اب؟‘‘
’’یہ ایک لمبی اشٹوری ہے اوراس کا تذکرہ فرصت میںہو
گا۔اب کچھ کھانا چاہئے ‘‘ یہ کہہ کر وہ بآوازِبلند چلایا ’’بیرہ‘‘
نواز مجھے چھوڑ کر دستور کے سامنے تقریبا جھک گیا’’آرڈر ، سر‘‘
’’کیاکیا پکا ہے؟‘‘
’’سادہ گوشت،آلو گوشت،انڈا گوشت،بھنڈی گوشت،آلو انڈہ ،بھنڈی
سادہ،دال سادہ،کیا لاؤں؟صاحب‘‘
’بھنڈی گوشت ‘
’ختم ہو گیا صاحب‘
’آلو گوشت‘
’ختم ہو گیا صاحب‘
’بھنڈی سادہ‘
’پکائی نہیںصاحب‘نواز نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔جس
پر ہم دونوں اپنی ہنسی نہ روک سکے۔
’تو پھر جو پکایا ہے اور ختم نہیں ہوا وہ لے آؤ‘
’ابھی لایا صاحب‘
نواز کھانا لانے میں مصروف ہو گیا تو اچانک مجھے یادآیا کہ
میں نے تو دستور کو اپنے بارے میں ابھی تک کچھ بتایانہیں ہے ،پھر اس نے کیسے
نواز کو بتا دیا کہ میں سیالکوٹ سے آ یا ہوں؟
یہی سوال میں نے اس سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا ’’ سائیں
!علم جانتے ہیں ۔دلوں کا حال چہرے سے پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ سانس لینے کے لئے وہ
تھوڑا رکا اور بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا ’’ ارے با با! میرے سامنے تم نے
داخلہ فارم نہیںبھرا تھا؟ فارم بھر کر مجھے نہیں دیا تھا؟ فارم پرمیٹرک پاس
کرنے والے اسکول کا نام نہیں لکھا تھا؟کیا میں ان پڑھ ہوں؟کیامجھے پڑھنا نہیں
آتا ؟ اگر تم میرے یار نواز کے شہر سیالکوٹ کے نہیں ہوتے ، تومیںتمہیں چائے
کیوں پلاتا؟اپنا نام پتہ کیوں دیتا؟اور یہاں کیوں لاتا؟گال سمجھ میںآئی ،سائیں
! ‘‘
اتنی عام سی بات سمجھ نہ سکنے پرمجھے خود پر ترس آنے
لگا۔اسکول سے کالج کا سفر واقعتاًزندگی کا ایک یاد گار سفر ہوتا ہے۔ کسی کی
انگلی پکڑ کر چلنے کا دور ختم ہوتا ہے ،اختیار کی آزادی ملتی ہے اورذمہ
داریاں از خود سنبھالنے کا دور شروع ہوتا ہے ۔یہاں سے ایک ایسا امتحان شروع
ہوتا ہے جس کا ممتحن امتحان میں بیٹھنے والا خود ہوتاہے ۔یہاں سے اپنی پہچان
اور خود شناسی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔یہ زندگی کی عملی درس گاہ کا پہلا
دروازہ ہے۔داخلے والے دن،میں دستور کی بجائے میںکسی پرانے گھاگ طالب علم کے
ہتھے چڑھ جاتا تو شاید فسٹ ائیر فول بن کر ہی رہتا۔دستور کا ملنا اورکالج میں
داخلے کے مراحل کا منٹوںمیں طے ہو جانا کسی خواب کا حصہ سا لگتا تھا۔دستور
قدم قدم پرمیرے لئے فرشتۂ رحمت ثابت ہوا تھا۔نواز نے ماش کی دال اور روٹیاں میز پر لا کر رکھ دی تھیں۔
کھانادیکھ کر، مجھے اپنے گھر کی یادآ نے لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں چھت پر
لکڑی کے تخت پوش کے اوپرکھانے کے برتن ترتیب کے ساتھ رکھے ہوں گے۔تخت پوش کے
پاس گھڑونجی پرگھڑا پڑا ہو گا۔کورے گھڑے کی مٹی کی ہمک،چاولوں کی سوندھی
سوندھی مہک اورسالن کی خوشبو اشتہا کو اور تیز کر رہی ہو گی۔اچانک ساتھ والی
چھت سے نکی دھوبن پوچھے گی’ ’ ماسی! چاول پکائے ہیں کیا؟ ‘‘ اثبات میں جواب
ملنے پر وہ اپنے بارہ سالہ کاکے کے لئے تھوڑے سے چاول مانگے گی اور جواب میں
ماں ان کے تینوںافرادِ خانہ کے لئے چاول نکال کردیوار کے اوپر سے اسے پکڑا دے
گی۔چاولوں والے پتیلے کا ڈھکن اٹھتے ہی چاولوں کی مہک فضا کو معطر کر دے گی۔
میں اٹھ کر بیٹھ جاؤں گا۔ ماں پوچھے گی۔
’’ بھوک لگ گئی راجے ! ‘‘
’’ ابھی نہیں لگی۔بی بی ! ‘‘میں جھوٹ بولنے کی ناکام
کوشش کروں گا مگر ماں میرے لہجے سے جان جائے گی کہ مجھے بھوک لگ چکی ہے۔وہ
میری بہنوں کو آوازیں دینے لگے گی۔سبھی گھر والے تخت پوش کے ساتھ والی چار پا
ئیوں پر جمع ہو جائیں گے ۔ وہ تھالیوں میں چاول اور چاولوں پر سالن ڈال ڈال
کرباری باری سب کے سا منے رکھتی جائے گی ۔’’ماں تم خود بھی تو کھاؤ؟ ‘‘ ہم
بہن بھائیوں میں سے کوئی کہے گا ۔’’اب میںاپنے لئے ہی تھالی بنانے لگی ہوں
ناں ‘‘ وہ جواب دے گی مگر اپنے لئے تھالی نہیں بنائے گی۔ اپنے لئے چاولوں کی
پلیٹ بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ ، وہ سارے گھر والوں کے کھانا کھا لینے کے
بعد کر ے گی۔ مگر ماں زندہ ہوتی تو مجھے گھر چھوڑنا ہی کیوں پڑتا؟
مائیں اتنی جلدی کیوں مر جاتی ہیں؟اس سوال کا جواب میرے پاس
کیا؟ کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔مائیں نہیں رہتیں تو گھر گھر نہیں رہتے ۔ گھر
نہیں رہتاتواس میں رہنے والے افراد، دمدار تاروں کی طرح لا امتناع خلاؤں کا
نوالہ بن جاتے ہیں۔ماں نہیں رہی تھی تو کئی راز،رازنہیں رہے تھے ۔حقیقتیں خود
ہی خود مجھ پر منکشف ہونے لگی تھیں ۔مجھے سمجھ ّ گئی تھی کہ ماں کوکسی مانگنے
والے کی صدا کا انتظار کیوں رہتا تھا؟کسی ضرورت مندکو کھانادینے سے پہلے وہ
گھر کے افراد کو کھانا کیوں نہیں دیتی تھی ؟اور وہ خود گھر کے سارے افراد کے
کھانا کھا چکنے کے بعد ہی کھانا کیوں کھاتی تھی؟
’’بھائی !کھانا کھاؤ۔ٹھنڈا ہو جائے گا‘‘ دستور نے
یادوں کی چلتی ہوئی گاڑی کی زنجیر کھینچتے ہوئے کہا
’’مجھے بھوک نہیں ہے‘‘
’’ بھوک تو مجھے بھی نہیں ہے ،سائیں!مگر یہ پاپی پیٹ
ساتھ لگا ہے ناں، کھاناتو کھانا ہی پڑے گا ‘‘ دستور اپنائیت سے کہتا ہے
’’گھر یاد آ رہا ہے؟‘‘ نواز میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ
جاتا ہے اورپنے ہاتھ سے میرا چہرہ اپنی طرف گھما کر میری آنکھوں میں جھانک کر
کہتا ہے ’’ میری طرف دیکھو۔تمہاری عمر کا تھا، جب گھر سے نکلا تھا یا شاید
بھاگا تھا۔زمین ٹھکانہ نہیں دیتی تھی اور قدم کہیں ٹکتے نہیں تھے ۔کھانا
کھانے بیٹھتا تھاتوکوئی ساتھ بیٹھنے والا نہیں ہوتا تھا۔بات کرنا چاہتا تھا
تو کوئی بات سننے والا نہیں ہو تا تھا ۔اک عمر اِدھراْدھربھٹکنے کے بعداب
کہیں ٹک کر بیٹھا ہوںاور سالوں کے بعد کوئی درد آشنا اورکوئی دوست ملا ہے ۔
تم توبہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں سفر آغاز میں ہی دستور جیسا دوست مل گیا
ہے۔دستورجیسا دوست قسمت والے کو نصیب ہوتا ہے۔ویسے تمہارا جی مانے توتم مجھے
بھی اپنادوست سمجھ سکتے ہو ‘‘
دستور اور نواز دونوں ٹھیک ہی کہتے تھے۔کسی کا ساتھ ہو یا نہ
ہو ، بھوک ہو یا نہ ہو،پیٹ تو بھرناپڑتا ہو۔پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو
کرنا ہی پڑتا ہے۔رزق کی تلاش میںتھوڑا بہت چلنا ہی پڑتا ہے۔پاپی پیٹ کو بھرنے
کے لئے کوئی بازوؤں سے کام لیتا ہے،کوئی ہاتھ پھیلاتا ہے اور کوئی علم کا
ناٹک کرتا ہے ۔
ہم کھانا کھا چکے تو نواز پوچھنے لگا ’’کھیل پر چلو گے ؟ ‘‘
’’ کھیل کیا؟ ‘‘
’’ کھیل یعنی فلم۔نیلو کی فلم۔میں ہوں ایک پہیلی ،ہر
دم نئی نویلی ‘‘ نواز لہک لہک کر گانے لگا
’’ آج نہیں ،ریاض تھکا ہوا ہو گا، آرام کر لے ، کل
چلیں گے ‘‘ دستور نے جواب دیا
’’ جیسے آپ کی مرضی مگرمیں تو جا رہا ہوں ۔ کل پھر چلے
جائیں گے ‘‘
نواز کھیل دیکھنے نکل گیا تو دستور مجھے چہل قدمی کے
لئے قریبی پارک میں لے گیا۔ایک دوسرے کی زندگی کے بارے میں کریدتے کریدتے
پارک کے بند ہونے کا وقت ہو گیا۔واپس آ کرسونے کیلئے چھت پر آئے تو چھت چار
پائیوں اورکجھور کی چٹائیوں سے بھری پڑی تھی۔
’’ چار پائیاں تو سونے کے لئے ہیں ۔چٹائیاںکیا تہجد کی
نماز کے لئے ہیں؟ ‘‘ میں نے چٹائیوں کی طرف اشارہ کر کے دستور سے پوچھا
’’ نہیں تو!یہ پیلی کوٹھی میں رہنے والے رکشا
ڈرائیوروں کے بستر ہیں۔ آخری شوکے بعداونگھتا ہواشہر پوری سو جائے گاتو ان کا
دھندہ بھی بند ہوتا جائے گا ۔وہ اپنی اپنی رکشائیں کھڑی کر کے چھت پر آتے
جائیں گے اور کوئی چارپائی یاکوئی چٹائی خالی نہیں رہے گی ‘‘
رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی توٹھنڈی ہوا کے چلنے کی وجہ
سے فضا خوشگوار ہو چکی تھی۔ چارپائیوں اورچٹائیوں والے آ چکے تھے اور گرد و
پیش سے بے خبر گہری نیند سو رہے تھے۔دن بھر کی مشقت نے انہیں اتناتھکا دیا
تھا؟کہ انہیں یہ بھی ہوش نہ تھی کہ وہ کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ صرف ایک دن کی
تھکن کے بعد سونے میں ا تنا چین ہے تو زندگی بھر کی تھکن کے بعدہمیشہ کے لئے
سونا کتنا اچھا لگتا ہو گا؟میرے ذہن نے اچانک ایک سوال اچھال دیا۔اس سے پہلے
کہ میرا ذہن اس سوال کے جواب میں الجھتا،ہوا کے دوش پر رقصاں کسی گانے والے
کی طلسما تی تان نے مجھے مسحور کر دیا ۔
اچیاں، تے لمیاں ،لال کجھوراں ،پترجنہاں دے ساوے
زمین کی کوکھ سے چاندابھر رہا تھا اور چاندنی چھدرے
درختوں سے چھن چھن کرسامنے والے مکان کی اونچی دیوار پر برس رہی تھی۔ گانے
والے کی آواز میں رات کے پچھلے پہرکی خنکی اورچاند کی چاندنی دونوں گھل مل
گئے تھے۔ رات کی خاموشی میںگانے والے کی آ واز اور بھی نمایاں ہو گئی
تھی۔کافی کے بول اور گانے والے کادرد بھرا لہجہ،دونوں مل کر مجھے ایک بار پھر
نیند کی آغوش میںلے گئے۔
بعد از دوپہر کالج سے واپسی کا سفر خاصا لطف دے گیا۔
جھلسا دینے والی لو کے جھونکے گام گام قدم بوسی کو آتے اورپسینے کے قطروں کی
شکل میں جسم پر بوسوں کے نشان چھوڑ جاتے۔گرمی کی شدت نے بازاروںکو ویران اور
سڑکوں کو سنسان کر دیا تھا۔زیادہ تر دوکانیں بند تھیں ۔کھلی ہوئی دو کانوں کا
احوال بھی بند دوکانوں جیسا تھا ۔ان میں کام کرنے والے، لو سے بچنے کے لئے
دوکانوں کے اندرونی حصوں میں پناہ لئے ہوئے تھے ۔
یہ بیکا نیری گیٹ ہے ۔یہ شاہی بازارہے۔ یہ شاہی چوک ہے۔دستور
میریمعلومات میں اضافہ کرنے پر بضد تھا ۔ اس نے ’’ یہ چوک شہزادی ہے ‘‘ کہا
تو میری حسِ مزاح جاگ اٹھی۔
’’ اس چوک میں کوئی شہزادی رہتی تھی کیا؟ ‘ ‘
’’ اس کی تو مجھے خبر نہیںکیوں کہ میں بھی اس شہر میں
اتنا پرانا نہیں ‘‘
’ ’ شہزادیاں کیسی ہوتی ہیں؟ ‘‘
’’ کبھی کسی شہزادی سے پالاتو تمہیں بھی بتا دوں گامگر۔۔۔۔‘‘
!’’ مگر کیا؟ ‘‘
’ ’ سنگِ مرمر کی سلیںبہت ٹھنڈی ہوتی ہیں ‘‘
’’ تجربہ ہے یا سنی سنائی بات؟ ‘‘
’’ واہ سائیں !واہ ۔ استادوں سے استادیاں‘‘ دستور میرے
سوالوں سے لطف انداز ہوتے ہوئے بولا ’’بھائی میں تو تمہارا دل بہلانے کی کوشش
میں تھا۔ تم نے تو الٹا میرا جلوس نکا لنا شروع کر دیا ہے ‘‘
’’ برا مان گئے ،سائیں! تمہاری اور نواز کی وجہ سے
تودر بدری کا یہ دکھ برداشت کر گیا ہوں۔تمہیں دکھ دینے کااور تمہارا جلوس
نکالنے کا میں کیسے سوچ سکتا ہوں؟ تم کہو تو زندگی بھر کے لئے چپ سادھ لوں؟
‘‘
’’ پھر استادی؟‘‘ وہ مسکرا کر بولا۔’’سائیں! ہم جو
ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں،اصل میں اپنے آپ کو سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔اکیلے
رہ کر ہمیں اپنے ویران ہو جانے کا ڈر رہتا ہے ۔ہمارے اندر کا خوف ہمیںمل کر
رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے گروؤں کو بھی چیلوں کا
سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ویسے تمہاری بات کا جواب یہ ہے کہ جتنے دن ساتھ ساتھ
ہیں،ہنس کھیل کر گزاریں گے ۔ راستے الگ الگ ہو جائیں تو دوسری بات ہے۔ ‘ ‘
دستور نے ایک بار پھرمجھے اپنائیت کااحساس دلا دیا
’’ دستور ، تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہے؟ ‘‘
’ کچھ مشکل نہیں ۔یوں سمجھ لو کہ سفر میں ہم سفرضرورت
بن جاتا ہے ‘‘دستور کو سمجھنا واقعتاً ایک مشکل کام تھا ۔ایک پل میں وہ گیان
اور دھیان کی دنیا میں ہوتا تو دوسرے پل میں وہ پورے کاپورا حقیقت پسند انسان
دکھائی دینے لگتا ۔پل میں تولا،پل میں ماشہ ۔وقت صدیوں سے مروج اخلاقی اقدار
کے ساتھ کھیل کھلواڑ کرنے لگا تھا ۔خیالات پر روک لگانے اور سوچوں کوقابو میں
رکھنے کی کوششوں کے باوجود د، زمینی حقیقتیں زمانی صداقتوںپر حاوی ہونے لگتی
تھیں۔انسان دن بدن بے بس ہوتا چلا جا رہا تھا۔
باتیں کرتے کرتے ہم بازار سے باہر نکل آئے تھے اور
سبزی منڈی میںداخل ہو چکے تھے۔نواز ہوٹل کے لئے سبزیاںخریدنے کے لئے بازار
آیا ہوا تھا۔ہمیں دیکھ کر اس نے دور سے ہی تان لگا دی ’ ’ آج کیا چلے
گا،دستور بابو؟ ‘‘
’’ گردے کپورے ‘‘دستور نے نوازکی تان سے بھی لمبی تان
لگاتے ہوئے جواب دیا تو میں اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔تا ہم ہنسی کے ساتھ ساتھ
دل میں بازار میں کھڑے ہونے کا احساس ابھرا۔بازار میں کھڑے ہو کر اس طرح کی
حرکت میرے نزدیک نا شائستہ حرکت تھی ۔جیسے کوئی بازار میں کھڑا کھڑا اپنے
کپڑے اتار دے۔جیسے کوئی بھری محفل میں ناچنا شروع کر دے ۔کوئی کیا کہے گا؟
ایک ڈر سا ذہن کے کسی گوشے سے ابھرا۔
’’کوئی کیا کہے گا ؟‘‘
’’ کوئی کون؟ کون کیا کہے گا؟‘‘دستور نے ادھر ادھر
دیکھتے ہوئے کہا ’’ یہاں توہمارے سوا اور کوئی نہیں‘‘
’’ کوئی نہیں؟ ہم بازار میں ہیں؟اس طرح سرِعام تانیں
لگا کر بات کرنا کیا نا شائستہ حرکت نہیں؟ ‘‘
’’ نہیں تو ۔ ویسے ہم شائستہ ہیں کب؟ ‘‘
’ ’ عجیب منطق ہے؟ ‘‘
’ ’ محبت کی کوئی منطق نہیں ‘‘ دستور نے جواب دیا ’’
گردے کپورے بیچنے اور خریدنے والے بھی تو انسان ہوتے ہیں ‘‘
’’ مگر انسانوں اور انسانوں میں فرق تو ہوتا ہے ناں؟ ‘‘
’’ کوئی فرق نہیں ہوتا، سبھی الو کے پٹھے ہوتے ہیں ‘‘
’ ’ جی نہیں،انسان ،انسانوں کے پٹھے ہوتے ہیں ‘‘
’’کیا باتیں چل رہی ہیں؟‘‘نواز ہمارے قریب آ چکا تھا
’’تمہاری اور تمہارے شہر کی باتیں چل رہی تھیں‘‘
’’ میرے شہر کی باتیں؟سمجھا یعنی میرے شہر کی باتیں۔
پسند آیا شہر؟‘‘
’’ ریاض سے پوچھو‘‘
’’اچھا ہے‘‘
’’اچھا ہے؟ یا اچھا ہے۔؟‘‘
’’اچھا ہے‘‘میرا جواب مختصر تھا
’’ شکر ہے ۔میرا یار بولا تو۔ویسے گرمی خشکی ذرا سی کم
ہو تواس شہر کا بھی جواب نہیں ‘ ۔۔۔‘
’’ ہوں ‘ ‘ میں نے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جواب دیا
’’ دن گرم ہوتا ہے مگر راتیں ٹھنڈ ی ہو تی ہیں ‘ ‘
’’ہوں‘‘
’’کچھ منہ سے بھی پھو ٹو گے یا گونگوں کی،طرح، ہوں ہوں،
کرتے رہو گے؟ ‘‘وہ حسبِ معمول بے تکلفی پر اتر آ یا مگر میں نے پھر بھی اسے
لفٹ نہیں کرائی تو جھینپ سا گیا ’’ارے بھائی،دیکھنے میں، میں کیسا بھی سہی ،دل
کا برا نہیں ہوں ‘ ‘
’’ اور گلے کا توبہت اچھا ہوں ‘‘دستور اس کی مدد کو آ
گیااور ہیجڑوں کی طرح کولہے مٹکا نے لگا
’’ آدھی رات کو میں نے کسی کو گاتے ہوئے سنا تھا ‘‘
’ ’ کیا گا رہا تھا ؟ ‘‘
میں نے خواجہ فرید کی کافی کے بول دہرا ئے تونواز بول
اٹھا’’ وہ میں تھا۔میں گا رہا تھا۔رات کو میں گا رہا تھا۔I was singing))میں
کیسا گا رہا تھا؟ ‘‘
’’ کافی بہت زبردست تھی‘‘
’’کمینگی چھوڑ بھی دو اب‘‘دستور نے ہم دونوں کے درمیان
ہری جھنڈی رکھ دی
’’چھوڑ دی ‘‘ میں نے ہتھیار ڈال دئیے
’ ’ تو اس خوشی میں آج رات کا کھیل پکا ‘‘ نواز نے چہک
کر کہا
’’ پکا ‘‘دستور نے نواز کی تجویزپرمنظوری کی مہر ثبت کر دی
بارہ آنے والی کھڑکی کے سامنے ایک لمبی قطار لگی تھی
’’ قطار میں کون لگے گا؟ ‘‘ میں نے پوچھا
’’ کوئی نہیں ۔استاد نواز ٹکٹ نکالے گا ‘‘ دستور نے جواب دیا
’’ قطار میں لگے بغیر؟ ‘‘
’’ ہاں بھائی ‘‘
ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے کھلتے ہی ایک قطار سے کئی قطا
ریںبن گئیں اور دھکم پیل شروع ہوگئی ۔ ہر کوئی دوسرے کو دھکیلتا ہوا کھڑکی کی
طرف بڑھنے لگا۔ نواز نے قمیض اتارکر دستور کے حوالے کی،چادر کا لنگوٹ کسا ،دانتوں
میں ایک ایک کے تین نوٹ دبائے۔ ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھ کراپنے جسم کو
تولااور پھر چھلانگ لگا کر ہجوم کے اوپر کود گیا۔نیچے والوں نے اس کی ماں اور
بہنوں کی شان میں چند ثقیل قسم کے الفا ظ ادا کئے اور نواز کوٹانگوں سے پکڑ
کرنیچے گھسیٹ لیامگروہ اس دوران چار ٹکٹ نکال چکا تھا ۔نیچے اتر کر اس نے خود
کو گھسیٹنے والوں کاانہی کے ادا کردہ الفاظ میں جوابی شکریہ ادا کیااور چو
تھا ٹکٹ انہی میں سے ایک مستحق کو ایک روپے میں نذر کر دیا۔ دھکم پیل اسی طرح
جاری تھی اور میں اس منظرمیںکھو سا گیا تھا۔دستور نے مجھے بازو سے پکڑ کر
سینما ہال کی طرف کھینچتے ہوئے یاد دلایا کہ نواز ٹکٹ خرید چکا ہے اور اب
ہمیں ہال کی طرف چلنا ہے۔میں طفلِ نو مکتب کی طرح اس کے ساتھ ساتھ چل دیا۔
ہال میں پیچھے والی کئی سیٹوں پرلمبی لمبی چادریں بچھی ہوئی
تھیں ،جیسا کہ مجھے آنے والے دنوں میں پتہ چلا یہ ایک طرح کی ایڈوانس بکنگ
ہوتی تھی۔گروپ کی شکل میں آئے ہو ئے افراد میں سے ایک، بلیک کا ٹکٹ لے کر ہال
میں آ جاتا اور باقی ساتھیوں کے لئے جگہ روک لیتا۔ اس طرح دیر سے آنے والوں
کو بھی اچھی جگہ مل جاتی۔ جگہ روکنے والا دو چار کرسیاں اور بھی روک لیتا اور
اضافی کرسیاں کسی جاننے والے کے کام آجاتیں۔
’’یہاں آ جاؤ ،استاد!‘‘ نواز کو دیکھ کرکسی نے آواز لگائی
’’اکیلا نہیں ہوں۔ہم تین ہیں‘‘
’’ تین؟ ایک سے دو ہوتے تو سنے تھے ۔ایک سے ڈائریکٹ (DIRECT)تین
ہونے کی بات پہلی بار سن رہا ہوں؟ بہر حال ،جگہ بہت ہے تینوں آ جاؤ‘‘
’’کھیل تو اگلے بنچوں پر بیٹھ کر دیکھنے والا ہے مگر مہمان
ساتھ ہے ،اس لئے پیچھے بیٹھ ہی جاتے ہیں‘‘بارہ آنے والی سیٹوں کی پہلی قطار
میںکرسیاں سنبھالنے سے پہلے نواز نے ہمارا تعارف کرسیوں پیش کرنے والے سے
کرایا۔وہ سبزی منڈی کی کسی دوکان پر کام کرتا تھا۔ کھیل دیکھنے کا یہ
میراپہلا موقع تھا۔دستور کے میری سہولت کے لئے فلم کے گانوں کی ایک کاپی خرید
لی۔نواز اس فلم کو چودھویں بار دیکھ رہا تھااور دیکھنے کی مزید ہو س رکھتاتھا۔
’اس میں آخر کیا ہے جو تم با ر بار اسے دیکھ رہے ہو؟‘
’ہے ایک بات مگر تمہیں یہ جاننے میں وقت لگے گا‘
’کیوں؟‘
’’اس لئے کہ نوازمدھو بالا کا عاشق ہے ‘‘ نواز کے جواب
دینے سے پہلے دستور بول اٹھا
’’عجیب عشق ہے ۔وہ اُدھر یہ
ادھر؟‘‘
’’عشق ایسی باتیں نہیں سوچتا۔عشق ایسی باتیں سوچنے
لگتا توسوہنی کچے گھڑے پرچناب پار نہیں کرتی‘‘
’’اسے تو یہ پتہ نہیں تھاکہ گھڑا کچا ہے یا پکا‘‘
’’غلط با لکل غلط‘ ‘ نواز فلسفیانہ لہجے پر اتر آیا’’گھڑے کے
کچے یا پکے ہونے کا تو اندھے کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔سوہنی جانتی تھی کہ گھڑا
کچا ہے مگراسے اپنے عشق پر یقین تھا‘‘
’’اور عشق اسے لے ڈوبا‘‘
’’ہاں ہاں ،عشق اسے لے ڈوبا۔ عشق سب کو لے ڈوبتا
ہے۔عشق مجھے بھی لے ڈوبے گا‘‘ نواز ترنگ میںآ کر بآوازِ بلندگانے لگا
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
’’چپ رہ، مجنوں کے بچے‘‘ ہال سے کسی کی آواز ابھری۔دستور
نے آنے والی آواز کی سمت کا اندازہ لگایا اوراسی لہجے میں جواب اچھال دیا
’’چپ ہو گیا ، لیلیٰ کے بھائی صاحب ۔‘‘ سینما ہال
قہقہوں سے گونج اٹھا
’’اگر لڑائی ہو جاتی تو؟‘‘ میں اپنے اندر کی بزدلی کا اظہار
کئے بغیرنہ رہ سکا۔میری اس بزدلی میںشاید اس قصبے کے صلح جو ماحول کا بھی
ہاتھ تھا، جہاں سے میں آیا تھا۔ قصبے گاؤں اور شہر کی درمیانی کڑی ہوتے ہیں ۔ان
کے مکین نہ تو گاؤں والوں کی طرح جلدی اشتعال میں آتے ہیں اور نہ ہی شہر
والوں کی طرح چالاک ہوتے ہیں۔
’’لڑائی نہیں ہوتی۔ لوگ یہاں تفریح کے لئے آتے ہیں،
لڑنے کے لئے نہیںاورپھر جو دوسروں کی باتوں کا برا مانتے ہیں وہ خود خاموش
رہتے ہیں ۔اس طرح کا ہنسی مذاق اورہلکی پھکی فقرے بازی تو چلتی رہتی ہے۔سینما
گھرمیںروتے ہوئے شیر خوار بچے کے رونے پر ایک دومخصوص جملے ضرور اچھالے جاتے
ہیں ۔ان فقروں کے اچھالے جانے کے باوجود نہ تو عورتیں سینما گھر میں آنا بند
کرتی ہیں اور نہ ہی شیر خواربچوں کو گھر میں چھوڑ کر آتی ہیں ۔ ہاتھی پالنے
والے اپنے دروازے بھی اونچے رکھتے ہیں۔ ‘‘
اس اثنا میں ہال کی بتیاں ایک ایک کر کے بجھنا شروع ہو
گئیںاور سلائیڈ چلنے لگے ۔فلم کے شروع ہونے تک باتوں کا شورمدھم پڑنے لگا۔
فلم شروع ہو ئی ،عادی تماش بینوںنے افتتاحیہ تالیا ں بجا کرفلم کا خیر مقدم
کیا اور ہال میں خاموشی چھا گئی۔کوئی گانا آتا تو گانے کی آواز سیٹیوں کے
زورمیں دب کر رہ جاتی۔اگلے بنچوں پر بیٹھنے والے جیبوں سے ریز گاری نکال کر
سٹیج پر پھینکنے لگتے ۔
پیلی کوٹھی ایک مکان اور درجن بھر دوکانوںپر مشتمل ایک
ایسی عمارت تھی ،جسے تزئین کے مرحلے سے گزار ے بغیر کرائے پر ، اٹھا دیا گیا
تھا۔دوکانوں میں سائیکل رکشا ڈرائیور اور ان جیسے دیگر کم آمدنی والے لوگ
رہایش پذیر تھے۔مکان کئی سال پہلے ہوسٹلوں میں جگہ نہ پا سکنے والے کچھ’
’پڑھاکو ‘ ‘ طالب علموںنے کرائے پر لیا تھااورپھر طالب علموں کے لئے مخصوص ہو
کر رہ گیاتھا ۔تعلیم مکمل کر لینے والے طالب علم چلے جاتے اور نئے طالب علم
ان کی خالی کی ہوئی جگہ پر کر دیتے۔پردیسی ہوٹل اینڈ ریٹورنٹ ان کی کھانے
پینے کی ضروریات پوری کر دیتا۔ہوسٹل کے بھاری اخراجات کے مقابلے میں وہ بہت
تھوڑے پیسوں میں گزارا کر لیتے اوربچے ہوئے پیسوںمیں فلمیں دیکھ لی جاتیں ۔
کئی سالوں تک ایسا چلتا رہا تھامگر اب پیلی کوٹھی میں
اکیلادستورباقی رہ گیا تھا۔کرایہ بہت کم ہونے کی وجہ سے اس میں اکیلے رہ لینا
بھی سستے کا سودا تھا۔میرے آنے سے دستور کو ایک ساتھی اور مجھے سر چھپانے کے
لئے چھت مل گئی ۔نواز کے ساتھ اس کا پہلے سے یارانہ تھا۔میں آیا تو ہم تینوں
کے ملنے سے ’’متساوی الساقین‘‘ مثلث وجود میں آگئی۔
پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ کے گاہک کم و بیشترمستقل
نوعیت کے تھے اور ہر کھانے کے ساتھ بل ادا کرنے کی بجائے ماہانہ بنیادوں
پرادائیگی کرتے تھے ۔ان میں غلہ منڈی کے پلیدار،تعمیراتی کاموں پر کام کرنے
والے مزدور،پیلی کوٹھی میں رہنے والے رکشا ڈرائیوراورہم جیسے ،ہوسٹل سے باہر
رہائش پذیر ،کالج کے طالب علم تھے ۔ان کے علاوہ ارد گرد کے گھروں سے روٹیاں
پکنے کے لئے آ جاتیں۔
سڑک پار سے کتابی چہرے،میدے جیسے رنگ ،نیلی آنکھوں
اورکٹے ہوئے بالوں والی ایک کمسن لڑکی بھی روٹیاںلگوانے آتی تھی۔اپنی شکل
وصورت سے وہ اس پورے منظر سے الگ تھلگ دکھائی دیتی تھی۔اس کا نام ویدہ تھا
اور اتنی نرم و نازک تھی کہ چلچلاتی دھوپ میںذرا سا چلنے پر بھی اس کا رنگ
لال گلال ہو جاتا تھا ،اُسے آٹے کی پرات اٹھائے سڑک پار کرتے دیکھ کر کوئی
بھی اُس کی ماں کی سنگ دلی کے بارے میں سوچے بغیر نہ رہ سکتا ۔ اس کی ماں
اپنی چھوٹی سی بیٹی کو اتنی دھوپ میں باہر بھیجنے کی بجائے کیا خود گھر
پرروٹیاں نہیں پکا سکتی ؟ کئی دنوں تک یہ سوال میرے ذہن میںکلبلاتارہا اور
پھر ایک دن میں نے اسے سوچ کے تہہ خانے سے باہر نکال کر دستور کے آگے رکھ دیا
۔
’’سوال اچھا ہے ‘‘دستور نے حسبِ دستور تمہید باندھ کر
بات شروع کرنے کی گنجائش پیدا کی ۔ ’’ سوال اچھا ہے مگر جواب اتنا اچھا نہیں
ہے ۔تب ویدہ نے ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا،جب ایک حادثے نے ویدہ اور اس
کی بڑی بہن نویدہ سے ان کی ماں چھین لی تھی اور ان کے باپ کومعذور بنا دیا
تھا۔باپ کا آڑھت کا کاروبار تھا اور وہ ایک بار گھر سے نکلنے کے بعد شام
کوگھر واپس لوٹتا تھا۔ دودھ پیتی ویدہ ،اور گھر کے کام کاج کی ذمہ داری دس
بارہ سالہ نویدہ پر آن پڑی تھی۔نویدہ اچھا برا سالن گھر پر بنالیتی ۔آٹا
گوندتی اور روٹیاںپکوانے کے لئے کے تندور پر لے آتی ۔ تندور یا ہوٹل پر اکثر
و بیشتر کوئی نہ کوئی مرد گاہک بیٹھا ہی رہتا۔نویدہ کی روٹیاں جلد پکانے کے
باوجود اسے کچھ نہ کچھ دیر تو مردوں کی نگاہوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا۔
اس بات کے باوجود کہ’ نویدہ نواز کی کچھ لگتی نہیں تھی ‘اور
’ زمانے کی نظروں میں ابھی حیا باقی تھی ‘ نواز کو اس کا تندور پر آنا اچھا
نہ لگتا۔ وہ بڑی ہونے لگی تھی ۔ایک دن وہ ہمت کر کے اس نے نویدہ کوتندور پر
آنے سے منع کر دیا اورخود نویدہ کے باپ کے پاس چلا ہی گیا۔نویدہ کا معذور باپ
کیا کر سکتا تھا؟ مگر نواز تو کچھ کر سکتا تھا۔’’آپ اجازت دیں تو میں آپ کے
گھر سے آٹا لے جایا کروں گا اور روٹیاں پکا کر چھوڑ جایا کروں گا‘‘۔
بات معقول مگردنیا نا معقول تھی۔باتیں بن سکتی تھیں
مگر باتیں تو اب بھی بن رہی تھیں ۔چناؤ بڑی برائی اور چھوٹی برائی میں
تھا۔محلے والے کیا کہیں گے؟۔یہی کہ ایک غیر مرد آپ کی چوکھٹ پر کیوں آتا ہے
؟۔مجبوری ہے۔پھر بھی یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ہاں یہ بات تو ہے ،مگر آپ پڑوسی ہونے
کا حق تو ادا کر سکتے ہیں۔فرمائیے؟۔ آپ میں سے کسی کا کوئی بچہ آٹا لے کر
تندور پر جا سکتا ہے اور روٹیاں پکوا کر چھوڑ سکتا ہے ۔معقول بات ہے ۔محلے
والے مان گئے مگر دو چار دن سے زیادہ وعدہ نبھا نہیں سکے ۔نویدہ کے باپ کو
نواز کی بات ماننا ہی پڑی ۔
اس بات کو کئی سال ہو چکے ہیں۔نواز اپنا وعدہ نبھا رہا
ہے ۔وقت نکال کر خود جا کرآٹا لاتا ہے اور روٹیاں پکا کر چھوڑ آتا ہے ۔ہاں ،کسی
دن نواز کو فرصت نہ ملے اور مہمان وغیرہ آ جائیں تو ویدہ کو آ نا پڑ جاتا ہے۔
ویسے ایسا کم کم ہی ہوتا ہے ۔
’’نویدہ اور نواز کے درمیان کوئی چکر تو نہیں؟‘‘میرے نا پختہ
ذہن میں ایک واہیا ت سا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا اوراس سے قبل کہ
دستور مجھے روک پاتا،میں نے اسے باہر اچھال دیا
’’نواز مدھو بالا سے بھی عشق کرتا ہے اور نویداسے بھی ؟‘‘
’’سائیں!بندے دا بوتھا بیشک بھیڑا ہوئے ، پرگل چنگی
کرنی چاہیے ‘ ‘ نواز کا لہجہکچھ تلخ ہو گیا
’’ کیامجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے ؟‘‘میں نے قدرے فکر
مند ہو کر پوچھا
’’ہاں ،بہت بڑی غلطی ۔دیکھنے والی آنکھ کچھ بھی
سمجھے،تم کچھ بھی سمجھو، نواز کی نظر کھوٹی نہیں ہے ‘‘
’’آپس میں یہ کیا سرگوشیاں ہو رہی ہیں؟کوئی خاص بات لگتی
ہے؟‘‘ نواز نے ہماری کھسر پھسر سے ’’کچھ گڑ بڑ ہے ‘‘ کی بو سونگھتے ہوئے
پوچھا
’’ کچھ نہیں بس ایسے ہی ریاض نے ایک بات پوچھی تھی
‘‘دستور نے بات گول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا
’’ بات لبوں تک آجائے تو اسے روکنا نہیں چاہئے‘‘
اس کے سوال کا انداز غیر معمولی نہیں تھا۔تا ہم اس کے
لہجے سے لگتا تھا کہ بات اس تک پہنچ چکی ہے۔آپس کی بے تکلفی اس بات کا تقاضا
کرتی تھی کہ میں اپنا سوال بے کم و کاست دہرا دوں۔مگر دستور کی خفگی بالواسطہ
یہ اشارہ کرتی تھی کہ سوال نا پسندیدہ ہو سکتا ہے ۔ بات کو چھپانا اچھا نہیں
تھا اور بات کا کہہ دینا نا مناسب تھا ۔کچھ توقف کے بعد میں نے دستور سے
پوچھا ہوا اپناسوال دہرا دیا۔
نواز میرا سوال سن کر بجھ سا گیا۔کچھ دیر چپ سادھے
رکھی ، دو تین بار لمبی گہری سانسیں لے کر نارمل کیااور پھر تھوڑا
مسکرادیا۔’’راجے ! تو تو پڑھاکو بچہ ہے ۔تجھے تو پڑھی ہوئی باتیں اتنی جلدی
نہیں بھولنا چاہیے۔مجھے تو یاد ہے کہ دوسری یا شاید تیسری جماعت کی اردو کی
کتاب میںایک جملہ تھا۔پہلے بات کو تولو،پھر بولو۔یاد ہے کہ نہیں؟‘‘
’’یاد توہے‘‘
’’یاد ہے تو اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔‘‘وہ خود کو اپنے قابو
میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا مگر اس کا لہجہ بتارہا تھاکہ سوال کا
گھاؤ گہرا ہے۔مندمل ہونے میں وقت لگے گا۔
’’یقین مانو میرا ارادہ تمہیں دکھ دینے کا نہیں تھا۔بس
ایسے ہی منہ سے بات نکل گئی تھی۔‘‘
’’میں یہ جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں۔مگر میرے بھائی !نا
ممکن باتیں نہیں سوچتے ۔میرے کسی کو پسند یا نا پسند کرنے سے کیا ہوتا
ہے؟نوازلاکھ مدھو بالا اور نویدہ کو پسند کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز ایک تندور
والا ہے، مدھو بالا اور نویدادونوں ہی ایک تندور والے کے لئے نا قابل ِرسائی
ہیں۔‘‘
’’ایسی بات ہے تو پھر خواہ مخواہ جلنے سے فائدہ؟‘‘کوشش
کے باوجود میں سوال کو روک نہ سکا
’’کوئی اپنی مرضی سے تو نہیں جلتا ،کوئی جلاتا ہے تو جلنا
پڑتا ہے‘‘نواز نے تندور سے ایک جلی ہوئی روٹی نکال کرجلی ہوئی روٹیوں کے ڈھیر
میں پھینکتے ہوئے جواب دیا۔’’ شاید یہی زندگی ہے ۔آنکھیں ہیں تو خواب ہیں۔
خواب ہیں تو سراب ہیں۔‘‘اس کے لہجے میںغصہ ،پشیمانی یاجھنجھلا ہٹ نہیں تھی
بلکہ یوں محسوس ہوتا تھاجیسے کہ کسی نے دودھ میں شکر یا شکر میںگھی ملا دیا
ہو۔بات کو اور بڑھا نا مناسب نہیں تھا مبادا کہ شکر والا دودھ یا گھی والی
شکر کسی تلخی کی آگ میں جل کر اپنا ذائقہ یا خوشبو ضائع کردے ۔نواز سینما گھر
کے اندر والے نواز سے یکسر مختلف لگنے لگا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد گھر لوٹتے ہو ئے دستورنے بتایا کہ
اس نے پہلی بارنواز کی باتوں میں اتنادکھ اورگہراپن محسوس کیا ہے اور اسے تو
ڈر سا لگنے لگا ہے۔’’رب خیر کرے ۔شودانواز، ڈھاہڈا دکھی اے‘‘اس نے اپنی بات
سمیٹتے ہوئے کہا۔
سوچ کر نہ بولنے کی عادت پر مجھے پہلی بار ڈر لگا ۔دل
کے دریاکا سمندر سے زیادہ گہرے ہونے کا احساس ہوا ۔دل دریا کا بھید تو شاید
خود پر بھی نہیں کھلتا۔کسی کے دکھ کو جان لینے کی کوشش میں ،کبھی کبھی کوشش
کرنے والا خود بے پردہ ہو جاتا ہے ۔ میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ آئندہ
بات چیت کرتے ہوئے محتاط رہا کروں گا۔غیر ذمہ دار لفظ پتھر بن کر کسی کو زخمی
بھی کر سکتا ہے اور کسی کو پتھر بنا بھی سکتا ہے ۔
ہوٹل پر جانے اور کھانا کھانے کا وقت ہو چکا
تھامگرمیںخود میں نواز کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پارہا تھا۔کل کی باتوں نے
میرے سارے کس بل نکال دئے تھے۔کھانا تو کھانا ہی تھااور یہ ہوٹل پر گئے بغیر
ممکن نہیں تھا ۔ہم ہوٹل پر گئے تو میرے خدشات کے برعکس سب کچھ معمول کے مطابق
تھا ۔ کل والے رنجیدہ نواز کی بجائے وہی پرانا ہنس مکھ نواز ہمارے سامنے
بیٹھا تھا۔اگلا دن چھٹی کا دن تھا۔ کھانے کے بعدہم پارک کی طرف نکل
گئے۔چاندنی رات تھی اور ٹھنڈی ہواچل رہی تھی ۔ایسے میںبات چیت کا پہلو تو نکل
ہی آتا ہے۔میں ابھی تک کل والے حادثے کے اثرات سے جانبر نہیںہوا تھا ۔بات
کرنا بھی مشکل تھا اور چپ رہنا بھی ممکن نہیںتھا۔ایسے میں ،مجھے ایک محفوظ
موضوعِ گفتگو سوجھا اورمیں نے نواز سے خواجہ فرید کی کوئی کافی سنانے کی
فرمائش کردی۔
نواز نے کافی سنائی اور دستور نے اس کے مشکل الفاظ کا
اورزیادہ مشکل الفاظ میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔بات سے بات نکلی۔شمعِ محفل
گھومتی گھامتی نواز کے سامنے آ گئی۔پورے چاند کی رات تھی اور موسم اچھا
تھا۔باتیں شروع ہو گئیں اور بے دھیانی میں ماضی کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ماضی کی
باتیں شروع ہو جائیں تو کہاںختم ہوتی ہیں ؟ |