بات اک پری
وش کی
تنگ گلی کے آ خر والا میدان ہر عمر کے بچوں کے لئے ایک پسندیدہ جگہ تھی۔اس کی
ایک وجہ تو یہ تھی کہ میدان سے قریب والااکلوتا مکان برسوں سے غیر آباد
تھااور یہاں بچے جی بھر کر شور و غل کر سکتے تھے۔چھوٹے بچے میدان کے ارد گرد
کھڑی دیواروں پر بلا خوف و خطر ’’ چیچو چیک گلیریاں ، دو تیریاں دو میریاں ‘‘
کھیلتے ہوئے کوئلوں سے سیاہ لکیریں کھینچ سکتے تھے۔ بڑے بچے، پوری آزادی کے
ساتھ’پٹھو گرم‘ کھیل سکتے تھے۔ زور سے پھینکی ہوئی گیند غیر آباد گھر کے میں
چلی بھی جاتی توکسی کی خوشا مد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔کوئی بھی دیوار
پھاندکراندر جا سکتا تھا اور گیند واپس لاسکتا تھا۔
سال کے سال اسکول میں کھیلوں کے ناکارہ سامان کی نیلامی ہوتی تومحلے کے لڑکے
چندہ جمع کر کے کرکٹ کا سامان خرید لاتے اور ’پٹھو گرم ‘میدان ’کرکٹ گراؤنڈ ‘
بن جاتا۔ دو بڑے لڑکے کپتان بن جاتے اور بقایا لڑکے دو، دو، کی ٹولیوں میں بٹ
کردور چلے جاتے۔ ہر ٹولی کے رکن اپنے لئے خفیہ نام چنتے اور کپتانوں کے پاس آ
کر پوچھتے
’’ ایک کا نام چاند،ایک کا نام تارا۔ چاند کس کا ؟،تارا کس کا؟ ‘‘
چاند ،چاند مانگنے والے کپتان کی ٹیم میں اور تارا مخالف کپتان کی ٹیم میں
چلا جاتا۔ٹیمیں بن جاتیں تو چاند اور تارے پورے انہماک کے ساتھ کھیل میں جٹ
جاتے۔کھیل میںعموماً ربڑ کی گیند استعمال کی جاتی ۔ خوب چوکے اور چھکے
لگتے۔خوب شور مچتا۔گیند بار بار غیر آباد مکان کے صحن میں گرتی۔لڑکے بار بار
غیر آباد مکان کی دیوارپھاندتے ۔لڑکوںکے خوش اور ولولے کو دیکھ کر لگتا جیسے
کہ وہ پاکستان کے کسی گمنام قصبے کی ایک بندگلی کے آخر کے میدان میں نہیں
بلکہ انگلینڈ کے تاریخی میدان اوول میں کھیل رہے ہیںاور یہ بند گلی کے آخر کا
نہیںبلکہ وہ تاریخی میدان ہے جہاں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے پہلی مرتبہ
کسی غیر ملکی ٹیم کواس کی اپنی گراؤنڈمیں ہرایا اور خود کو منوایا تھا۔
نواز نے اسی گراؤنڈ سے اپنے کھیل کا آغاز کیا تھا۔کرکٹ کے کھیل کے اصولوں سے
نا واقفیت کے باوجودبلے بازی میں اس کی مہارت حیران کن تھی ۔وکٹ پر جم جانے
کے بعد اسے آوٹ(out)کرنا ناممکن ہو جاتا ۔ابھی وہ ساتویںجماعت میں تھا کہ اسے
اسکول کی ٹیم میں لے لیا گیا اور وہ اسکول کی ٹیم کے ساتھ دوسرے قصبوں میں
میچ کھیلنے کے لئے جانے لگا ۔ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل کھیلنے کے لئے جب
وہ سیالکوٹ گیاتھا تو جیب خرچ کے لئے اسے پانچ روپے ملے تھے اور تب اس نے
پہلی مرتبہ سینما ہال میں بیٹھ کرکوئی فلم دیکھی تھی۔
اُسے اُس فلم کا نام تو یاد نہیں تھا مگر یہ ضرور یاد تھا کہ اس فلم کی
ہیروئین مدھو بالا تھی اور وہ مدھو بالا پر سو جان سے فدا ہو گیا تھا۔ وہ اسے
بھلانے کی لاکھ کوشش کرتامگر اس کا سراپااس کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا
ہوتااور اس کی سوچیں بہکنے لگتیں۔پردۂ فلم پربولتی تصویروں نے اس کے خیالات
پر ایسا شب خون مارا تھا کہ اسے جنسِ مخالف سے ڈر سا لگنے لگا تھا۔وہی لڑکیاں
جن کے ساتھ وہ پہروںکھیلتا رہا تھا۔اسے نظر آ جاتیں تووہ نظریں دوسری طرف
پھیر لیتا۔اسے یوں لگتاکہ اس کا وجودان کی نظروں کی حدت کی تاب نہ لا کر
بارود کی طرح بھک سے اڑ جائے گا ۔اس کی انگلیوں نے بے دھیانی میںہی کسی جسم
کو چھو لیا تو چھویاجانے والابدن وائیلن کے تاروں کی طرح بولنے لگے گا۔ذرا سی
غلطی پر اتنا شور مچے گا کہ وہ کہیں بھی جائے فرار نہ پا سکے گا۔
اس دن سے کھیل میں اس کا انہماک اور بڑھ گیا۔لیکن اگر بات یہیں تک محدود رہتی
توشاید وہ آج’’ پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ‘‘ پر نہ بیٹھاہوتا۔ اس کی زندگی
بھی قصبے کے دوسرے لڑکوں کی طرح گزر جا تی۔وہ بھی اسی میدان میںچیچو چیک
گلیریاں،پٹھو گرم اور کرکٹ کھیلتے کھیلتے جوان ہو جاتا۔کوئی سیدھی سادھی لڑکی
اس کے پلے بندھ جاتی۔گھر کے اندر ایک اورگھر بس جاتا۔ شب و روز’’ آٹے ،دال
اورلکڑیوں‘‘ کے چکر میںکٹنے لگتے ۔ آنگن میں بچوں کی قطارلگ جاتی۔بچے بڑے ہو
نے لگتے اور آنگن چھوٹا پڑنے لگتا۔حسبِ روایت بچے گھر سے گلی اور گلی سے بند
گلی کے آخر والے میدان میں جانے لگتے۔بند گلی کا میدان جس میں ،اس نے اور اس
سے پہلے اس کے باپ نے اور اس سے بھی پہلے اس کے دادا نے، اپنااپنا بچپن کھیل
کھیل کر گزارا تھا،اس کے بچوں سے آبادہو جاتا۔مگر شایدایسا نہیں ہونا تھا ،سو
نہیں ہوا۔کیوں؟ اس کیوں کا جواب کس کے پاس تھا؟ جو اس کے پاس ہوتا۔
تنگ گلی کے آخروالے میدان کے یاد آتے ہی وہ ماضی کے دھند لکوں میں کھو گیا۔اس
میدان میں اب بھی بچے کھیلتے ہوں گے مگر اس کے بچے؟اس کے بچے تھے کہاں ؟ جووہ
ان بچوں میں شامل ہوتے۔ وہ میدان،وہ قصبہ اور وہ جنت بہت پیچھے رہ چکی تھی
اور وہ بہت آگے نکل آیاتھا۔ اس کا رشتہ نسل در نسل چلے آنے والے تسلسل سے کٹ
چکا تھا اور وہ ایک طرح سے زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکا تھا ۔
کسی دن اسی پرائے شہر میں،اسی تنور میں روٹیاں پکاتے پکاتے، اس کا جسم اس کی
روح کا بوجھ اٹھانے سے سے انکار کر دے گا۔اس کے تن کا خستہ مکان ڈھے جائے
گا۔اس دن یا شاید کئی آنے والے دنوں تک تنورمیں آگ نہیں جلے گی۔تب بلند چار
دیواریوں والے خوبصورت گھروں کے اندر رہنے والی نرم ہاتھوں،اجلے کپڑوں ،جاگتے
جسموںاورمیدے کی سی کھِلی ہوئی رنگت والی کتنی ہی عو رتوں کوایک دن یا شاید
کئی دنوں کے لئے آرام تج دینا پڑیگا۔توے پر روٹیاں سینکتے ہوئے جب آگ کی حدت
ان کے نرم و نازک ہتھیلیوں تک پہنچے گی تو شاید انہیں کچھ دیر کے لئے تنور
والا یاد آ جائے جو خود ،تواپنی ناکام خواہشوں کی آگ میں جلتا رہا مگر اس کی
بدولت کتنے ہی وجودآگ کی حدت سے بچے رہتے تھے۔
اس نے قصبہ نہ چھوڑا ہوتا تو اس کے وجود کا ایک نامحسوس حصہ، میزان کے دن تک
اسی میدان میںچیچو چیک گلیریاں،پٹھو گرم یا کرکٹ کھیلتا رہتا۔مگر یہ بھی اک
مفروضہ تھا۔کوئی بولتا ہے ،کوئی چپ سادھ لیتاہے اورکوئی شور کرتا ہے مگر ہوتا
وہی ہے ،جو ہونا ہوتا ہے ۔اس دنیا میں بقا ہے تو فنا کو ہے،باقی سب کوئی دنوں
کا فسانہ ہے۔
رات پوری طرح سے بھیگ چکی تھی مگرنواز اپنے ماضی کے ان دھندلکوں میںکھو چکا
تھا جہاں سے فوری طور پر لوٹنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔وہ کوئی کہانی
یاکوئی جگ بیتی نہیں سنا رہا تھا۔یہ تو اس کی اپنی ہڈ بیتی تھی یا شاید اس کا
اپنا ذاتی مرثیہ تھا۔ اندر کے دکھ نے اس کے بیانیہ میںاز خود ایسی لذت بھر دی
تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسے سنے بغیر اٹھنا نہیں چاہتا تھا۔
اُس روز میں کئی دنوں کے بعد کرکٹ کھیلنے کے لئے بند گلی کے آخر والے میدان
میں گیا تھا ۔گیند غیر آباد مکان کے صحن میں جا گری تھی۔میں حسبِ معمول بندر
کی سی پھرتی کے ساتھ دیوار پر چڑھ کر صحن میں کود گیا تھااور پھراپنے سامنے
ایک لڑکی کو کھڑے پا کرکچھ دیر کے لئے پتھرا گیا تھا۔لڑکی کے جسم کا بالائی
حصہ برہنہ تھا اورگیند لڑکی کے قدموں میں پڑی تھی ۔مجھے دیکھ کر اس نے تیزی
سے اپنے ہا تھوں میں پکڑی ہوئی قمیض کو کندھوں تک اوپر اٹھالیا تھا۔یہ سب کچھ
اتنی تیزی کے ساتھ اور غیر متوقع طور پر ہوا تھاکہ نہ تو میں نظریں پرے ہٹا
سکا تھا اور نہ ہی وہ پردے کی اوٹ میں جا سکی تھی۔وقت کی گردش جیسے رک گئی
تھی۔ ہمیں ایکدوسرے کے آمنے سامنے کھڑے جیسے صدیاں بیت گئیں تھیں۔تب میدان سے
آنے والی پکار’’اوئے کتھے مر گیاایں‘‘ نے ہمیں جیسے جھنجھوڑ کر جگا دیا۔میں
نے اس کے قدموں میں پڑی ہو ئی گیندکی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اوراپنی
صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ’’گیند اندر آ گئی تھی اور میں پہلے کی طرح اِسے
لینے کے لئے دیوار پھاند کر اندر آ گیا تھا۔میں کئی دنوں کے بعد کھیلنے آیا
تھا اور مجھے ہرگز ہر گزخبر نہیں تھی کہ یہ گھر آباد ہو چکا ہے‘‘
اس نے کھڑے کھڑے اپنے پاؤں کی ٹھوکرسے گیند میری طرف اُچھال دیااور پھر جیسے
اپنے آپ سے تخاطب کرتی ہوئی بولی’’بے آباد گھروں کی دیواریں پھاندنا کتناآسا
ن ہوتا ہے؟‘‘
’’کیا جی کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں ۔اپنی گیند پکڑو اوربھاگ جاؤ‘‘میں نے گیند پکڑ لی مگر اس کی بات
ختم نہیں ہوئی تھی’’اور ہاں،آئندہ گیند اندر آ جائے تو دیوار نہیں
پھاندنا،دروازہ کھٹکھٹا دینا۔یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول دیا جاتاہے‘‘
’’جی !اچھاجی!‘‘گیند ہاتھ میں آ جانے کے بعدمیں نے پلٹنے میں دیر نہیں لگائی
مگر میرے قدم لا شعوری طور پر پھردیوار کی طرف بڑھ گئے۔اس سے پہلے کہ میں
دوبارہ دیوار پر چڑھتا۔ایک آواز نے’’دروازہ دوسری طرف ہے‘‘کہہ کر میرے قدم
روک دئیے۔میں نے اپنی سمت درست کی۔دروازے کی طرف آیا ۔کنڈی کھولی اور باہر
نکلنے سے پہلے یونہی پلٹ کر پیچھے دیکھ لیا مگر وہ پردے کی اوٹ میں جا چکی
تھی۔
اس رات پھر مجھے نیند نہیں آئی۔اس رات مدھو بالا نے مجھے سونے نہیں دیا تھا
اور آج بند گلی والی نے میری نیند اڑا دی تھی۔کسی لڑکی کو اتنے قریب سے
دیکھنے کا یہ میرا پہلاواقعہ تھا۔دیوار پھاند کرصحن میں داخل ہونے سے لے کر
دروازے سے نکلنے تک کامختصر سا دورانیہ میرے ذہن سے چپک گیا تھا۔ابدیت کا وہ
لمحہ جو اب تک محض مفروضات کی دنیا میں تھا اور جسے روشنی کی رفتار سے سفر
کرتی ہوئی کسی خلائی گاڑی میںجنم لینا تھا ،وجود میں آ چکا تھا۔بند گلی کے
آخر والا میدان تھا۔میدان میں گھپ اندھیرا تھا۔اور وہیں کہیں ایک روشن دروازے
میں ایک نیم روشن ہیولاکھڑا تھا۔ہیولے پر کبھی مدھو بالا اور کبھی اُس لڑکی
کا گمان ہوتا تھا،میں جس کے نام سے بھی ناواقف تھا ۔ہیولا بار بار پکارتا
تھا’’یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر کھول دیا جاتا ہے‘‘
یہ مکان حمیدہ کے باپ کا ،جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا،آبائی گھر تھا
۔جو اس کے اس کے سر کاری ملازم ہونے کے ساتھ ہی غیر آباد ہو گیا تھا۔جب
پاکستان بنا تھا تو وہ گور داسپورکے بھارت میں رہ جانے والے کسی قصبے میں
نوکری کر رہا تھا۔ضلعے ،قصبے اور علاقے کی آبادی میں مسلمانوں کی واضح اکثریت
کے پیشِ نظر عام خیال یہ تھا کہ یہ ضلع پاکستان کا حصہ بنے گا۔ مسلمان مطمئن
تھے اور یہاں سے ہجرت کرنے کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی عام خیال کی وجہ
سے حمیدہ کے باپ نے فسادات کے خطرے کے باوجود اپنے اہلِخانہ کو اپنے آبائی
قصبے میں بھیجنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
باؤنڈری کمیشن(boundry-commition)کے گورداسپور کو بھارت کا حصہ قرار دینے کے
غیر متوقع فیصلے اور سکھوںکے مسلمان آبادیوںپر اچانک حملوں نے مسلمانوں
کودہلاکر رکھ دیا۔سرحد زیادہ دور نہیں تھی،قصبے والوں نے قافلہ بنا کر پیدل
سرحد عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔سرحد سے ذرا پیچھے تک کا سفر توٹھیک سے کٹ
گیامگر عین سرحد پر سکھوں کے جتھے نے حملہ کیا تو قافلے والے متحد نہ رہ سکے
۔جس کا منہ جس طرف تھا وہ اس طرف بھاگ کھڑا ہوا۔فریدہ باپ کے کندھے پر تھی
اور حمیدہ ماں کی انگلی تھامے ہوئیتھی۔باپ اور فریدہ سرحد پار کر آئے ۔ حمیدہ
اور ماں پیچھے رہ گئیں۔تیسرے دن حمیدہ ایک دوسرے قافلے کے ساتھ آ کر باپ
اورفریدہ سے آ ملی مگر ان کی ماں کا پتہ نہیں چلا۔کوئی کہتا تھا کہ سکھوں نے
اسے قتل کر دیا تھا۔کوئی کہتا تھا کہ وہ زندہ بچ گئی تھی مگر دریا عبور کرتے
ہوئے ڈوب گئی تھی ۔جتنے منہ تھے ،اتنی ہی باتیں تھیں۔چند دنوں میں لاکھوں
ہزاروںہنستے کھیلتے گھراُجڑ گئے تھے۔
سرحد پار سے آنے والے گھرانوں میںشاید ہی کوئی ایسا گھرانہ تھا ،جس کا کوئی
فرد قتل یا لا پتہ نہیں ہوا تھا۔قتل ہونے والوں کے وارثوںکو تو صبر آ گیا تھا
مگر لا پتہ ہونے والوںکے لواحقین ہر روز اک نئی قیامت سے گزرتے تھے ۔کوئی خبر
لے آتا کہ اُس نے فلاں کے بارے میں فلاں سے سنا تھا ۔وہ زندہ بچ گیا
تھا،پاکستان پہنچ گیا تھااور فلاں جگہ بالکل خیریت سے ہے ۔لوگ نئی اُمیدیں لے
کراُن کے بتائے ہوئے پتے پر جاتے اور تازہ کہانیوںسے جھولیاں بھر کر اورمایوس
ہو کر لوٹ آتے۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھیں ۔لاکھوں عزتیں لٹی تھیں۔اک قیامت
گزر گئی تھی مگر نجومیوں اور فال نکالنے والوں کی لاٹری لگ گئی تھی۔اپنے
دھندے کو جاری رکھنے کی خاطروہ کسی کو نا امید نہیں کرتے تھے اور انہیں نئے
سپنے دکھا کر رخصت کر دیتے تھے ۔
نوکری کے سلسلے میں نگر نگر گھومتے گھومتے باپ بوڑھا اور بیٹیاں جوان ہو
گئیں۔پنشن کے دن قریب آئے تو اس نے قصبے میں لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔اک
عمرقصبے کے باہرگزار دینے کے بعد ،وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ قصبے میں واپس
آیاتھا تواس دوران ایک نئی نسل چڑھ چکی تھی،ایک نسل جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز
پر دستک دے رہی تھی اور ایک نسل تقریبا ختم ہو چلی تھی۔وہ اپنے ہی آبائی قصبے
میں اجنبی تھے۔گلیاں ، مکان اور مکین جوں کے توں تھے۔نسل در نسل چلے آنے والے
رسم و رواج اور معاشرتی قدریں جوں کی توں تھیں ۔اور تو اور لوگوں کا رہن سہن
تک نہیں بدلا تھا۔بڑے بوڑھے پہلے کی طرح سے محلے کے کسی بھی بچے کو شرارت
کرنے پر ٹوکنے کا حق رکھتے تھے ۔بچے بلا تخصیص خود سے بڑوں کی عزت کرتے تھے ۔اپنے
پرائے کا سوال کم کم ہی اٹھتا تھا۔تا ہم لوگوں کی اکثریت یہ بھول چکی تھی کہ
بند گلی کے آخر والے مکان میں کبھی کوئی رہتا بھی تھا۔اس مکان کے مکین واپس
لوٹے تھے تو وہ قصبے سے اپنی لمبی غیرحاضری ،رہن سہن اور الگ پہناوے کی وجہ
سے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے۔
حمیدہ کے باپ کو اب بھی بہت سی راتیں بسلسلۂ ملا ز مت گھر سے باہر گزارناپڑتی
تھیں۔حمیدہ شاد ی شدہ تھی مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پرسسرال والوں سے جھگڑا
کرکے میکے آبیٹھی تھی۔گلی میں کھڑی چارپائیوں کے سامنے ٹانگیں پسار کر اوزار
بند بنتی ہوئی عورتیں اپنا زیادہ تر وقت حمیداںکے سسرال سے میکے آ بیٹھنے کی
ممکنہ وجوہات کی باتوںمیں گزارتیں ۔شادی کے سالوں بعد تک ماں نہ بن سکنا
اورلڑکے کا آوارہ اور بد چلن ہونادو بڑی ممکنہ وجوہ تھیں۔
کسی مردکے نمودار ہوتے ہی سر گوشیاں دم توڑ جاتیں،پھلجڑیاں چھوڑتے ہوئے لبوں
پر تالے جگ جاتے اور ایک گہری چپ چھا جاتی۔تا ہم میری عمر کے لڑکوں کی بات
اور تھی ۔عورتوں کی اکثریت انہیںابھی بچے سمجھتی تھی ۔اِن’’ بچوں ‘‘کا
عورتوںکی باتوں کو عمداً سن لینا بھی اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اوربعض
باتیںعمداً ان کے کانوں میں ڈال دی جاتی تھیں۔ تاہم بعض باتیں انتہائی خفیہ
کے زمرے میں آتی تھیں اور کوشش کے با وجود ان کو سن پانا ممکن نہیں ہوتا
تھا۔بہت کوشش کے بعد میں بس اتنا جان پایا تھا کہ سرگوشیوں میں کی جانے
والیگفتگو کا موضوع حمیدہ یا اس کی چھوٹی بہن نہیں بلکہ ان کی گم شدہ ماں ہوا
کرتی ہے ۔عورتوں کی زیادہ تر سرگوشیوں کا حاصل اکثر ایک ایسی پھلجھڑی ہوتی
تھی، جسے سن کرسننے والیوں کے چہرے لال گلال ہو جاتے تھے۔ بہر حال ایسی کوئی
وجہ ضرور تھی کہ محلے کی لڑکیوں کا اس نئے آباد شدہ گھر میں جانا،شجرِ ممنوعہ
کا پھل چکھنے کی طرح نا پسندیدہ ٹھہر ا تھا۔
کئی ہفتوں تک کرکٹ کے ایک ٹور نا منٹ کے میچوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے ،میںبند
گلی والے میدان میں کھیلنے جانہ سکا تھا اور یہ ایک طرح سے اچھا ہی
ہواتھا۔دیوار پھاند کرگیندواپس لانے کا واقعہ میرے ذہن سے محو ہو چلا تھااور
نیندبرابر آنے لگی تھی۔ ایک شام جب میں اسکول سے گھر لوٹ رہا تھاتوحمیدہ مجھے
گلی کی نکڑ پر مل گئی۔میں نے آنکھ بچا کر گزرنا چاہا تواس نے آگے بڑھ کر
میراراستہ روک لیا’’پھر نہیں آئے کبھی گینداٹھانے؟‘‘
’’اس دن کے بعد میں کھیلنے آیا ہی نہیں‘‘
’’ بہانہ تسلی بخش نہیں۔ویسے کسی نے روک دیا ہو تو دوسری بات ہے‘‘
’’روکا تو خیر کسی نے نہیں‘‘
’’تو پھر آؤ گے ناں؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کب؟‘‘
وہ رات پھرایک مشکل رات تھی۔کب؟،کب؟،کب کا سوال ہتھوڑے کی طرح میرے ذہن
پرچوٹیں لگا رہا تھا۔حمیدہ چو بیس پچیس سالوں کی مناسب سی قدوقامت اور خاصے
گواراخد و خال والی لڑکی نہیں ،بلکہ ایک عورت تھی۔اس کی جلد کی رنگت قصبے کی
عورتوں سے زیادہ صاف تھی یا شایدگھر میں بند رہنے یادھوپ کے اثرات سے بچے
رہنے کی وجہ سے بہتر لگ رہی تھی۔اپنی خوش لباسی اور رکھ رکھاؤکی وجہ سے اصلی
نہیں تودیسی میم ضرور لگتی تھی۔
وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑی تھی اور اس کی عمر کی عورت سے میرا بات کرنا کوئی
میعوب بھی نہیں تھا۔جو بات مجھے اس کے گھر جانے سے روکتی تھی،یہ تھی کہ اس
گھر میں کوئی مرد نہیں تھا ۔ تب میں اپنی عمر کے زیادہ تر لڑکوں کی طرح زمانے
کی اونچ نیچ سے نا واقف چودہ پندرہ سالوںکا سیدھا سادہ لڑکا تھاجو اتنا ضرور
جانتا تھا کہ جب کوئی لڑکا اور لڑکی چھپ کر ملتے ہیں تو کچھ گڑ بڑ کی بات
ہوتی ہے ۔وہ بات کیا ہوتی ہے ؟میری عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر تھی۔
گھٹائیں کئی دنوں سے فضا میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔وقفے وقفے سے بوندا
باندی اور بیچ بیچ میں زور دار بارش کے چھینٹوں کے تسلسل نے کاروبارِزند گی
کو قریب قریب مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔بچے بارش میں نہا نہا کر ،پوڑے کھا کھا
کر اور گڑ کا گٹااُڑا اُڑا کراکتا چکے تھے مگرپوہ ماگھ کی جھڑی تھی کہ پیچھا
ہی نہیں چھوڑ رہی تھی ۔بوندا باندی بارش کی شکل اختیار کر لیتی توبچے بارش کے
چھینٹوں سے محفوظ کسی جگہ پر بیٹھ کرگلی کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے پانی میں
کاغذ کی کشتیاں چھوڑنے لگتے۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے جانے کب،کب؟کب؟کب کا ہتھوڑا میرے ذہن پر چوٹیں لگانے
لگااور دستک پر کھول دئیے جانے والا دروازہ آپ ہی آپ میرے سامنے آ گیا۔حیرت
اور تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میںدیوار کے ساتھ ساتھ چلتا اور خود کو
بارش میں بھیگنے سے بچاتا ہوا حمیدہ کے مکان تک پہنچ گیا۔بارش کے پانی نے
دیواروںکو گیلا کر کے پر اسرار کر دیا تھا۔دستک دینے کے بعد مجھے زیادہ
انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم دروازہ کھولنے والی حمیدہ نہیں تھی بلکہ اس کی
چھوٹی بہن فریدہ تھی ’’باجی حمیدہ ہیں؟‘‘
’’ہیں مگر سو رہی ہیں۔کوئی کام ہو تو بتا دیں،جگادیتی ہوں‘‘
’’کوئی خاص کام نہیںہے،پھر آ جاؤں گا‘‘
’’پھر کیوں؟بیٹھو۔باتیں کرتے ہیں۔اتنی دیر میں وہ جاگ جائیں گی‘‘
’’نہیں ،میں پھر آ جاؤں گا‘‘
’’پھر کیوں؟اب کیوںنہیں ؟میں کیا بری لگتی ہوں؟‘‘
’’ایسا کچھ نہیں‘‘
‘‘تو پھر اندرآ جاؤ‘‘اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا
برآمدے میں دو کرسیوں کے بیچ ایک میز رکھی ہوئی تھی اور میز پر پانی کا جگ ،ایک
گلاس اورکچھ رسالے رکھے ہوئے تھے۔
’’چائے پیو گے؟‘‘
’’چائے؟‘‘
’’ہاں۔چائے۔تم تو چائے کے نام پر ایسے چونکے ہوجیسے چائے کا نام پہلی بار سنا
ہو؟‘‘
’’نام تو سنا ہے مگرپی نہیں کبھی؟‘‘
’’اوہ میرے خدا!پی نہیں کبھی۔باجی ٹھیک ہی کہتی تھی۔چونڈہ واقعتاًگاؤں ہے ۔جوان
جہان لڑکا چائے سے نا واقف ہے۔ اب توتمہیں چائے پلانا ہی پڑے گی‘‘
’’زبردستی ہے‘‘
’’ ہاں ۔ز۔بر۔د۔ستی ۔ہے ‘‘ وہ ہنس دی
وہ چائے بنانے یا پکانے رسوئی میںچلی گئی۔ میں نے ایک رسالہ اٹھایا، دوسرا
رسالہ اٹھایااور پھر ایک ایک کر کے رسالے اٹھاتا چلا گیا۔سب کے سب فلمی رسالے
تھے ۔سبھی رسالوں کے سرورقوں پر فلمی اداکاراؤں کی تصویریں تھیں۔مدھو بالا کی
تصویر کے علاوہ میں کسی اور فلمی اداکارہ کو نہیں پہچانتا تھا۔میں نے مدھو
بالا کی تصویر والا ایک رسالہ اٹھالیااور تصویریں دیکھنے اور ان کے نیچے لکھے
ہوئے نام پڑھنے لگا۔وہ چائے لے آئی تھی۔میں نے پیالی اٹھائی مگر چائے کے گرم
گھونٹ نے میرے منہ کو جلا دیا۔ وہ ہنس دی ۔
’’ اچھے بچے ،چائے ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں ‘‘
’’ اچھا جی ‘‘ کہہ کرمیں نے چائے کا پیالی ایک طرف ٹھنڈی ہونے کے لئے رکھ دی
۔کافی دیر تک میں نے پیالی نہیں اٹھائی تو پوچھنے لگی ’’ دن میں کتنی بار
چائے پیتے ہو ؟ ‘‘
’’ایک بار بھی نہیں ‘‘
’’ کیا کہا؟‘‘
’’ایک بار بھی نہیں ۔یہاں چائے کارواج نہیں ہے‘‘
’’میں سمجھ رہی تھی کہ تم مذاق کر رہے ہومگر جس انداز سے تم نے ڈر کرپیالی
ایک طرف رکھی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تم واقعتاً پہلی بارچائے پی رہے
ہو۔اب تو تم سے دوستی کرنا ہی پڑے گی۔کرو گے دوستی؟‘‘
’’میں تم سے دوستی کیسے کر سکتا ہوں؟ تم تو لڑکی ہو‘‘
’’ لڑکی سے دوستی میں کیا برائی ہے؟ ‘‘
’’یہ تو مجھے معلوم نہیںمگر ایسے ہی سنا ہے‘‘
’’کس سے سنا ہے؟‘‘
’’ہر کوئی ایسا ہی کہتا ہے‘‘
’’لڑکا لڑکی سے شادی تو کر سکتا ہے ناں؟‘‘
’’ ہاں ۔شادی تو کر سکتا ہے ‘‘
’’تو پھر شادی کر لو ‘‘ وہ کھکھلا کر ہنس دی’’ڈرو نہیں ،میں مذاق کر رہی
تھی۔تمہاری ابھی شادی کی عمر نہیں ہے اور میرا ابھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں
ہے۔البتہ دوستی ٹھیک ہے‘‘
’’آپ کہتی ہیں تو دوستی کر لیتے ہیں‘‘
’’ پکی بات؟‘‘ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
’’پکی بات‘‘ غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ بھی آگے بڑھ گیا۔
کسی لڑکی کی موجودگی میںکسی فلمی رسالے کی ورق گردانی کرنے اور لڑکیوں کی
تصویریں دیکھنے کا یہ میرا پہلاموقعہ تھا۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کہ میں
کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔رسالوں کی ورق گردانی کرتے کرتے ہم اکتا گئے توفریدہ
نے فلموں کی باتیں چھیڑ دیں۔اس نے ڈھیروں فلمیں دیکھ رکھی تھیں۔فلموں کی
باتوں سے وہ فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کی نجی زندگی کی باتیں کرنے لگی۔
میں کسی تماشا گاہ میں تماشا دکھانے والے کے سامنے بیٹھے ہوئے معمول کی طرح
گم سم بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا۔
اپنے خد و خال ،چہرے کے بناؤ سنگھار،لباس کی تراش خراش اور اپنی ختم نہ ہونے
والی باتوں کی بنا پر وہ مجھے اسی طلسماتی دنیا کی رہنے والی لگ رہی تھی،جس
کے رہنے والے فلم اسکرین پرنمودار ہو کر ڈھائی تین گھنٹوں تک تماشائیوں
کوسپنوں کے جہان کی سیر کراتے رہتے ہیں۔وہ جہان، جس میں رنگ ہی رنگ ،سکھ ہی
سکھ،خوشیا ں ہی خوشیاں اور قہقہے ہی قہقہے ہوتے ہیں۔ جب وہ مجھے یہ بتا رہی
تھی کہ وہ بہت سے فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کودیکھ بھی چکی ہے تو مجھے
یقین نہیں آ رہا تھا،وہ مجھے پرلے درجے کی جھوٹی لگ رہی تھی۔انہیں کوئی کیسے
دیکھ سکتا ہے ؟انہیں کوئی کیسے چھو سکتا ہے؟ان دنوں فلمی دنیا والے ،مجھے ہی
نہیںان گنت لوگوں کو، رسائی سے ماوراء کوئی مخلوق لگتے تھے ۔ اگر یہ لڑکی
انہیں دیکھ چکی ہے اور انہیں چھو چکی ہے تو یقینا یہ لڑکی دوسری لڑکیوں سے
مختلف ہے،مجھے اس کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر اس کی باتوں کو جھٹلانے
کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں تھی۔
وہ باتیں کرتی جا رہی تھی اورمیں ٹکر ٹکر اس کا منہ دیکھے جا رہا تھا۔مجھے
ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ میں ایک گہری نیند میں ہوںاورکوئی خواب دیکھ رہا
ہوں۔معاً گہرے بادلوں کے پیچھے سے ایک پری نمودار ہوتی ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے
وہ آسمان سے اُترکر میرے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔میرا ہاتھ تھامتی ہے اور دوبارہ
اُڑنا شروع کر دیتی ہے۔اس کے ہاتھ میں ہاتھ آتے ہی میرا وجود روئی کی طرح
ہلکا ہو جاتاہے اورمیں ہوا میں تحلیل ہونے لگتا ہوں۔بلند ہوتے ہوتے ہم بادلوں
سے جاٹکراتے ہیں۔
آسمان میں جمع ہونے والے گھنے سیاہ بادل آپس میںٹکرائے اور اس زور سے بجلی
چمکی جیسے کہ ہزار ہزار واٹ(watt) کے کئی بلب ایک ساتھ جل اُٹھے ہوں۔چمک کے
بعد بجلی اس شدت کے ساتھ کڑکی کہ ہم دونوں گھبرا کر بے ساختہ ایک دوسرے کے
ساتھ لپٹ گئے۔ہماری سانسیں بے ترتیب ہو گئی تھیںاورہمارے دل دھک دھک دھڑک رہے
تھے۔یہ کیفیت بجلی کی کڑک سے بھی کم وقت رہی اور پھر ہم جس تیزی کے ساتھ ایک
دوسرے سے چمٹے تھے، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔
’’ڈرپوک‘‘ ہمارے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔بجلی کی چمک اور کڑک تھی ہی ایسی تھی
کہ کسی کا بھی دل دہل سکتا تھامگر اُٹھ کر ایک دوسرے سے چمٹ جانے والی بات
غیر متوقع تھی۔آج یہ بات سوچتا ہوںتو یہ بات عجیب نہیں لگتی ۔عورت بزدل سے
بزدل مرد سے دلیری کی توقع کرتی ہے۔اسے اپنامحافظ گردانتی ہے۔ شاید یہ بات
عورت کی فطرت میں شامل کر دی گئی ہے۔کمزور سے کمزور مرد بھی وقت آنے پر عورت
کے لئے ڈھال بن جاتا ہے ۔شاید یہ بات مرد کی فطرت میں شامل کر دی گئی ہے۔
’’یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے‘‘اس نے پہلی بار کوئی ایسی بات کی ،جو میری سمجھ
سے باہر نہیں تھی۔
’’ہاں ۔ یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے‘‘
’’تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے ۔۔۔۔۔‘‘وہ اپنی بات مکمل کئے بغیر رک رک گئی
’’جیسے کیا؟‘‘
’’جیسے یہ بجلی ضرور کہیں گری ہے‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
اُس کی بات کی بے ساختگی سے لگ رہا تھا کہ وہ چند لمحے پہلے رو نما ہونے والے
واقعے کو یکسر بھلا چکی ہے۔اِس کے بر عکس میںابھی تک اُس کے ساتھ بے اختیار
لپٹ جانے کی غیر معمولی ’’حرکت ‘‘میں اَٹکا ہوا تھا۔بجلی پہلی بار نہیں چمکی
تھی۔میں نے بجلی کا کڑاکا پہلی بار نہیں سنا تھا۔پھر ایسا کیوں ہوا تھا؟اس کی
بڑی بڑی ٹھہری ٹھہری آنکھوں میںوہی پہلے والی بیباکی لوٹ آئی تھی۔
رات کو چڑیلوںکے ویران جگہوں میں گھومنے کے باتیں ان دنوں میں بہت عام تھیں۔
یہ سب کچھ رات کے وقت ہوا ہوتا تو شاید میں اُسے کوئی چڑیل سمجھ کرشاید میں
بھاگ چکا ہو تامگریہ رات کی بات نہیں تھی۔ ذہن میںچڑیلوں کیا خیال آیاتومیرا
دھیان چڑیلوں کے مڑے ہوئے پاؤں کی باتوں کی طرف چلاگیا ۔کرسی ایک طرف کھسکا
کر میں نے’’احتیاطاً ‘‘ اس کے پاؤں کی طرف دیکھ کر اطمینان کر لیا کہ وہ چڑیل
نہیں ہے۔
مجھے اپنے آپ پر ہنسی آ گئی ۔میں اسے پہلی بار تھوڑی دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے
پہلے اس کے دل کی متلاطم دھڑکن اس بات کی غمازی کرتی تھی کہ وہ چھوٹی عمر کی
ایک بڑی لڑکی تھی ،جو بچپن کو تو پیچھے چھوڑ چکی تھی مگر جوانی کی سرحدمیں
بھی داخل نہیں ہوئی تھی۔ہاں!عمر میں مجھ سے کچھ ہی بڑی ہونے کے با وجود ، وہ
دنیا کو دیکھنے اور جاننے کے معاملے میںمجھ سے کہیں آگے تھی۔قصبے کی لڑکیوں
سے مختلف ہونے ،نے اسے قصبے کی لڑکیوں کے لئے اور اس کی باتوںنے اسے میرے لئے
پر اسرار بنا دیا تھا۔اتنا پراسرارکہ اسے دیکھنے کے بعداس کے قریب ہونے کی
خواہش دل میں جاگنے لگتی اوراس کے قریب ہونے پر ایک عجیب سا ڈر ذہن کے ساتھ
چپکا رہتا۔
قصبے کی بے زبان اور گاؤ صفت لڑکیوں کے بر عکس وہ دھوم دھڑکے دار لڑکی تھی۔جس
کی باتیں اورشخصیت دونوں لچھے دار تھیں۔ اس کی عمر کی قصبے کی لڑکیاں بکھرے
بالوں ،ڈھیلے ڈھالے اور میلے کچےیلے کپڑے پہنے گلیوںگلیوں پھرتی رہتیں۔ویران
چہرے اُن کا خاصہ تھے۔فارغ وقت میں ان کی سر گر میاں گڈی اور گڈے کے کھیلوں
تک محدود تھیں۔بہت ہوتا تو وہ بالوں کو تیل سے چپڑ کر گوندھ لیتیں۔ دو ’’گتاں‘‘
کر لیتیں۔پھیری والے سے دو تین آنوں میں بھرائی ہو ئی کریم کی شیشی سے چہرے
کو لیپ پوت لیتیں۔دو پیسے کی سرخ سیاہی کی ٹکیا سے ہونٹ رنگ لیتیں۔دانتوں کو
کیکر کے ’سک‘ سے چمکا لیتیں اور بالوں میں لکڑی کا کلپ لگا کربزعمِ خود حسن
کے اعلےٰ ترین معیاروں کو چھو لیتیں۔یہ بھی کبھی کبھاربیاہ شادیوں پر اور صرف
چند گھنٹوں کے لئے ہو تا۔ورنہ تو ان کی زندگی گلی کوچوں میں کسی سنگ تراش کے
ادھورے مجسموں کی لڑھکتے لڑھکتے گزر جاتی۔بڑی بوڑھیوں کے مطابق بن سنور کر
انہیں کونسا اپنے خصموں کو رجھانا تھا۔
ان کے بر عکس فریدہ گلی سے گزرتی تواسے دیکھ کر کچی عمر کے لڑکے دل کے اندر
ہی اندر’’شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں ‘‘کی قسم کے شعرالا پنے لگتے ۔بڑی
عمر کے لڑکے دوسروں سے نظریںبچا کر اسے آنکھوں میں سمو لینے کی کوشش کرنے
لگتے۔الغرض،قصبے کے پر سکون ماحول کے تالاب میں کسی نے انجانے میں کوئی پتھر
دے مارا تھا اوراس پتھر سے پیدا ہونے والی لہروں کی پیدائش کا عمل طویل سے
طویل تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔
تب یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ میں بھی کسی دن اِس زلف
کااسیرہو جاؤں گااور ایک نا کردہ گناہ کی پاداش میں مجھے کالے پانی کی سزا ہو
جائے گی ۔ شروع شروع میں اس کھیل میںمیری دلچسپی ،بند راور بندریا کے تماشے
میں اس چھوٹے بچے کی دلچسپی سے زیادہ نہ تھی ،جسے ڈگڈگی کی آواز چوپال میں لے
تو جاتی ہے مگر تما شے کا حصہ بننے پر نہیں اکساتی،خاص طور پر اس مرحلے سے تو
ہر بچے کی جان جاتی ہے جب مداری اپنے سامنے بیٹھے ہوئے بچے سے پوچھتا ہے۔
’’بند ر سے لڑو گے؟‘‘مداری بچے کو للکارتا ہے اور جب بچہ ’’ہاں ‘‘ میں جواب
دے دیتا ہے تواس کی انا سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے’’تم اس سے نہیں لڑ پاؤ
گے۔یہ بہت بہادر ہے‘‘
’’میں بھی بہت بہادر ہوں‘‘
’’یہ بہت چالاک ہے‘‘
’’میں بھی بہت چالاک ہوں‘‘
’’یہ بہت ہوشیار ہے‘‘
’’میںبھی بہت ہوشیار ہوں‘‘
مدار ی تواتر کے ساتھ ترپ کے پتے پھینکتا جاتاہے اور جوابات اگلواتاجاتا ہے
اور پھرآخر میں پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے
’’یہ بہت حرامی ہے‘‘
’’میں بہت ۔۔۔۔۔۔‘‘
بچہ روانی میں مداری کامطلوبہ جواب دے دیتا ہے توبیسیوں صحت مند قہقہوں کی
خفت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ خفت ہر بچے کو مداری کے سامنے بیٹھنے اور تماشے
کا حصہ بننے سے روکتی ہے مگرہر تماشے میں کسی نہ کسی بچے کو، کبھی مداری کے
اکسانے پر ،کبھی اپنی مرضی سے اپنی بہادری کا ثبوت دینے کے لئے یا کبھی
دوسروں کے اصرار پر مداری کے سامنے بیٹھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر
تماشے کے لوازمات پورے نہیں ہوتے۔ بچے کے مداری کے سامنے بیٹھنے کی وجہ کوئی
بھی ہو،تماشے کا اختتام ہمیشہ مداری کے سامنے بیٹھنے والے بچے کی تضحیک پر
ہوتا ہے۔
اس گھر کے پھر سے آباد ہونے سے پہلے اس کے بارے میںعجیب و غریب باتیں مشہور
تھیں۔کوئی کہتا تھا کہ اس گھر میں چڑیلیں رہا کرتی تھیں ،جس کی وجہ سے اس کے
مکینوں کو گھر چھوڑنا پڑا تھا ۔کسی کا کہنا یہ تھا کہ اس مکان کے پچھواڑے میں
ایک کنواں ہوا کرتا تھااور اس کنوئیں میں پرانے وقتوں کا ایک خزانہ دفن
تھا۔جس کی حفاظت پر ایک سانپ مامور تھا۔ایک رات مکینوں کواشارہ ہوا کہاگر وہ
دودھ یا پوت میں سے کوئی ایک چیزسانپ کو بھینٹ کر دیں تو سانپ ان کوخزانے تک
جانے کا راستہ دے دے گا۔انہوں نے دودھ دے دیا مگر راستہ نہیں دیا اور خزانے
سمیت غائب ہو گیا۔ان باتوں میں کتنی سچائی تھی ؟کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا
تھامگر نقل مکانی کر کے چلے جانے والے ہندوؤں میں سے کوئی ایک ہر سال چھ
مہینیکے بعد آتا اور پولیس کی نگرانی میں اپنے آبائی گھرمیں کھدوائی کروا
کردفن شدہ سونااور سونے کے زیورات واپس لے جاتا۔ اس کے واپس جاتے ہی ، باقی
ماندہ متروکہ مکانوں میں رہنے والے اپنے اپنے مکانوں کی چھتیں دیواریں اور
فرش ٹٹولنے لگتے۔خیر و برکت کے لئے پہنچے ہوئے پیروں اور فقیروں سے مشورہ کیا
جاتا۔
نجوم اور فال نکالنے کا دھندہ ٹھنڈا پڑنے کے بعد کچھ لوگوں کے لئے خدا نے رزق
کی نئی صورت پیدا کر دی تھی۔قصبے کے پرانے مکینوں میںسے کوئی کسی جگہ کی نشان
دہی کرتا۔’’مل گیا تو مال آدھا آدھا‘‘ کے اصول پر کھدائی شروع ہو جاتی ۔ہفتوں
تک چوری چھپے کھدائی چلتی رہتی ۔ کھدائی کے بند ہو جانے کی اطلاع کھدائی کرنے
والوں کے اترے ہوئے چہرے اور ٹوٹی ہوئی کدالیں گھر گھر پہنچا دیتیں۔کبھی کبھی
ایسی خبریں بھی سننے کو ملتیں کہ فلاں گھر والوں کو سونا مل گیا تھا مگر سونے
کی بٹائی پر جھگڑا ہو گیا،پولیس آئی اورسارا سونا لے گئی۔
ان دنوں میں جب یہ مکان غیر آباد تھاتو مکان کے صحن میں گری ہوئی گیند
کواٹھانے کے لئے ،دیوار پھاند کر اندرجانے والے کسی لڑکے کو کبھی کوئی چڑیل
یا کوئی سانپ نظر نہیں آیا تھااور اب جب کہ یہ مکان آباد ہو گیا تھاتو گلی
والے کیا کیا پرانی باتیں لے بیٹھے تھے۔کبھی کبھی فریدہ کے پاس بیٹھے بیٹھے
مجھے شنیدہ باتیںیاد آ جاتیں توایک عجیب سا خوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا۔’
’ کہیں حمیدہ اور فریدہ چڑیلیں تو نہیں؟ یہ سارا سارا دن کیوں گھر میں پڑی
رہتی ہیں؟میں جو یہاں ہوں تو کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟ایسا خیال آتے ہی ،میں
اپنے دانتوں سے اپنی انگلی کو کاٹ کر اپنے آپ کو اپنے جاگتے ہونے کا یقین
دلانے کی کوشش کرنے لگتا۔’’بیٹھے بٹھائے تم اپنی انگلی کیوں کاٹنے لگتے ہو ؟
نیند آتی ہے کیا؟ ‘‘ فریدہ پوچھنے لگتی اور میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر
ہنس دیتی۔’’دوست ملا بھی تو بدھو۔‘‘ ہنسی کی آواز معمول سے بلند ہو جاتی تو
حمیدہ اپنے کمرے سے نکل آتی۔
’’کس بات پر ہنسی آ رہی ہے؟‘‘
’’کسی بات پر بھی نہیں۔ہم کب ہنس رہے ہیں؟‘‘فریدہ جھوٹ بول دیتی۔
’’تو یہ کھی کھی کی آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں؟‘‘
’’یہیں سے۔باجی! تم بھی کبھی کبھار ہنس لیا کرو۔ہنسی صحت کے لئے اچھی ہوتی ہے‘‘
حمیدہ کاچہرہ اتر جاتا’’پگلی۔ تم نہیں جانتی کہ نہ ہنسنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟‘‘
فریدہ مجھے اپنی شخصیت کے سحر میں پوری طرح اسیر کر چکی تھی۔دن نکلتے ہی میں
سہ پہر کا انتظار کرنے لگتا۔دہ پہر تک کا وقت تو پھر بھی کٹ جاتا مگر دوپہر
سے سہ پہر کا وقت پل پل گننے میں گزرتا۔ایک ایک کر کے گھر والے سو جاتے تودبے
پاؤں گھر سے نکلتا اور میںفریدہ کے ہاں چلا آتا۔فریدہ بھی میری طرح میرا
انتظار کر رہی ہوتی ۔فریدہ بڑے شہروں کے بازاروں کی،سینماؤں کی۔دوکانوں کی ،باغوں
کی،بہاروں کی اور مزاروں کی باتیں کرنے لگتی۔ وہ روز روز وہی باتیںدہراتی مگر
ہر بار ان کا ذائقہ نیا لگتا۔اکیلے بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی میرے دل میں خیال
آتا کہ میںبار بار سنی ہوئی باتیں سننے کے لئے کیوں اتنا بے قرار رہتا ہوں؟
تو خود پر ہنسی آجاتی ۔کھانے پینے کی گنتی کی چند چیزوں کی طرح باتیں بھی وہی
پرانی ہوتی ہیں،یہ تو انہیں دہرانے والے کا کمال ہوتا ہے جو،ہر بار انہیںاور
خوشبو دار اور ذائقے دار کر دیتا ہے ۔ ایک ہی کہانی صدیوں سے بار بار دہرائی
جا رہی ہے ۔’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘ کا جملہ شاید پہلی بار جنت میں بولا گیا
تھا،تب سے اب تک ان گنت بار بولے جانے کے باوجود جب اسے کوئی لڑکی یا کوئی
لڑکا ،کوئی عورت یا کوئی مرد کسی کے سامنے پہلی بار دہراتا ہے تولنے والے اور
سننے والے،دونوں کی نس نس میںسنسنی پھیل جاتی ہے ۔
’’اس چھوٹے سے قصبے میں تمہارا دل نہیں گھٹتا؟‘‘ وہ پوچھتی
’’نہیں تو‘‘
’’عجیب اُلو باٹے ہو تم۔مگر اس میں تمہارا بھی کوئی قصور نہیں۔مینڈک کے لئے
کنواں ہی کل کائنات ہوتا ہے۔ یہاں رہ رہ کر تو میں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں گی‘‘
اس کے منہ سے ’’اُلو باٹے ‘‘کے لفظ کی ادائیگی مزا دے جاتی ۔نام ہے میرا اُلو
باٹا،کھاتا ہوں میں گھی اور آٹا۔۔۔۔۔
۔۔’’ تم محلے کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی کیوں نہیںکر لیتی؟‘‘باتیں ختم ہو جاتیں
تو وہ اس سے سوال کرتا۔
’’اِس محلے کی لڑکیوں کے ساتھ دوستی؟ ناں بابا ناں‘‘
’’کیوں اِن میں کیا خرابی ہے؟‘‘
’’کوئی خوبی بھی تو نہیں‘‘
’’تمہیں کون سی خوبی چاہیے؟‘
’’اپنی عمر کے مطابق کوئی بات کریں۔اپنی عمر کے مطابق کوئی کھیل کھیلیں ۔گڈی
گڈے کا کھیل بھی کوئی کھیل ہے؟میری عمر کی لڑکی ’شاہ شٹاپو‘ کھیلتے اچھی لگتی
ہے؟ تم بھی تو اسی قصبے میں رہتے ہو ۔تم کرکٹ کیوں کھیلتے ہو؟‘‘
’’کرکٹ ؟ کر کٹ مجھے اچھی لگتی ہے ،اس لئے کھیلتا ہوں۔‘‘
’’مجھے بھی کوئی کھیل اچھا لگے گا توضرور کھیلوں گی‘‘
’’کب کھیلو گی؟‘‘
’’جب وقت آئے گا‘‘
’’وقت کب آئے گا؟‘‘
’’شاید بہت جلد۔‘‘وقت کی بات آجاتی وہ بیٹھے بٹھائے بے وجہ اداس ہو جاتی ۔اس
کی ساری شوخی ہوا ہو جاتی ۔وہ وہ بالکل مختلف نظر آنے لگتی ۔
’’میری ایک بات مانو گے؟‘‘
’’بات ماننے والی ہوئی تو ضرور مانوں گا‘‘بات کے ساتھ ماننے کی شرط لگا دی
جائے تودل خواہ مخواہ شک میں پڑ جاتا ہے تو جواباً ’’ماننے والی ہوئی تو‘‘کی
شرط لگا دیتا ہے۔
’’ماننے والی بات ہوئی تو مانوں گا، تونہ ماننے والی بات ہوئی‘‘
’’چلو بابا !مان لوں گا، بولو‘‘
’’کسی دن لاہور چلتے ہیں ۔وہاں میری کئی سہیلیاںہیں،کسی کے ہاں بھی ٹھہر
جائیں گے اور خوب سیر سپاٹا کر کے واپس لوٹ آئیں گے‘‘
’’باجی اجازت دے دیں گی؟‘‘
’’باجی تو اجازت نہیں دے گی‘‘
۔۔تو پھر؟‘‘
’’تو پھر؟‘‘
باجی حمیدہ سے پوچھنا گویا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا تھا۔ بلی کے گلے میں
گھنٹی باندھنے کی ہمت میں کر نہیں سکتا تھا اور فریدہ ’بوجوہ ‘کرنا نہیں
چاہتی تھی ۔مہینوںتک کئی کئی گھنٹے یہی باتیں چلتی رہیں۔مجھے بھی اس کی
باتیںدرست لگنے لگی تھیں۔ ایک روز فریدہ بیٹھے بیٹھے اچانک اچھل پڑی۔
۔۔’’آئیڈیا‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کسی کو بتائے بغیرگھر سے بھاگ چلیں‘‘
’’کسی کو بتائے بغیر گھر سے بھاگ چلیں؟‘‘
گھر سے بھاگ جانے کا واقعہ اس سے پہلے کم از کم ہمارے قصبے میں نہیں ہوا تھا
۔ یہ ایک بالکل ایک نئی بات تھی جو مجھے اچھی نہیں لگی مگرفریدہ نے ایسا ہوتے
ہوئے کئی فلموں میں دیکھا تھااورخاتمہ ہمیشہ بالخیرہوا تھا۔
’’کچھ نہیں ہو گا‘‘ فریدہ کا کہنا تھا۔فریدہ نے ایک دنیا دیکھی تھی اور اس کی
بات کا انکار کرنا مجھ جیسے’’ گاؤں جیسے قصبے کے‘‘سیدھے سادھے لڑکے کے لئے نا
ممکن تھا۔
جوں جوں سورج اپنی منزل کی طرف بڑھتا گیامیرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی ۔اسی
د ن میری بہن سسرال سے آئی تھی ۔اس کے بچے آنگن میں کھیل رہے تھے۔ میں چلا
گیا تو ماں کیا سوچے گی؟ماں کیا کرے گی؟ذہن کے کسی گوشے سے سوالات ابھرنے
لگے۔خود کو بے بس سا محسوس کر کے میں یکبارگی چلا اٹھا۔
’’ماں‘‘
۔۔’’کیا بات ہے بیٹے؟‘‘
’’سہ پہر میں، میں نے ایک عجیب سا سپنا دیکھا ہے‘‘
’’کیا؟‘‘وہ میرے پاس آ گئی
’’وہ یہ کہ میں مر گیا ہوں‘‘
’’مریں تمہارے دشمن۔ تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘
’’ایسے ہی۔ویسے میں مر جاؤں تو تم کیا کرو گی؟‘‘
ماں کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں ’’تو میں بھی مر جاؤں گی‘‘ ماں نے مجھے اپنے سینے
سے لگا لیا۔اس دن کے بعدسے میں نے ماں کو اور ماں نے مجھے نہیں دیکھا۔
گاڑی پلیٹ فارم پر آئی تو ایک سایہ درختوں کی اوٹ سے نکل کر میرے پاس آ
گیا۔رات کی گاڑٰ ی کے زیادہ تر ڈبے خالی تھے۔ہم ایک خالی ڈبے میں سوار ہوگئے
۔گاڑی اسٹیشن سے نکل کر کر فراٹے بھرنے لگی مگر فریدہ نے برقعے کا نقاب نہیں
اٹھایا۔اور پھر میرے کہنے پر نقاب اٹھایا توایک بجلی سی چمک گئی۔میرے سامنے
فریدہ نہیںحمیدہ بیٹھی ہوئی تھی
’’آپ‘‘
’’ہاں میں ‘‘ وہ منمنائی
’’اور فریدہ؟‘‘
’’اسے میں باپ کے سپرد کر آئی ہوں ‘‘
’’اور خود بھاگ آئی ہو؟‘‘
’’بھاگ کر نہیں آئی ،تمہیں واپس لینے آئی ہوں ۔فریدہ نے تمہیںبتایا تھا کہ وہ
کیوں گھر سے بھاگنا چاہتی ہے ‘‘
’’وہ کہتی تھی کہ اس چھوٹے سے قصبے میں اس کا دم گھٹتا ہے‘‘
’’فریدہ نے تم سے یہ کہا اور تم نے مان لیا۔پگلے د م توبڑے شہروں میں گھٹتا
ہے جہاں انسانوں سے زیادہ مشینیں ہوتی ہیں‘‘
’’مجھے کیا پتہ؟ ‘‘
’’فریدہ نے تمہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ میرے سسرال والے میرے رنڈوے جیٹھ
کیلئے جو چار بچوں کا باپ ہے ،اس کا رشتہ مانگ رہے ہیں ۔ مجھے میکے میں بٹھا
کر میرے باپ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔میرے اور فریدہ کے علاوہ اور کسی کو اس
رشتے پر اعتراض نہیں۔فریدہ اس شادی کے ڈر سے گھر سے بھاگنے کاپروگرام بناتی
رہی ہے ۔پگلی یہ نہیں جانتی کہ وہ دریا سے بچ بھی گئی تو دلدل میں پھنس جائے
گی۔ سمجھانے سے اس نے ماننا نہیں تھا۔اس لئے اس کی جگہ میں بھاگ آئی ہوں۔مجھے
تب تک لاہور میں ٹھہرنا ہو گا،جب تک اس کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل
جاتا۔تمہیں تب تک میرا ساتھ دیناہو گا‘‘
میں لاہور میں رک گیا۔ایک سال گزر گیا اور دوسرا سال لگ گیا ۔ فریدہ کے لئے
مناسب رشتہ ملنے سے پہلے ہی ماں نے اپنا وعدہ ’’کہ تم نہیں رہو گے تو میں بھی
نہیں رہوں گی‘‘پورا کر دیا۔ ہیضے کی وبا پھیلی تھی اور بہت سے لوگوںکو ساتھ
لے گئی تھی ۔میری ماں بھی ان لوگوں میںشامل تھی ۔ |