Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

اک دوستِ دیرینہ کا ملنا
اور دنوں کی طرح ،اس دن بھی، جلتی ہوئی دو پہر تھی۔اور دنوں کی طرح ،اس دن بھی،سنسان سڑک تھی ۔اور دنوں کی طرح ،اس دن بھی،ویران دل تھا۔اور دنوں کی طرح، اس دن بھی، میں اکیلا کالج سے لوٹ رہا تھا۔معاً دورافق سے ایک سیاہ ہیولا نمودار ہوا۔ہیولا میری طرف اور میںاس کی طرف بڑھ رہا تھا۔کم ہوتے ہوئے درمیانی فاصلے نے جلد ہی ہیولے کو ایک سیاہ فیشنی برقعے میں تبدیل کر دیا ۔خیموں جیسے دیسی برقعوں اور چادروں کے دیس میں فیشنی برقعے کا نظر آنا ایک واقعہ تھا۔اونچی ایڑیوںوالے سینڈلوں کی ٹپ ٹپ قریب سے قریب تر ہوتی گئی اور پھر میرے سامنے آ کر رک گئی۔
’’راجے! تم ‘‘ایک شناسا سی پکارآئی۔
’’راجے ! تم ‘‘۔۔’’راجے! تم ‘‘چپ کی جھیل میں لفظوں کا پتھر گرا تو خود ہی خودسناٹا بول اُٹھا۔
ایک شناسا سی آواز ،ایک شناسا سے لہجے اور ایک شناسا سے طرزِتکلم نے اپنی پہچان کرانے میں دیر نہیں لگائی۔میرے سامنے رابعہ کھڑی تھی’’ تم کہاں۔تم کہاں ؟‘‘کا الاپ ایک ساتھ گونجا۔چپ کا سریع ا لاثرزہر سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ہم ٹکر ٹکر ایک دوسرے کو گھورے جا رہے تھے ۔پھررابعہ نے اس چپ کو توڑا کہ وہ عورت تھی اور کسی عورت اور مرد کا یوں بر سرِ عام کھڑے رہنا اس شہر کی روایات کے خلاف تھا۔
’’تمہارے دائیں طرف میرا گھر ہے‘‘ رابعہ نے مجھے بتایااور مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی۔رابعہ کی دعوت کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔میں انکار نہیں کر سکا۔کچھ کہے بغیر میں دائیں طرف مڑ گیا۔۔رابعہ کے گھر میں داخل ہونے تک چپ کاسلسلہ بدستور رہا۔رابعہ نے دروازے پر دستک دی ۔ رابعہ کی ماں نے دروازہ کھولا اور رابعہ کے بتانے سے پہلے ہی مجھے پہچان لیا ۔
’’راجے ! تم اور یہاں؟‘‘دوسری پہچان میں بھی پہلی پہچان سے کم حیرانی نہیں تھی۔
رابعہ اور اس کے والدین چھ سات سال تک ہمارے پڑوسی رہے تھے۔اس کا باپ کوئی اہم سرکاری ملازم تھااوردن بھر ملاقاتیوں کے جمگھٹ میں گھرا رہتا تھا۔اپنے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کے پاس کسی اورسے ملنے کے لئے وقت اور فرصت نہیں تھی ۔اس کی بیوی اور بیٹی کے پاس البتہ وقت بھی تھا اور فرصت بھی تھی۔ہمسائیگی کے تعلق سے ،ان کا ہمارے گھر گپ شپ کے لئے آ نا جاناشروع ہو گیا تھا۔چو تھی سے نویں تک کی جماعتیں ہم دونوں نے ساتھ ساتھ مگر الگ الگ اسکولوں میں پڑھ کر پاس کی تھیں ۔ایک ہی جماعت میں پڑھنے اورپڑوسی ہونے سے زیادہ ،غیر نصابی کتابوں کے شوقِ مطالعہ نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا تھا۔
اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے بر عکس ،کھیل کود میں وقت گزارنے کی بجائے، ہمارا زیادہ تر وقت نئی نئی کتابیں پڑھنے میں صرف ہوتا تھا۔ہم نے اپنے مطالعاتی سفر کا آغاز،آنے دو آنے میں ملنے والی شہزادے ،شہزادیوں اور ٹارزن کی مصور کہانیوںکیا تھا۔ان مافوق الفطرت مگر دلچسپ کہانیوںسے سیری کے بعد بچوں کی دنیا،تعلیم و تربیت اور سائنس کی دنیا کی قسم کے رسالے ہمارے ہاتھ آئے۔آخر آخر میں اسکولوں کی لائبریریاں ہمارا نشانہ بنیںاورتاریخی ناولوں کو ضد باندھ کر، ایک ایک دن اور پھر ایک ایک نشست میں ،پڑھناہمارا دستور ہو گیا۔ایک ہی کتاب کو باری باری پڑھ لینے کے بعد ہم اس پر تبصرہ بھی کرنے لگے تھے۔ایک بات جس کی ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی، یہ تھی کہ شہزادی اور شہزادے کی رنگ رلیوں میں بھنگ ڈالنے والی عورت اکثر و بیشتر باندی ہی کیوںہوتی ہے؟ اور مردِ مجاہد کے عشق کا محور ہمیشہ کافر زادی ہی کیوں ٹھہرتی ہے؟ مومن زادیاں شادی کی پہلی رات کو ہی مجاہدوں کو جنگ کے میدان میں کیوںجھونک دیتی ہیں؟  اسلامی تاریخی ناولوں میں ،ہماری ضرورت سے زیادہ دلچسپی کو مدِنظررکھتے ہوئے ہمارے بڑوں نے اشارے کنائیوں میں ہمیںسمجھا دیا کہ ہم اب بچے نہیں رہے ۔ اکٹھے بیٹھ کرہمارا ناولوں کا، اگرچہ وہ اسلامی اور تاریخی ہی کیوں نہ ہوں، مطالعہ کرناٹھیک نہیں۔یوںہماراایک ساتھ بیٹھ کر پڑھنا موقوف ہو گیا حالا نکہ نہ تو میں مردِ مجاہد تھا اور نہ ہی رابعہ کافر زادی تھی۔تا ہم ہمارے ملنے جلنے پر کوئی پابندی نہیں لگی تھی۔ہم کتابوں کا تبادلہ کر سکتے تھے ۔پڑھی ہوئی کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتے تھے ۔
’’بنڈل ہے‘‘
’’بنڈل اور بور ہے‘‘
’’ایک بار پڑھنے میں کوئی ہرج نہیں‘‘
کسی کسی کتاب کو’’اچھی ہے‘‘کااعزاز بھی مل جاتا تھا
رابعہ کے باپ کا تبادلہ ہو گیا ۔ہمارے پڑوس میں نئے لوگ آ گئے رابعہ کا نام ذہن کی سلیٹ سے مٹتا چلا گیامگر میری کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں چھوٹی ۔ میں اسلامی تاریخی ناول پڑھتارہا مگر نہ تو وہ مجھے مردِ مجاہد بنا سکے اور نہ ہی میں مجاہد مردوں کو بدل سکا۔مجبوراً میں نے لائن بدل لی۔اب منٹو،احمد ندیم قاسمی ،بیدی ،کرشن چندر،اور اس قبیل کے دوسرے کہا نی کارمیری کمزوری بن گئے۔
رابعہ چائے میرے سامنے رکھ دی۔چائے پیتے ہوئے،موضوعِ گفتگوکی تلاش میں ،میں نے منٹو کو آگے کر دیا
 ’’ منٹو کو کبھی پڑھا ہے‘‘
’’پڑھا ہے مگروہ مجھے کچھ زیادہ ہی زنانہ مصنف لگتا ہے‘‘
’’پھر تو تمہیں عصمت چغتائی کچھ زیادہ ہی مردانہ مصنفہ لگتی ہو گی‘‘
وہ ہنس پڑی’’آج کل زور بہشتی زیور پر ہے‘‘
’’یہ تو تم اچھا کر رہی ہو مگر اس آخری باب ابھی نہیں پڑھنا‘‘
’’کیوں نہیں پڑھنا۔ میں نے تو شروع ہی آخری باب سے کیا ہے‘‘
اتنے میں رابعہ کے والد آ گئے۔انہوں نے بھی تعارف کے بغیر ہی مجھے پہچان لیا۔رابعہ کچن میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے اٹھ گئی اور وہ مجھ سے باتیں کرنے لگے ۔انہوں نے اپنی عمر کے لوگوں کی باتیں چھیڑ دیں ۔فلاں کیسا ہے؟ فلاں کیا کرتا ہے؟ فلاں اب کیسے چلتا ہے؟جو لوگ زندہ تھے ان کے بارے میں، میں نے انہیں بتایا۔جو نہیں رہے تھے ،ان کے بارے میں، انہوں نے باتیں کیں۔ تعلق خواہ کتنا بھی موہوم ہو،دل ودماغ کے کسی نہ کسی کونے میں چھپا رہتا ہے ۔آدمی کتنا بھی آگے نکل جائے ،پیچھے رہ جانے والے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔چھوٹی ہوئی محفلیں،ٹوٹی ہوئی رفاقتیں اورمٹتی ہوئی پہچانیں ،زند گی بھر دبے پاؤںہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں ۔پڑاؤ ڈالتے اور اسبابِ سفر کھولتے ہی یادیں شریکِ بزم ہو جاتی ہیں۔ کھانا کھا لینے کے بعد رابعہ نے اپنے والد کو یاد دلایا کہ آج ان کو کسی ضروریکام سے بغداد الجدیدجانا ہے تو وہ معذرت کرتے ہوئے اٹھ گئے۔
رابعہ نے میری ماں کے بارے میں پوچھا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ سمجھ گئی کہ ماں نہیں رہی۔ مجھے تو چپ لگی ہی تھی ،رابعہ بھی خاموش ہو گئی۔رابعہ کسی دن ہمارے گھر نہیں آتی تھی توماں متفکر ہو جاتی تھی ۔وہ دوسرے دن بھی نہ آتی تواس کی خیریت پوچھنے ان کے گھر چلی جاتی تھی ۔میری دو بڑی بہنیں اپنے اپنے سسرال میں تھیںاور دور دراز کے فاصلوں کی وجہ سے سالوں میکے آ نہیں پاتی تھیں۔ماں ان کو دن میں کئی کئی بار یاد کرنے کے باوجودجلدی جلدی میکے کا چکر لگانے کے لئے اس لئے نہیں کہا کرتی تھی کہ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں ہی رہتی اچھی لگتی ہیں ۔رابعہ کی شکل میں اسے پلی پلائی بیٹی مل گئی تھی تو وہ اس کا خیال کیوں نہ رکھتی۔یہی وجہ تھی کہ گھنٹوں ہمارے گھر گزارنے کے باوجود اس کے گھر والوں کو اس کا دھیان یا دوسرے لفظوں میں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔
یادوں نے یکا یک فضا کو ابر آلود کر دیا تھا۔پلکوں کے نیچے اور آنکھوں کے اندر دکھائی نہ دینے والی بوندا باندی ہونے لگی تھی۔گزرے ہوئے واقعات ساون اور بھادوں کے بادلوں کی طرح چھپا چھپائی کا کھیل کھیلنے لگے تھے۔سیاہ و سفید بادل تیزی کے ساتھ مختلف شکلیں بنانے لگے تھے۔شکلیں یوں ایک دوسرے میں گڈ مڈہو رہی تھیں کہ ان گنت چہروں میں شناسا چہروں کی پہچان ناممکن ہونے لگی تھی۔مگر ماں کا چہرہ ان سے مستثنیٰ تھا۔تبھی اچانک مجھ پر منکشف ہوا کہ زندہ احساس کے ساتھ، چند لمحوں کے لئے بھی کسی کی یاد میں چپ ہو جانا ،اسے کتنا بڑا خراج ادا کرنا ہے ۔ رابعہ کی طرح میں بھی سال بہ سال بدلے جانے والے کیلنڈر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ہم برسوں تک برسوںکے بعد آنے والے مختصر سے لمحوں کے رستے میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی خوشیاں لے کر آئے گامگر وہ لمحے ٹوٹتے ہوئے تارے سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتار کے ساتھ جل کر بھسم ہو جاتاہے۔ ہماری جھولی میںٹوٹے ہوئے خوابوںاور جلی ہوئی یادوں کی راکھ رہ جاتی ہے۔جن سانسوں کو ہم زندگی کی علامت قرار دیتے ہیں ، وہ در اصل ہمیں موت سے قریب لے جانے کا عمل ہے۔زندگی موت کے نا محسوس کھیل کا نام ہے۔
رابعہ اور میں نے کئی سالوں تک،پہروں اکٹھے بیٹھ کر جنوں ،پریوں،شہزادوں،شہزادیوں ،درختوں جنگلوں،گلہریوں،پہاڑوں ،آبشاروں ،بہاروں اور ان گنت خوبصورت چیزوں کی باتیں کیں تھیں مگر ماں کی موت کے تذکرے نے ہم سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ہم چپ بھی تھے اور ایک دوسرے سے ہم کلام بھی تھے۔
کسی نے اپنی پوری قوت سے دروازہ پیٹ ڈالااور ہم لا موجود سے وجودمیں آ گئے۔رابعہ نے راہداری میں جا کر دروازہ کھولا۔۔۔’’کیا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی تم؟‘‘آنے والی رابعہ پر برس رہی تھی’’ گھنٹے بھر سے گھنٹی پر گھنٹی پر بجا رہی ہوں مگر کوئی جواب ہی نہیں آ رہا تھا‘‘ایک وقفے کے بعدآنے والی نے سلسلہ ء کلام دوبارہ جوڑا تو اس کا لہجہ با لکل بدل چکا تھا’’اتنی دیر تک جواب نہ آنے کی وجہ سے مجھے توامی کی فکر ہونے لگی تھی،ٹھیک تو ہیں ناں وہ؟‘‘
’’تم بولنا بند کرو گی تو میں کچھ بول سکوں گی ناں‘‘
’’بولو‘‘
رابعہ کے کچھ بولنے تک وہ دونوںڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے تک آ چکیں تھیں۔آنے والی کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ رک گئی’’اچھا تودروازہ نہ کھلنے کی یہ تھی وجہ؟‘‘
’’نویدا! یہ میرے بچپن کے۔۔۔۔۔۔۔‘‘رابعہ فقرہ پورا کرنے سے پہلے ہی ہکلا کررک گئی۔ عورت ہونے کی مجبوری، اس پر غالب آ گئی تھی۔وہ اپنی زبان سے کوئی ایسا لفظنہیں نکالنا چاہتی تھی ،جس کے لئے، اسے بعد میں وضاحت پیش کرنا پڑ جائے۔
’’دوست نہیں تودشمن ہی کہہ دو‘‘ کتابی چہرے، میدے کی سی رنگت اور بولتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں والی،آنے والی نے کسی تکلف کے بغیر فقرہ اچھال دیا۔
’’ان کا نام ریاض ہے ۔چونڈے سے آئے ہیں‘‘رابعہ نے بات شروع کی
’’خیر سے آئے ہیں؟‘‘آنے والی نے پھر چوٹ کی۔رابعہ نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’چونڈے میں ہم ان کے پڑوسی رہے ہیں۔کتابیں پڑھنا اور سمجھنا ہم نے ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ان دنوں ہم بہت اچھے دوست تھے‘‘
’’شکر ہے رشتے کوکوئی نام تو ملا ۔ اب دوست نہیں ہیں ؟‘‘
’’ہو بھی سکتے ہیںمگر اب جب ہم بڑے ہو چلے ہیں ،تعلق کو کوئی نام نہ دینا ہی بہتر ہے‘‘
’’دل میں چور ہو تو ایسی تشریحات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اندھا پن اندھو ںکی مجبوری ہے مگر آنکھ والے تو دن اور رات میں تفریق کر سکتے ہیں؟‘‘
’’حقیقت کچھ بھی ہو،دنیا، آنکھ کے دیکھے سے زیادہ ،کان کے سنے پر یقین کرتی ہے‘‘
’’چلو فی الحال ہم اسے تجدیدِ ملاقات کہہ لیتے ہیں ‘‘
’’لڑکاکیا کرتا ہے؟‘‘
’’تمہیں دلچسپی ہے تو خود ہی پوچھ لو؟‘‘رابعہ کو بازی برابر کرنے کا موقعہ مل ہی گیا
’’اچھا تو ریاض بھائی آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’پڑھتا ہوں‘‘
’’ُپرائمری اسکول میں؟‘‘
’’کالج میںپہلے سال میں پڑھتا ہوں؟‘‘
’’کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’ماڈل ٹاؤن میں ‘‘
’’ماڈل ٹاؤن میں کہاں؟‘‘
’’ُپردیسی ہوٹل اینڈریسٹورنٹ کے پاس،پیلی کوٹھی میں‘‘
’’اتنے بھاری بھر کم الفاظ بول کر زبان کو تھکانے کی کیا ضرورت ہے؟پردیسی تندور کہہ لیں سیدھا سادھا ‘‘کتابی چہرے، میدے کی سی رنگت اور بولتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں والینے رابعہ کے بعد اب مجھے اپنے تیکھے فقروں کا نشانہ بنا لیا تھا۔
اس نے پردیسی تندور کا ذکر کیا ۔پردیسی تندور،کتابی چہرہ،میدے جیسی رنگت اوربولتی ہوئی نیلی آنکھیں۔یہ سب لمحے بھر کے لئے یکجا ہوئے تو خود بخودایک نام بن گیا۔
’’توآپ ہیںنویدہ ؟‘‘
 اس بار نویدہ کے چونکنے کی باری تھی۔ ’’ہاں ،میں ہی نویدہ ہوں۔آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’جیسے آپ پردیسی تندورکو جانتی ہیں‘‘
’’ہاں ،یہ تو ہے ۔چھوٹا سا شہر ہے ۔کسی نہ کسی حوالے سے جان پہچان تو نکل آتی ہے ‘‘
 ’’آپ ویدہ کی بڑی بہن ہیں ناں؟‘‘
’’ویدہ میری چھوٹی بہن ہے‘‘ اس کا جواب تھا
’’ایک ہی بات ہے‘‘
’’نہیں ‘‘اس نے اپنے جواب کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’ایک بات نہیں۔بڑے ہونے کااحساس ذمہ دار ی سکھاتا ہے۔محتاط رہنے کا سبق دیتا ہے اور دیکھ کر چلنے کا تقا ضا کرتا ہے۔ویدہ مجھ سے سات آٹھ سال چھوٹی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ میں اس سے صدیوں بڑی ہوں‘‘
اس کی جھیل ایسی نیلی او ر گہری آنکھوں میں شوخی اور ٹھہراؤ ایک ساتھ تھا۔لہجے میں بڑی بوڑھیوں جیسا اعتماد تھا۔وہ تشکیک کی منزلوں سے کہیں آگے نکل آئی تھی۔وہ چیزوں کواپنی سوچ کے پیمانے سے نہیں بلکہ ان کے اصلی قد سے پرکھ رہی تھی۔چند برس پہلے تک وہ ویدہ کی جگہ روٹیاں پکوانے آتی تھی۔
نواز، اُسے اپنی باتوں کی وجہ سے اچھا لگتا تھا۔نواز کے بارے میں باتیں کرنے میں وہ کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی ۔یہ نواز ہی تھا ،جس نے بے ماں کی چھوٹی سی بچی کو بڑی بوڑھیوں کی طرح سوچنا سکھایا تھا۔نواز خودکوایک ڈھال بنا کر فریدہ کوزمانے کے گرم و سرد سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ۔دودھ کے جلے کی طرح وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کرپی رہا تھا۔ نواز ایک ایسی غلطی کا کفارہ ادا کر رہا تھا، جو اس نے کی نہیں تھی۔نواز ایک ایسے جرم کی سزا بھگت رہا تھا ،جو اس نے کیا نہیں تھا۔ عمروں کے ایک بڑے فرق کے باوجود نواز اور نویدہ ایک دوسرے کے دکھ دردکو سمجھتے تھے۔کیا یہ کافی نہیں تھا؟
شاید وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔کسی کو ٹھیک سے سمجھ لینا، اسے پا لینے سے کہیںزیادہ افضل تھا۔نواز نے اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی مگرزند گی کی ٹھوکروں نے اسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔نویدہ،زندگی کی سچائیوں کوکتابوں کے ذریعے جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔میرے اور رابعہ کے بیچ میں کتاب کا رشتہ تھا۔کتاب ہی کے رشتے نے رابعہ اور نویدہ کو سہیلیوں کے رشتے میں باندھ دیا تھا۔نویدہ اور نواز، ایک دوسرے کو جانتے تھے،سمجھتے تھے،پسند بھی کرتے تھے مگر حا صل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔
فریدہ والے حادثے سے گزرنے کے بعدنواز نے دنیا ہی تیاگ دی تھی ۔نواز کے نزدیک کسی کو ڈھنگ سے تیاگ دینا،اُسے حیلہ جوئی سے پا لینے کی نسبت کہیں افضل تھا۔اس کی زندگی کی پہلی اور آخری شکست میں اس کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔اس کھیل میں اس کی حیثیت تو ایک مہرے کی تھی۔وہ کھیل ہی عجیب تھا۔کھیلنے والابھی جیت نہیں سکا تھا اور مہرہ بھی پَٹ گیا تھا۔نواز اس کھیل میں وہ مہرہ تھا کہ کھیلنے والے کی جیت یا ہار دونوں صورتوں میں اس نے پَٹنا ہی تھا۔
زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرزندگی اپنے اصل روپ میں سامنے آجاتی ہے ۔حقیقتوں کا ادراک ہونے لگتا ہے ۔خوابوں کی زنجیریں ٹوٹنے لگتی ہیں ۔رشتوں کا بھرم ٹوٹنے لگتا ہے ۔سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔اپنی پہچان کا یہ لمحہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ دنیا کو ترک کرنے والے اورجنگلوں اور ویرانوں میں بسیرا کر لینے والے پہچان کے لمحے کی پیداوار ہوتے ہیں یا کہ اپنی شکست کی آواز ہوتے ہیں۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE