|
پگڑ والا احمد علی نویدہ کی اکلوتی پھوپھی کا بیٹا تھا۔نویدہ اور خاص طور پرویدہ کو جب پھوپھی کی شفقت کی ضرورت تھی،پھوپھی کی ساری کی ساری توجہ اپنے چھوٹے اور چھٹے بیٹے کی دیکھ بھال پر صرف ہوتی رہی تھی ۔اپنے بیٹے کو نظر انداز کر کے وہ دوسرے کی بیٹیوں پر شفقت کیوں ضائع کرتی ۔تا ہم اب جبکہ اس کا چھوٹا بیٹا جوان ہو گیا تھا تو وہ بھائی کی بیٹی پر اپنا حق جتانے بھائی کے گھر آ بیٹھی تھی ۔ بھائی اور بہن کے بیچ دنوں سے، ایک سرد جنگ چل رہی تھی۔بہن نے اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ بیٹی کے باپ کا کہنا تھا کہ لڑکا ان پڑھ ہے اورلڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ بیٹے کی ماں کا سوال تھا کہ یہ سوچ اب ہی کیوں؟ بات تو ایک عورت اور ایک مرد کے بندھن کی ہے۔مرد کا نٹا ہے،عورت پھول ہے اوران دونوں کا بہت پرانا رشتہ ہے ۔انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جینا اور مرنا پڑ تا ہے۔ بھائی بہن سے پوچھتا تھا کہ بہن جانتے بوجھتے ہوئے بھائی کی بیٹی کو جہنم میں کیوں دھکیلناچاہتی ہے؟ بہن کاجواب تھا کہ اس نے بھی اس جہنم میں اپنی مرضی سے چھلانگ نہیں لگائی تھی۔ باپ دلیل دیتا تھا کہ ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز کیسے بن سکتی ہے؟ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سچا تھا۔رسم و رواج انہوں نے نہیں بنائے تھے۔وہ سب آدم کے وقت سے چلی آنے والی رشتوں کی زنجیر سے بندھے تھے۔صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آیا تھا۔بات ایک حد سے آگے بڑھنے لگی تو نویدہ بیچ میں کود پڑی۔ ’’تم سب بے کار میں جھگڑرہے ہو ۔میری مرضی تو پوچھ لو‘‘ سب کو اک چپ سی لگ گئی۔وہ کیا بولے گی؟کسی کو کچھ خبر نہیں تھی۔ساری کی ساری نظریں اس کے چہرے پر گڑ گئیں۔وہ کیا کہے گی؟ ’’مجھے یہ رشتہ منظور ہے‘‘ کہہ کر اس نے سب کو چونکا دیا۔ ’’کیوں؟‘‘اس حیرت میں اس کے باپ کے ساتھ ساتھ اس کی پھوپھی پھی شامل تھی۔کسی کو بھی اس جواب کی توقع نہیں تھی ۔ اس کے جواب نے سب کو چونکا دیا تھا۔لڑکیوں کے منہ سے کبھی کبھی ’’ناں‘‘کا لفظ تو سننے کو مل جاتا تھا مگر ایسی صورت میں لڑکی خود ہاں کہہ دے گی ، ایک ان ہونی بات تھی۔دستور کا خیا ل تھا یہ بھی قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ ’’اس لئے کہ میری ناں سے بہت سے لوگ متاثر ہوں گے‘‘اس نے دلیل دی ’’تمہاری ہاں سے بھی، بہت سے لوگ متاثر ہوں گے‘‘سننے والوں نے کہا نویدہ کی منگی کے لڈو،اس کے سسرال والوں نے گاؤںمیں شہر سے بلائے ہوئے حلوائی کے ہاتھوںخالص دیسی گھی سے بنوائے تھے۔انہیں بانٹنے کی رسم کے موقعہ پر نواز،رابعہ اور اس کے گھروالوں ،دستور اور مجھے بطورِ خاص بلایاگیا تھا۔سانجھے حالات اور دکھوں نے ہمیںغیر محسوس طور پراپنائیت کی ان دیکھی ڈوری میں پرو دیا تھا۔ ’’کیا پڑھی لکھی نویدہ پگڑ والے ان پڑھ دیہاتی کے ساتھ خوش رہ سکے گی؟‘‘میری چھٹی حس بار بار ایک ہی سوال اچھال رہی تھی ۔ میں بار بار یہ سوال نواز کی طرف سرکا دیتا تھااور وہ ہر بار میری بات، سنی ان سنی کر دیتا۔ ’’ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب دیا جائے‘‘یہ اس کا موقف تھا ’’مگر جواب ڈھونڈا تو جانا چاہیے‘‘ دستور نے بالآخر اپنافیصلہ سنا دیا۔ ’’میں نے زندگی سے ایک سبق ہی سیکھا ہے۔اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔اونٹ بھی عجیب جانور ہے ۔خود آگے کی طرف چلتا ہے اور اس پر سوار دائیں بائیں گھولتا ہے۔کبھی تو کسی رشتہ بنانے میںیہ قباحت ہوتی ہے کہ فریقین بے جوڑ ہیں ۔کبھی فریقین جوڑ کے ہو کر بھی بے جوڑ ٹھہرتے ہیں۔ ہونا کیا چاہیے؟‘‘ نواز نے بات کرتے کرتے آنکھیں بند کر لیں اورمراقبے میں چلا گیا ۔ایک لمبے مراقبے کے بعدمراجعت ہوئی تو ایک سوال داغ دیا۔ ’’تم دونوں میں سے کسی نے کبھی سمت کا تعین کئے بغیر صحرا میں سفر کیا ہے؟‘‘ ’’نہیں تو‘‘ہمارا جواب تھا ’’ تو پھر میں تمہیں کیا بتاؤں؟‘‘یہ ایک طرح سے نوازکی طرف سے اپنا موقف تفصیل سے بیان کرنے کا اعلان تھا ’’ میں نے صحرا میں سمت کا تعین کئے بغیر سفر کیا ہے۔اس سفر میں بار بار ایسے مرحلے آئے کہ زندہ رہنے کی امید دم توڑ گئی مگر ہر بارکسی ان دیکھے ہاتھ نے ،مجھے مرنے سے بچا لیا ۔کوئی راستہ نہ ہونے کے باوجودکوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا تھا۔ساوے پتوں والی لال کھجوروں کے جھنڈ صحراؤںمیں مناسب فاصلوں پر خود بخود اُگ آتے ہیں ۔لمبے دنوں کی تپتی دوپہروں میں اس حقیقت کے باوجود کہ بظاہرکوئی حیلہ جو نہیں ہوتا،انہی کجھوروں کے ساوے پتوں کے نیچے سے برف رنگ ’’ بور ‘‘ جنم لیتا ہے۔بے رحم لو ،لوریاں سنا سنا کربور سے خوشے بناتی ہے ۔ اِن خوشوں کی پرورش کرتی ہے اور انہیں لال رنگ کا چولا عطا کرتی ہے ۔ ہوا کا کوئی شریر جھونکا یا عادت سے مجبور کوئی پرندہ ادھ پکے’’ڈوکے‘‘زمین پر گرا تا ہے ۔پھرموت کے دروازے پر دستک دیتا ہوا کوئی درماندہ مسافر آتا ہے اور انہیں اٹھا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے تواسے لگتا ہے کہ اس نے مصری کی ڈلی منہ میں ڈال لی ہے۔حالآنکہ یہ حلاوت ان ادھ پکے ڈوکوؤں میں نہیںہوتی ،حلاوت انہیں بدن کی احتیاج عطا کرتی ہے، انہیں شہد سے بھی میٹھا بنا دیتی ہے۔آدم و حوا کی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو حاصل کرنے کے لئے انسانی حدیں تک پار کر جاتے ہیں۔’’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ کے نام پرحرام کو حلال بنا دیتے ہیں۔جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے داؤپر لگا دیتا ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہے ۔کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔ کوئی ایسا کلیہ نہیں ہے کہ جمع و تفریق یا ضرب و تقسیم کے فلاںعمل سے خوش گوار زندگی کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔جو نہیں چلنا چاہیے چل جاتا ہے ۔جو چلنا چاہیے وہ نہیں چلتا۔زندگی کے نا ہموار راستوں میںدر گذری کا پیمانہ چھلک چھلک جاتا ہے۔ منطقی میزان پرتولیں تونویدہ اور اس کا باپ بھی ٹھیک ہیں ،احمد علی اور اس کی ماں بھی ٹھیک ہیں۔تو پھر ٹھیک کون ہے؟ یہ کہانی اس کہانی کی طرح ہے۔جس میں دو اشخاص تیسرے کے پاس اپنا فیصلہ کرانے کے لئے آتے ہیں۔ وہ ایک فریق کی بات سنتا ہے اور فیصلہ سنا دیتا ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔دوسرا فریق احتجاج کرتا ہے کہ اس کی بات تو سنی ہی نہیں گئی۔تیسرا دوسرے کی بات سنتا ہے اور کہتا ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ چوتھا تعجب کرتا ہے کہ دونوں فریق ٹھیک کہتے ہیں تو جھگڑا کس بات کا ہے؟ تیسرا اس کی بات بھی سنتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔سب کہتے تو ٹھیک ہیں مگر ٹھیک کرتا کوئی نہیں ہے۔ ‘‘ باتوں باتوں میں نواز نے بات کو اتنا الجھا دیا تھا کہ دستورکو اسے روک کر اعلان کرنا پڑا کہ تم ٹھیک کہتے ہو اور خدا کے لئے اب ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ میں نے جواب ڈھونڈنے کی اپنی درخواست واپس لے لی۔ شادی کی تاریخ طے ہوئی توہم پرکھلا کہ شادی کے انتظامات کے لئے گھر میںنویدا کے معذور باپ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے،چنانچہ نواز نے ایمر جنسی (emergency ) کااعلان کر دیا ۔’’ پردیسی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ‘‘غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا۔دستور اور میں نے کالج سے چھٹی لے لی۔رابعہ اور اس کی ماں نے نویدہ کے گھر میں کیمپ آفس(camp office)بنا لیا۔ رابعہ اور اس کی ماںنے جہیز کی چیزوں،شادی کے جوڑوں اور ملنی کے کپڑوں کی لسٹ بنائی تو نواز نے چاول، گھی،چینی،مصالحوں، گوشت کا حساب لگا لیا۔نویدہ کے باپ نے اپنی جیب کو ٹٹولا۔ برات والے دن کے لئے صوفوں،کرسیوں،شامیانوں اورکراکری کا انتظام دستور اور مجھے سونپ دیا گیا ۔محلے والوں نے اپنے افرادِ خانہ کی احتیاطاً دوبارہ گنتی کر کے بتایا کہ برات والے دن براتیوں اور محلے والوں کو ملا کر کتنے لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت تھی ۔ غرضیکہ ہر کوئی بقدرِ ہمت شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔ دستور جو کام کاج کے معاملے میں ہمیشہ سے کاہل مشہور تھا،خوب بھاگ بھاگ کر کام کر رہا تھا۔اس نے مجھ سے صوفوں ،کرسیوں،شامیانوںاور کراکری کے سامان کی تین تین لسٹیںبنوا لی تھیں۔تا کہ ایک لسٹ کی گمشدگی کی صورت میں دوسری اور دوسری لسٹ کی گمشدگی کی صورت میں تیسری لسٹ سے کام لیا جا سکے۔اس کی زبان پر کوئی حرفِ شکایت تونہیں آیا تھا مگر وہ یہ ضرور کہہ رہا تھا کہ اگر شادی کے لئے یہ کچھ کرنا پڑتا ہے تو وہ لنڈورا ہی بھلا۔ جس پر نواز نے اسے جتا دیا تھا کہ لنڈورا تو وہ پہلے سے ہے۔دستور کی واقعتاً دم نہیں تھی۔ ہماری پوری کوششوں کے باوجودبہت سے ایسے لوازمات تھے ، جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ نویدا کی شادی اس لحاظ سے روکھی سوکھی رہی کہ اس شادی میں تیل مہندی کی رسم ہوئی ، نہ ڈھولک بجی اور نہ ہی گیت گائے گئے۔شادی سے پہلے کی رات عام راتوں کی طرح سے تھی۔علیٰ الصبح ٹینٹ سروس والے آئے اور شامیانے نصب کر کے کرسیاں اورمیزیں لگاگئے۔کھانا پکانے والے آئے اور کھانا پکانے میں جٹ گئے۔ گیارہ بجے کے لگ بھگ بارات آئی۔پگڑیوں والے ،لشکارے مارتی ہوئی ڈانگیں تھامے لاری سے نکلنے لگے۔بڑے پگڑ والا دراز قد اور تنو منددولہا سب کے بعد لاری سے نکلا۔اس کا چہرہ سہرے میں چھپا ہوا تھا اور کندھے پھولوں کے ہاروں سے لدے ہوئے تھے۔دولہے کے بعدگنتی کی چند عورتیںاتریں جنہوں نے گہرے رنگوں کے گوٹے کناری والے کپڑے پہن رکھے تھے۔بارات کی تواضع ٹھنڈے دودھ سوڈے کے ساتھ کی گئی ۔پھر نکاح پڑھایا گیا۔لگ بھگ دو بجے مردوں کے لئے کھانا کھولا گیا۔مردوں کے بعد عورتوں کو کھانا کھلایا گیا۔ جہیز کے لاری پر لادے جانے تک دن ڈھل چکا تھااور رخصتی کی گھڑی آن پہنچی تھی۔بچھڑنے کا موسم سر پر کھڑا تھا۔ویدہ عجیب حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔جس عمر میںبڑی بہن نے گھر سنبھالا تھا ،اسی عمر میں چھوٹی بہن گھر سنبھالنے جا رہی تھی ۔دل بو جھل ہو گئے تھے اور آنکھوں کے پیمانے کناروں تک لبا لب بھر چکے تھے۔ہر کوئی انہیں چھلکنے سے باز رکھنے کی کو شش میں تھا۔ نویدہ کو باہر لایا گیا۔دولہا اور دولہن ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے۔چھوٹی بہن بڑیبہن کے کندھے پر سر رکھ کر روئی۔باپ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دی اور داماد کے کندھے پر تھپکی دے کر بیٹی سے آنے والے دنوں میں سر زد ہونے والی غلطیوں کی درگزری کی درخواست کی ۔باراتی لاری میں سوار ہو چکے تھے ۔دولہا اور دولہن سوار ہو گئے تو لاری منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ شامیانوں کے اتارے جانے اور کھانے کے برتنوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد ہم نے واپسی کی ا جازت چاہی تو نویدہ کے باپ نے ہمارا شکر یہ ادا کرتے ہو ئے رات کا کھانا کھا کر جانے کے لئے کہامگر ہم نے بھوک ہونے کے باوجود بھوک نہ ہونے کا بہانہ کر دیااور پر دیسی ہوٹل اینڈریسٹورنٹ میں لوٹ آئے۔نواز نے دوکان کا دروازہ کھولا اور چار پائیاں باہر نکالنے لگا۔ ’’چار پائیاں کیوں نکال رہے ہو استاد؟‘‘دستور نے اسے روکتے ہوئے کہا’’کچھ خبر بھی ہے ؟ مدھو بالا کی فلم لگی ہوئی ہے اور آخری دن ہے آج۔‘‘ ’’تو ؟‘‘ ’ ’تو کیا؟ دیکھ آتے ہیں‘‘ ’’آج نہیں۔پھر لگے گی تو دیکھ لیں گے‘‘نواز کے لہجے میں ایک عجیب سی اداسی اور تھکن اتر آئی تھی‘‘ ’’جیسے تمہاری مرضی‘‘دستورغیر ارادی طور پر چار پائی کی ادوائین پر بیٹھ گیا۔خستہ رسی اس کا بوجھ نہیں سہار سکی اور ادوائین کی رسیاں تڑک سے ٹوٹ گئیں۔وہ بوکھلا کر دوسری چار پائی کی ادوائین پر بیٹھا تو اس کا حشر بھی پہلے سے بہتر نہیں ہوا ۔ البتہ یہ ضرورہوا کہ نواز کی حسِ مزاح جاگ اٹھی اور اس کے ہونٹوں پر مسکرا ہٹ کھیلنے لگی۔
’’چلو با با چلو،چلے چلتے ہیں کھیل دیکھنے۔ورنہ آج چار پائیوں کی خیر نہیں‘‘دستور نے کھیل کی تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ ذرا تفریح ہو جائے گی مگر فلم نے ہمیں اوربھی افسردہ کر دیا۔مگر اداسی کوئی پوشاک تو تھی نہیں کہ اپنی مرضی سے اسے اتار لیا جائے۔انسانوں اوردکھوں کا تو شاید چولی دامن کا ساتھ ہے۔انہیں تو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے عمر بھر ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ان کا ساتھ تو اس وقت ٹوٹتا ہے جب زندگی کے پاؤں سے حرکت اور حرارت دونوں روٹھ جاتے ہیں۔ نویدہ، سسرال سے لوٹی تو خاصی خوش تھی ’’ میں کہتا تھا ناںکہ سب ٹھیک ہو جائے گااور دیکھ لو ،سب ٹھیک ہو گیاہے ‘‘ دستور نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا ’’ یہ چناؤ وناؤ تو بس کہنے کی باتیں ہیں۔سب ٹھیک ہو جاتا ہے خود بخود، وقت آنے پر ‘‘ ’’ تم ٹھیک کہتے ہو برخور دار ‘‘ نواز نے اسے بھاگنے کا موقعہ نہیں دیا ’’ جانوروں کو دیکھ لو۔وہ چناؤ یا انتخاب کے چکر میں پڑتے ہیں کیا؟ وہ نظریۂ ضرورت کے تحت نظرےئے اور ضرورتیں بدلتے رہتے ہیں اور چھری کے نیچے آنے تک کی زندگی کامیا بی کے ساتھ گزاردیتے ہیں ‘‘ ’’اور دیکھو کتنے خوش رہتے ہیں؟‘‘دستور ہار ماننے والوں سے نہیں تھا ’’گدھوں کو کبھی کسی نے اداس ہوتے نہیں دیکھا‘‘ نواز جھلا کر بولا ’’مگر آج میں نے دیکھا ہے‘‘دستور کی حسِ مزاح آج کچھ زیادہ ہی موزوںلگ رہی تھی اس سے پہلے کہ نواز کوئی جواب دیتا اور سڑک پار سے پگڑ والے کو آتا دیکھ کردونوں چپ ہو گئے۔ احمد علی کواپنی طویل القامتی اورپگڑ کی وجہ سے ہزاروںکی بھیڑ میں بھی پہچاننامشکل نہیں تھا۔ ]’’السلام علیکم‘‘’’وعلیکم السلام‘‘ اس کے استقبال کے لئے ہم تینوں کھڑے ہو گئے۔ احمد علی نے باری باری ہم تینوں سے ہاتھ ملایااور پھر ہمارے پاس بیٹھنے کی بجائے تندور کی فرشی نشست پر بیٹھے ہوئے نواز کے پاس آلتی پالتی مار کربیٹھ گیا۔’’کھانے کو کیا ہے؟‘‘ ’’بہت کچھ ہے مگر گھر۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’اگر مگر کو چھوڑو بھائی۔کچھ ہے تو دے دو۔وہاں سب کے سامنے رَج کر کھایا نہیں گیا‘‘کھانا کھانے کے بعداحمد علی کی فرمائش پر ہمیں فلم کا پرو گرام بنانا پڑ گیا۔باتوںکے دوران جہاں جہاں موقعہ نکلتاوہ نویدہ کے بارے میں بھی بات کرتا جاتا۔مثلا یہ کہ وہ بہت بھولی بھالی ہے۔وہ سمجھتی تھی کہ گندم کے درخت ہوتے ہیں۔گڑگنے کے پودوں کے ساتھ ڈلیوں کی شکل میں اگتا ہے مکئی کے سٹے مکئی کے پودے کی چوٹی پر اُگتے ہیں۔۔ہم اس کی باتیں سنتے اور ہوں ہاں کرتے رہے۔گھر کے نزدیک پہنچ کر اس نے ہمیں گاؤں آنے کی دعوت دے ڈالی جسے نوازنے کچھ پس و پیش کے بعد قبول تو کر لیا مگر وقت کا تعین نہیں کیا۔ ہم نے گاؤں کی سیر کا پروگرام بنانے میں جلدی نہیں کی ۔سب کا متفقہ فیصلہ یہی ٹھہرا کہ ایک تو نویدہ اور احمد علی کی شادی ذرا پرانی ہو جانی چاہیے اور دوسرے موسم کچھ ٹھنڈا ہو جانا چاہیے۔گاؤں کی سیر کا لطف تو دسمبر کی کپکپی طاری کر دینے والی راتوں میںچارپائیوں پر رضائیوں میں بیٹھ کرگنے چوسنے کا مقابلہ کرنے،میٹھی میٹھی دھوپ میں مکی کی گرم گرم روٹی پر مکھن والا ساگ رکھ کر کھانے اورڈھلتی ہوئی شام میں چاول کے مرمرے ٹھونسنے میں ہے۔دوسرے چھوٹے لوگوں کی طرح ہماری خواہشیں بھی بہت چھوٹی چھوٹی تھیں،اتنی چھوٹی کہ اک بار تالاب میں ناچتے ہوئے مچھلی کے پونگ کی طرح ہاتھ سے پھسل جائیں تو عمر بھر ہاتھ نہ آئیں۔ احمدعلی کے گاؤں میں پہنچنے کا راستہ آسان نہیں تھا ۔بہاولپور سے روزانہ ایک لاری یزمان کے لئے روانہ ہوتی تھی۔اس لاری میں سیٹ حاصل کرنے کے لئے فجر کی نماز کے فورا بعد لاری اڈے کی طرف بھاگنا اور بر وقت ٹکٹ حاصل کرنا پڑتا تھا ۔ راستے میں جھال والے پل پر اتر کر دو ڈھائی میل نہر کی پٹڑی پر چلنا ہوتا تھا ۔پٹڑی ختم ہوتے ہی بائیں طرف گردن موڑ کر چار پانچ کوس چلتے رہنے کے بعد ہریالی ختم ہو جاتی تھی۔اور صحرا شروع ہو جاتا تھا ہوتا تھا۔ یہاں سے پھر بائیں جانب گردن گھمانے پر اونچی اور لمبی کھجوروں کے جھنڈ دکھائی دینے لگتے تھے ۔ انہی کھجوروں کی سیدھ میں چل کر احمد علی کا گاؤں آتا تھا۔گاؤںاور پٹڑی کے درمیان ریت کے ٹیلے حائل تھے۔ان کو عبور کر کے گاؤں پہنچنا چلنے والے کی مہارت اور ہمت پر منحصر تھا۔ریت کے ٹیلے قدم بڑھانے نہیں دیتے تھے اور دور سے نظر آ نے والے کجھوروں کے جھنڈ گاؤں کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔گاؤں کو جانے والا سیدھا راستہ جھال والے پل کی طرف سے نکلتا تھا اور اس آسان راستے سے دوگنا لمبا تھا ۔ سیدھے راستے کو اس کی طوالت کی وجہ سے کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ہاں ،کوئی بھول چوک کر ادھر چلا جائے تو دوسری بات تھی۔اپنے آنے کی پیشگی اطلاع پراحمد علی جھال والے پل پر گائیڈ کھڑا کر سکتا تھامگر نواز کا کہنا یہ تھا کہ بتا کر جانا بھی کوئی جانا ہے؟کسی دن اچانک دہاوا بولیں گے اور وہاں پہنچ کر انہیں حیران کر دیں گے اور یہ کہ سفر کا مزا ،راستے کی دشواریوںمیں چھپا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسے مڈل اسکول میںاردو کی کتاب میں پڑھی ہوئی ،مرزا ظاہر دار بیگ والی کہانی ابھی تک یاد تھی اور وہ اچانک گاؤںپہنچ کر نویدا اور احمد علی کوچونکا دینا چاہتا تھا۔ وہ دسمبر کی ایک صبح تھی اور ہم سورج نکلنے سے پہلے لاری اڈے پہنچ کر اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے مگر سواریاںپوری نہ ہونے کی بنا پر لاری وقتِ معینہ سے صرف تین گھنٹے لیٹ روانہ ہوئی۔اس دوران مسافر گنجائش سے لگ بھگ ڈیڑھ گنا ہو چکے تھے ۔بس کی رحم دل انتظامیہ نے انہیںپیچھے چھوڑ جانا مناسب نہ سمجھااور ایک ہی لاری میںمحمودہ و ایاز کو ٹھونس ٹھونس کر بھر لیا۔دو چھوٹے بچے ہمارے حصے میں بھی آ گئے۔نواز انہیں کھلانے اور دستور انہیں بہلانے میں مصروف ہو گیا۔میں کھڑکی کی طرف بیٹھے ہونے کی وجہ سے کسی کارِ خیر میں ہاتھ بٹانے سے محروم رہ گیا۔ مسافروں کے خدا خدا کر نے پر لاری چلی تواس میں سوار بچوں کی ماؤں سکون کا سانس لیاکیوں کہ انجن سے نکلنے والی چوں چوں نے روتے ہوئے بچوں کی بولتی بند کردی تھی۔لاری سڑک پر سائیکلیں دوڑاتے ہوئے سائیکل سواروں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی شہر سے باہر نکل آئی ۔درخت، کھیت اورپرندے ابھی سرما کی دھندکی چادر اوڑھے سو رہے تھے۔لاری کے پرانے انجن کی کھڑکھڑاہٹ سوئے ہوئے پرندوں کوجگاتی اورآوارہ کتوں کو بھگاتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ لا ری کے مسافروں میں ہم اپنے لبا س کی وجہ سے مختلف دکھائی دے رہے تھے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ راستے میں ایک حوالدار بادشاہ بھی سوار ہوا تو ہمیں سیٹ خالی کرنے کے لئے نہیں کہا گیا حالآنکہ وہاں صاف صاف لکھا ہوا تھا کہ فرنٹ سیٹ بوقتِ ضرورت خالی کرائی جا سکتی ہے۔لاری کے اندر کی دیواروں پر جا بجاکار آمد باتیں لکھی ہوئی تھیں جن سے مسافر اپنی ناخواندگی کے باعث فائدہ اٹھانے سے معذور تھے۔ ]راستے میں ایک جگہ لاری رکی تو ایک خاندانِ غلاماںکی قسم کا ایک منحنی ساآدمی شاہی گولیاں لے کر سوار ہو گیا ۔یہ گولیا ں ہمہ صفت تھیں ۔کھانسی ،نزلہ زکام ،پرانا بخار،جوڑوں کا درد ،کمر کا دردغرضیکہ ہر مرض کی مجرب دوا تھیں ۔عورت اورمرد دونوں اس کے فوائد سے بہرہ مند ہو سکتے تھے۔ ان گولیوں کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ یہ گولیاں کم سن بچوں سے لے کر قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے بوڑھوں تک ،سب کے لئے یکساں مفید تھیں۔جنس ،عمر اور مرض کے ساتھ ساتھ ان کی خصوصیات خود بخود بدلتی جاتی تھیں۔ بیچنے والے کو یہ نسخۂ خاص ایک بابے نے بدستِ خود عطا کیا تھااور تاکید فرمائی تھی کہ کسی سے علاج کے پیسے نہ لینا۔بابا جی کی ہدائت کے مطابق وہ کسی سے بھی علاج کے پیسے وصول نہیں کرتاتھا ،’’فقط‘‘دوا کی قیمت وصول کرتاتھا۔ اس کا طریقۂ علاج سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا ،جہاں علاج مفت ہوتا تھامگر دوائیاں بازارسے خریدنا پڑتی تھیں۔ہسپتالوں میںسرکارکی طرفسے بھیجی جانے والی دوائیاں ہسپتال میں کام کرنے والے اپنے اپنے باباؤں کے لئے لے جاتے تھے۔ جالینوس کے اقوال سے لے کر علامہ اقبال کے اشعار مسافروں کی نذر کرنے کے بعد اس نے ،ان گولیوں کے پر اثرہونے کی تصدیق ہم جیسے پڑھے لکھے ماہرین سے کروائی تو نواز نے کچھ بولے بغیر گردن ہلا کر اس کے بیانات پر مہرِثبوت ثنت کر دی ۔اس کے صلہ میں وہ ہمیںجاتے ہوئے شاہی گولیوں کی ایک ایک شیشی مفت دے گیا۔’’اپنے تندور سے تو یہ دھندا ، اچھا ہے‘‘ نواز نے سر گوشی کی اور گولیوں کی شیشی پیچھے بیٹھے ہوئے ایک ضرورت مند کو مفت دے دی ۔دستور نے البتہ اپنے والی اور میرے والی شیشی اپنے گاؤں کے کسی مستحق کو دینے کے لئے محفوظ کر لی۔ جھال والے پل تک لاری خالی ہو گئی تھی۔ہم لاری سے اترے اورپانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔نہر کے دونوں کناروں پرلگائے گئے آموں اورجامنوں کے بوڑھے درخت ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔درختوں کی چھاؤں،بہتے ہوئے پانی اور دسمبر کی ٹھنڈی ہوانے ،ایک ساتھ مل کر کپکپا ہٹ طاری کر دی ۔ ’’کھجوروں والا چک کتنی دور ہے؟‘‘دستور نے سامنے سے آنے والے ایک مسافر سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا ’’بہت دور نہیں ۔تم اس رفتار سے چلتے رہے تو ڈیڑھ دو گھنٹوں میں پہنچ جاؤ گے‘‘ ’’راستہ مشکل تو نہیں؟‘‘ ’’نہیں ،وہاں کی کھجوریں دورسے اپنا سراغ دے دیتی ہیں‘‘ سورج درختوں کے پیچھے چھپتا چھپاتا ہمارے سروں کے اوپر آن بیٹھا تھا۔نہر کی پٹڑی ختم ہو گئی نواز نے قافلے کی کمان سنبھال لیاور ہم ریت کے ٹیلوں کے بیچوں بیچ تانک جھانک کرتی ہوئی اونچی ،لمبی اور ساوی کھجوروں کی سیدھ میں چلنے لگے۔ٹیلوں سے گزرتے ہوئے کھجوریں کبھی تو آنکھوں سے غائب ہو جاتیںاور کبھی اس بے رنگ منظر میں رنگ بکھیرنے لگتیں۔ہم اپنی منزل کی طرف بڑھتے گئے حتیٰ کہ ریت کا سفر تمام ہوا اور ہریالی ہمارے قدموں میں اگنے لگی۔راستے میں ملنے والوں سے دعا سلام کرتے اور احمد علی کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے ہم چوپال تک پہنچ گئے۔ چوپال کے دائیں طرف کچی مٹی کی وسیع چار دیواری کے پیچھے احمد علی کا پختہ مکان دکھائی دے رہا تھا ۔بائیں طرف مسجد تھی ۔ دستورنے اپنی پسندیدہ تمہید’’میں کہتا تھا ناں‘‘باندھ کر اپنی بات شروع کر نے کا اعلان کیا۔ہم احمدعلی کے گھر کے بیرونی دروازے سے گزر کررہائشی مکان کے دروازے کی چوکھٹ پر دستک دینے ہی والے تھے کہ اندرونی چار دیواری سے خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک آوازنکلی اور پگھلے ہوئے گرم سیسے کی طرح ہمارے کانوں میں اترتی چلی گئی’’کیا کرنا ہے شہر جا کر؟ ‘‘نویدا کی ساس اس سے مخاطب تھی’’ابھی دو ماہ پہلے تو گئی تھی تم۔اپنے یاروں سے ملنے کو پھر جی کر رہا ہے؟‘‘ ’’ہاں۔ہاں۔ اپنے یاروں سے ملنے کو پھر جی کر رہا ہے۔آپ کوکوئی اعتراض ہے؟اور اگر کوئی اعتراض ہے تو وہ شادی سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘نویدہ کی آواز میں ہمیشہ کی طرح ایک ٹھہراؤ تھا۔ دستک کی خواہش پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکی تھی۔ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔یہ کیسا سر پرائزSURPRISE))تھا؟آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو پلکوں پر ٹپکنے سے پہلے ہی خشک ہوچکے تھے۔ نوازنے کچھ بولنا چاہا مگر بول نہیں پایا۔ دستک دینے کا حوصلہ تو نہیں رہا تھا مگر اتنے قریب آ کرلوٹ جانا بھی تو ٹھیک نہیں تھا۔نواز نے کچھ توقف کے بعد دستور کواشارہ کیا اور اس نے دستک دے ہی ڈالی ۔ احمد علی باہر آیا۔ہمیں دیکھ کر ٹھٹھکا ۔’’ بے بے جی ! بہاولپور سے مہمان آئے ہیں‘‘ پکار کر گھر والوںکوہماری آمد سے مطلع کیا اور ہمیں اندر لے گیا۔’’بسم اللہ،جی آیاں نوں‘‘احمد علی کی ماں ہمیں دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔نویدہ نے آہستگی سے ہمارے سلام کا جواب دیا اور چارپائیاں سیدھی کر کے ان پر کھیس بچھا نے میں مصروف ہو گئی ۔ ’’ابھی کچھ دیر پہلے ہم آپ لوگوں کو ہی یاد کر رہے تھے‘‘نویدہ کی ساس نے انکشاف کیا۔مصلحت کا پانی نفرت کی آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو اتنی جلدی ٹھنڈا کر دے تھا، اس کی ہمیں ہرگز امید نہیں تھی ۔چو کھٹ سے باہر دکھائی دینے والے دھوئیں کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔نویدہ کی ساس ہمیں بتا رہی تھی ۔ ’’پتہ ہے؟ نویدہ جب کبھی یہ کہتی ہے کہ اُس کاکوئی بھائی نہیںہے تو میں اُسے سمجھاتی ہوں۔ایسا نہ کہو بیٹی،تمہارے تو ایک دو چھوڑ تین تین بھائی ہیں۔ہیں ناں؟ ‘‘ ’’ ہیں اور ضرور ہیں۔چاچی جی!‘‘دستور نے اتنی تیزی کے ساتھ ،نویدہ کی ساس کے ساتھ رشتہ جوڑاکہ چاچی تو چاچی نویدہ بھی ہکا بکا رہ گئی ۔پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ساس ،ساس سے ماںبن گئی۔پیڑھی سے اُٹھ کر اس نے باری باری ہم تینوں کے ماتھے چومے اور ہمارے سامنے والی چار پائی پر بیٹھ گئی ۔ کایا کلپ کا یہ عمل حیران کن حد تک ناقابلِ یقین تھا۔ نخلستان، آپ ہی آپ چل کر موت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے مسافروں کے سامنے آ گیاے تھا ۔ ماں نے میز چارپائیوں کے بیچ رکھ دی۔احمد علی دوکان سے ’تازہ ‘لڈولے آیا اورنویدہ چائے بنا لائی۔اتن طویل سفر کے بعد گھر کے دودھ کی بنی ہوئی چائے نے چائے کا ذائقہ ہی بدل دیا تھا۔احمد علی نے البتہ چائے کی بجائے دودھ کا گلاس پینے کو ترجیح دی۔لڈوؤں کی بات البتہ اور تھی ۔احمد علی اگر یہ لڈو ہماری موجودگی میں دوکان سے نہ لایا ہوتا تو ہم انہیں احمد علی اور نویدہ کی شادی کی مٹھائی کی باقیات میں سے سمجھتے۔بقول دستور لمبی عمر) long life (والے ان لڈوؤں کو ’’ بعد از روانگی مہمانات ‘‘دوکان دار کوواپس لوٹایابھی جا سکتا تھا۔ احمد علی کی ماں نے نویدہ کی سمجھ داری کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے ۔نویدہ مسکرا مسکرا کر اس کی باتوں کی تائید کرنے لگی۔ دسمبر کا سورج دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا تھا۔دیواروں کے سائے بڑھتے بڑھتے ہماری چارپائیوں تک آ چکے تھے۔اس دوران احمد علی کا’کاما‘ ایک مرغاذبح کرکے اس کی کھال اُتار چکا تھا۔نویدہ اور اس کی ساس ’’رسوئی ‘‘میں جا کرہمارے لئے کھانا بنانے میںمصروف ہو گئیں۔کاما حقہ تازہ کر لایا تھا۔وہ حقہ نواز کے سامنے رکھنے لگا تو احمد علی نے اسے روک دیا ۔ ’’ارے بھائی ،یہ شہری لوگ ہیں۔یہ حقہ نہیں سگریٹ پیتے ہیں۔ جاؤ ،بھاگ کر دوکان سے سگریٹ لے آؤ۔کون سے سگریٹ منگواؤں؟‘‘ ’’کوئی سگریٹ بھی نہیں۔ ہم سے کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا‘‘ ]’’ کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا؟‘‘احمد علی کے لئے یہ ایک ناقابلِ یقین بات تھی۔ اسے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سگریٹ پینا شہری زندگی کا ایک لازم و ملزوم حصہ تھا۔’’آپ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں؟‘‘اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ ’’ہم آپ کے ساتھ ایسا مذاق کیوں کریں گے؟‘‘نواز نے اسے یقین دلایا ’’وہ تو مجھے پتہ ہے کہ آپ میرے ساتھ مذاق نہیں کر رہے ۔مگر کیوں ؟‘‘ اس نے جواب دیامگر اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اسے اب بھی ہماری بات پر یقین نہیں آیا ہے۔ ’’اس لئے کہ ہم سگریٹ نہیں پیتے ہیں۔‘‘ احمد علی کسی کام سے باہر چلا گیا۔ نویدہ اور اس کی ساس اس سے پہلے ہی کھانا بنانے کے لئے رسوئی میں جا چکی تھیں۔ہم اکیلے رہ گئے تودستورکو اپنی ادھوری رہ جانے والی بات پھر سے یاد آ گئی ۔’’میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔‘‘اس نے اپنی ادھوری رہ جانے والی بات کا سلسلہ پھرجوڑنا چاہا مگر مسجد سے مغرب کی اذان شروع ہونے کی وجہ سے اسے درمیان میں ہی روک دیناپڑا۔نواز نے اپنے کندھے اچکا کر گویااپنی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ ’’اب نہیں تو پھر سہی مگر کبھی نہ کبھی میں اپنی بات کہہ کر ہی چھوڑوں گا ‘‘ دستور نے کہا ’’سائیں! شوق سے کہنا ۔تمہیں کوئی نہیں روکے گا‘‘ نواز نے اس کی ڈھارس بندھائی اور سبھی اذان سننے لگے۔ |